فیصلہ۔۔ اب قوم کی باری ہے

اتوار 4 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کسی قائد یا لیڈر کو پرکھنا  یو تو سیرت النبی کا مطالعہ ضروری ہے، محسن انسانیت جب اپنا پیغام دینے آئےتو آپ نے اپنے ماضی کو بطور ثبوت پیش کیا، لوگوں سے کہا کہ میں نے آپ کے درمیان چالیس سال گزارے ہیں، میں کیسا رہا ہوں، سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ صادق و امین ہیں، پھر آپ نے دعوت دی، بدقسمتی سے ھم ماضی کی غلطیوں پر توبہ کرنا یا ان غلطیوں کو چھوڑنا توہین سمجھتے ہیں ، پاکستانی سیاست میں بھی ھمارے رہنما اکثر ایسا کرتے ہیں، ایک دفعہ سنگین غلطی کر کے نہ رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی قوم سے معافی مانگتے ہیں، اس پر المیہ یہ ہے کہ قوم معاف بھی کر دیتی ہے یا بھول جاتی ہے،
 بد قسمتی سے سزا بھی قوم بھگتی ھے۔

میں نے اپنی زندگی میں چوک میں کھڑے ھو کر معافی مانگتے صرف عمران خان کو دیکھا ھے، جس نے پرویز مشرف کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی، مگر میاں محمد نواز شریف پر ھم نے کئی بار اعتبار کیا ھر مرتبہ ذات، خاندان، دولت، شہرت، بادشاہت اور غرور و تکبر ان کے آڑے آتا رہا ہے، اب دو سال بعد پھر حیران کن طور پر انقلابی ھو گئے ہیں، اور ان کی بیٹی دو ھاتھ آگے نکل کر صرف پریشر گروپ کے لیے جوش دکھا رہی ہیں، مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو چونکہ ھر مرتبہ چھوڑ کر جانے والے نواز شریف پر اعتبار کم ھے اس لئے مولانا فضل الرحمان صاحب پر سب سے زیادہ بھروسہ کیا جا رہا ہے اسی لیے کوئٹہ میں پہلا شو رکھا گیا تاکہ کامیاب ہو سکے، چونکہ وہاں علماء بھی اور مدرسے کے بچے بہت ہیں انہی بچوں پر تحریک کا دارومدار ہے، اور یہ بات انتہائی دکھ دہ ہے کہ مذھب کی آڑ میں یہ جوش زیادہ کام آتا ہے، کاش یہ بچے سمجھ جائیں، نواز شریف صاحب کا پہلا تنازعہ ھوا تو ٹی وی پر نمودار ہونے اور گویا ھوئے میں استعفیٰ نہیں دوں گا، استعفیٰ دے دیا، دوسری مرتبہ دس سالہ معاہدہ کر کے باھر چلے گئے، تیسری مرتبہ ووٹ کی عزت، اور کیوں نکالا کا سلسلہ شروع ہوا اور پلیٹ لیٹس کے ساتھ جھوٹی کہانی پر ختم ھوا اور آج دوسرے بھائی کو، اس کے بیٹے کو جیل بھیج کر باپ، بیٹی نے انقلاب کی آواز بلند کر دی اور وہ بھی انتہائی خطرناک جس کا انہیں احساس تک نہیں ہے، جو ان کے ساتھ ھے وہ ادارہ، وہ عدالت وہ فوج اچھی ھے باقی سب برے، یہ اصول رہ گیا، اگلے دن  ایک دوست کہہ رہے تھے کہ آصف علی زرداری نے نواز شریف کو آگے لگا کر بدلا لے رہے ہیں اور خود کنارے بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں، یا یوں کہیں کہ زرداری صاحب نے ھاتھ پاؤں باندھ کر میاں صاحب کو شیر کے آگے پھینک دیا،  دونوں جماعتوں کے پاس وہ کارکن نہیں رہے جو آگے بڑھ کر قربانیاں پیش کریں اس لئے ایک مرتبہ پھر مولانا فضل الرحمان صاحب اور ان کے جارح مگر پر خلوص کارکنوں کا استعمال ھو گا! مسئلہ سب کا ایک ھی ھے اور وہ ھے کرپشن پر پردہ، قرضوں پر چادر ڈالنا جن قرضوں نے قوم کو گروہی رکھا ھوا ھے، موجودہ حکومت دس ارب ڈالر کے حساب سے وہ قرضے واپس کر رہی ہے، حکومت کو آئی پی پیز کے مہنگے معاہدوں کا سامنا ھے، توانائی کے شعبے میں لگنے والے منصوبوں میں کمیشن، مہنگے معاہدوں، سمیت مافیا کا چیلنج درپیش ہے جس میں سے از سرِ نو معاہدے پاکستانی روپے میں کیے جا رہے ہیں، چالیس فیصد برآمدات بڑھ چکیں، اپنی تعمیراتی، سائنسی اور زرعی انڈسٹری کھڑی ہو رہی ہے، اداروں میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے،منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین بن گئے، ترسیلات زر میں، محصولات میں مسلسل اضافہ ھو رہا ھے، مگر احتساب سے خوف زدہ پھر اداروں کے خلاف میدان میں آگئے، حال ہی میں دبئی کے میگزین خلیج ٹائمز کے سروے کے مطابق 93 فیصد عوام اب بھی عمران خان کو ماضی سے بہتر وزیراعظم سمجھتے ہیں ، یہ کیسے ھضم ھو بی بی مریم کو یا قائد نواز شریف کو، کہتے ھیں فیصلے پارلمینٹ میں نہیں ھوتے، جس پارلیمنٹ کو آپ نے اپنی ضرورت کے علاؤہ کبھی اھمیت نہیں دی، وہاں کھڑے ہو کر آپ نے آمدن کے ذرائع بتانے کی کوشش کی اور عدالت میں مکر گئے کہ وہ سیاسی تقریر تھی قوم سے خطاب میں جو فرمایا وہ بھی سیاسی قرار دے کر چلتے بنے، یہ سچ، یہ دیانتداری ھے، قوم ، کا رکن اور ادارے کس طرح یقین کریں آج آپ کارکنوں سے وعدہ لے رہے ہیں کہ کھڑے رہیں گے ذرا سوچیں ماضی کے کس عمل کو سند تصور کریں، پلیٹ لیٹس کی کمی کو، ووٹ کی عزت کو، استعفیٰ نہیں دوں گا کو، کوئی ایک بتا دیں اس کو سند بنا کر ھم ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، جو کھیل آپ کھیل رہے ہیں اس پر سخت ردعمل آسکتا ہے، ملک میں پہلے ہی منافرت کے بیج بہت ھیں تین دفعہ وزیر اعظم رہ کر بھی آپ کی خواہش اقتدار کم نہیں ھوئی، آج خوشگوار حیرت اس وقت بھی ھوئی جب جاوید ہاشمی صاحب کو مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس میں دیکھا، وہی جاوید ہاشمی جو محترمہ کلثوم نواز کے ساتھ تحریک کا کندن بنے تھے مگر رسوا کر کے نکال دئیے گئے، آہ کاش کوئی سیکھ لے اپنے ھی ماضی سے! اب فیصلہ نوجوان نسل کے ھاتھ میں ھے کہ وہ پاکستان کو کہاں دیکھنا چاھتے ھیں ان بزرگوں کا فیصلہ ھو گا جو اپنی اولاد کو اسٹیٹس کو، وی آئی پی کلچر، اور بادشاہت سے آزاد جمہوری نظام میں دیکھنا پسند کریں گے یا موروثی، خاندانی اور  نسل در نسل سیاسی آقاؤں کے چنگل میں دیکھنا چاہتے ہیں؟فیصلہ ھو گا، اب قوم کی باری ہے، آپ نے باریاں لے لی ہیں۔

(جاری ہے)


یہ گھڑی محشر کی ھے تو عرصہ محشر میں ھے
پیش کر غافل عمل گر کوئی دفتر میں ھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :