بد ترین دن، ۔۔۔قیامت کا دن

جمعرات 20 مئی 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

مرزا غالب نے کہا تھا کہ،
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے،
کیا خوب، قیامت کا ہےگویاکوئی دن اور
بدقسمتی سے کورونا نے دنیا میں ایسے ہی حالات پیدا کر رکھے ہیں، کہ ہر روز قیامت ہے جو ٹلتی ہی نہیں، اور پیارے لوگ، اچھے لوگ، بہترین لوگ ساتھ چھوڑ گئے ہیں، ان میں مسیحا ایسے گئے کہ قومی نقصان ھوا، دنیا میں اس وقت تقریباً 30 لاکھ پچاس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، گزشتہ دنوں ایک رشتہ دار سویڈن سے آیا اس سے ملاقات ہوئی ، اس کی ایک بات سن کر خوشی ہوئی کہ کاش ھم بھی ویسے ہی ہوں، دوسری بات سن کر انتہائی افسوس ھوا، پہلی بات یہ تھی کہ سویڈن میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں ھوا اگرچہ اس سے میں مکمل واقف تھا اور اپنی ہر دل عزیز فلاحی اور بے مثال سماجی ورکر سیدہ طاہرہ سے بھی معلومات ملتی رہتی ہیں، سویڈن کے لوگوں نے قانون، ایس او پیز اور سماجی فاصلے کی ایک مثال قائم کر کے کورونا کو شکست دی، کاروبار، روزگار اور زندگی کے معاملات چلتے رہے، دوسری بات احمد حسین نے ایسی کی جس سے دل برداشتہ ھوا کہ سویڈن میں زیادہ عمر کے لوگوں پر توجہ نہیں دی گئی اور انہیں زندگی کی طرف لانے میں پیسے خرچ نہیں کیے گئے، اس سے میں واقف بھی نہیں ھوں اور نہ ہی ماننے کو دل کرتا ہے کیونکہ قانون اور اخلاق کے پاسدار لوگ انسان کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ احمد حسین کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا،
  کورونا نے جہاں دنیا میں تباہی مچاہی وہاں  جنوبی ایشیا میں بھارت کے انتہائی برے حالات ہیں، شمشان گھاٹ اور قبرستان میں جگہ نہیں مل رہی، بھارت ایک بڑی ابادی والا ملک ہے اس کے بھارت کو کئی فائدے اور نقصانات بھی ہیں، نقصان کورونا کی شکل میں آپ دیکھ رہے ہیں ، اس کے علاؤہ ماحول، غذائی ضروریات  میں مشکلات اور غربت بہت ہے جبکہ بڑی ابادی کو سرمایہ کاری، تجارت اور کاروبار کے لیے دنیا نظر انداز نہیں کرتی، اسے انڈیا سے کوئی لینا دینا ھو یا نہ ہو اپنا مال بیچنے وہاں ضرور جائیں گے، اسی لیے سفارتی، دفاعی اور تجارتی تعاون برقرار ھے، پاکستان کو کشمیر پر جائز موقف منوانے میں یہ نکتہ بہت اہم ہے،کہتے ہیں بھارت میں 25 ملین کورونا کیسسز ریکارڈ ہوئے، جن میں سے 21 ملین واپس زندگی کی طرف لوٹ گئے، ایک بڑی تعداد تقریباً 2 لاکھ اسی ہزار افراد اب تک ھلاک ہو چکے، افسوس ناک اور دکھ دہ بات یہ ہے کہ ھلاک ہونے والے افراد میں 1000 ڈاکٹرز بھی شامل ہیں، 18 مئی بد ترین دن رہا جب بھارت میں 50 ڈاکٹرز کورونا سے جاں بحق  ہوئے، یہ انسانیت کے مسیحا ہیں، بھارت نے شعبہ طب، حکمت، ھومیوپیتھی اور آئی ٹی میں بہت ترقی کی ہے، طبی آلات ہوں یا ماہر ڈاکٹرز ان کی تعداد اور صلاحیت بے مثال ھے، مگر حالیہ بحران میں ڈاکٹرز نے بڑی قربانیاں دی ہیں، پاکستانی ڈاکٹرز نے بھی اندرون اور بیرون ملک ایک مثال قائم کی،برطانیہ اور سعودی عرب میں پاکستانی ڈاکٹرز کو قربانیوں پر اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا پاکستان میں قربانی دینے والے ڈاکٹرز کو حکومت نے بہت عزت و احترام دیا، مراعات بھی پہنچائیں، ھمارے چھوٹے سے خطے راولاکوٹ میں بہت قیمتی ڈاکٹرز نے جان کی بازی لگا کر خدمات سر انجام دیں، حکومت آزاد کشمیر کو ان کے لئے اعلیٰ اعزازات کا اعلان کرنا چائیے، ایک ڈاکٹر کی خدمت لاکھوں افراد کوفائدہ پہنچاتی ہے، بلاشبہ باقی شعبوں ، اساتذہ اور سیکورٹی کے اداروں نے بھی قربانیاں پیش کی ہیں مگر ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس زیادہ ہیں، بھارت میں ایک دن میں پچاس ڈاکٹروں کا جانا کتنا دکھ اور قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے، انسانیت کے خدمت گزاروں چلے ھوں گے، کہتے ھوں گے قیامت کو ملیں گے، حالانکہ قوم کے ہر فرد کیلئے یہی قیامت کا دن ہے، کورونا نے معیشت، معاشرت اور تمدن کو تبدیل کر کے رکھ دیا، عالمی سطح پر اس قیامت خیز ھلاکتوں نے خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے، ویکسنشن ھورہی ھے مگر اس کے خلاف بھی لکھا اور سنایا جا رہا ہے، یہ بھی شکوک وشبہات موجود ہیں کہ کہیں دنیا میں ھیرو شیما اور ناگاساکی، افغانستان، عراق اور شام میں تباہ کن بمباری اور ھلاکتوں کے بعد ایک نیا منظر نامہ جراثیم کی صورت میں تخلیق کیا گیا ہو، عالمی معاشی اجارہ داری پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں، مگر اتنا سچ ضرور ھے کہ کورونا وائرس موجود ہے اور انتہائی خطرناک ہے، جس کے لیے احتیاط اور ویکسین دونوں ضروری ہیں، تحقیق یا سازشوں کے سوتے جوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ھونا، دنیا نے طب کی انڈسٹری میں اجارہ داری کے لئے ایسا کیا ھو یا نہیں، اس پر بحث ھوتی رہے گی ، ترقی یافتہ ممالک نے ویکسین بنائی، طبی آلات تیار کیے، ادویات کی مانگ کو پورا کیا، تجارت کی مگر منافع جائز رکھا، بدقسمتی سے پاکستان میں ڈرگ اور میڈیسن مافیا نے بہت ظلم کیا، بہت ناجائز منافع خوری کی، ماسک سے لے کر دوائیوں تک کھربوں کما لئے، قرض کے لیے ترستے میڈیکل سٹورز کروڑوں کی جائیداد بنا چکے ہیں، سرکاری ھسپتالوں کا عملہ انجکشن، اور دوائیاں بیچتا رہا، ویسے یہ لوگ کیسے معاف کیے جائیں گے؟ ھمارے لئے یہی ناجائز منافع خوری،ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی سب سے بڑی قیامت ھے، ان کے ھاتھوں لاکھوں مر چکے، کروڑوں اس بیماری میں مبتلا ہیں، میرے کئی جاننے والے افراد جو میڈیسن سے وابستہ ہیں نے راتوں رات اپنا لائف سٹائل ہی تبدیل کر دیا، ان میں کچھ ڈاکٹر ز بھی شاملِ ہیں، ایک قصہ تو براہِ راست ڈاکٹر الطاف حسین شاہ معروف آرتھوپیڈک سرجن نے خود کے ساتھ بیتی کہانی سنائی، وہ کورونا کا شکار رہے اور ایک معروف شکاری ڈاکٹر کے ھاتھ چڑھ گئے کیا ھوا کبھی جاکر سن لیں، کئی پرائیوٹ ھسپتال راتوں رات سونے کی چڑیا بن گئے، ھم کس کس قیامت کو یاد کریں، ویسے کون لوگ ہیں ھم؟ قیامت سے پہلے ہر جگہ قیامت ھے، بیس کروڑ ناجائز منافع کما کر بیس لاکھ سے حج، عمرہ یا صدقات کرنے والے ان عظیم لوگوں سے بچائے، قیامت سے پہلےقیامت ھے۔

!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :