افغانستان کس کی فتح اور مستقبل کیا ہوگا؟

بدھ 18 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ افغانستان میں لڑی گئی، اس سرد جنگ کا جنوبی ایشیا ممالک میں اتنا شور تھا کہ کہا جا رہا تھا کہ سوشلزم آپ کی دھلیز پہ دستک دے رہا ہے،  گرم پانیوں کی تلاش میں روس اور سرخ انقلاب کے جھنڈے ایشیا کو لہو لہان کر دیں گے، وہ زمانہ تھا جب 24 دسمبر 1979ء میں سوویت یونین کی فوج افغانستان میں داخل ہوئی، امریکہ اس جنگ میں کھل کر سامنے نہیں آنا چاہتا تھا، اس لئے اس نے سی آئی اے کے ذریعے یہ آواز مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک بلند کی بھاری رقم خرچ کرکے روس کے خلاف محاذ گرم کیا، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک نے سرمائے کے منہ کھول دئیے، جس کی وجہ سے 9 سال ، ایک ماہ، ایک دن جاری رہنے والی جنگ، فروری 1989ء میں سویت یونین کی پسپائی پر ختم ہوئی، جس کا فارمولا جنیوا معاہدہ میں طے پایا تھا، سویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ میں امریکہ نے فتح پائی، لیکن اس فتح کا جشن مسلمانوں نے منایا کیونکہ دنیا کے لئے سخت گیر طالبان کا ایک نیا چیلنج سامنے تھا، چین کو سیکیانک، بھارت کو کشمیر، ایران کو اپنے مسلک، ترکی کو اپنے نسلی مفادات اور سویت یونین کو حصے بخرے ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا پھر دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گئی، روسی افواج اور ٹینک، گاڑیاں اور اسلحہ و بارود ایسے واپس جا رہا تھا کہ شکست خوردہ مناظر دنیا نے محفوظ کیے، دوسری طرف پاکستان کی معیشت، معاشرت اور تمدن بھی بری طرح متاثر ہوا، جس کے اثرات آج تک ختم نہیں ہوئے امریکہ سرد جنگ کے فال آؤٹ اور فتح کابل کے بعد سب کچھ بھول گیا، چونکہ مقصد یہی تھا،طالبان اگرچہ سخت گیر تھے تاہم امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، مگر امریکہ کے مفادات بدل گئے، جس سے طالبان کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گیا، نائن الیون کی منوں مٹی تلے چھپے راز چھپانے کے لیے پھر افغانستان پر چڑھائی کی گئی اور مسلسل کارپٹ بمنگ کے باوجود بیس سال میں تعمیر اور تربیت کا پول پھر کھل گیا، ان بیس سال میں امریکہ نے چالیس ٹریلین ڈالر خرچ کیے، تین لاکھ افغان فوج کو تیار کرنے کا دعویٰ کرکے اپنے مفادات کی خاطر واپسی کا سفر شروع کیا، آج طالبان کابل کے قریب پہنچ گئے، امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے تو فوج بھیج رہے ہیں مگر افغانستان، اور اس کے پڑوسی ممالک کے لئے معاشی ، تجارتی اور معاشرتی مسائل کا نیا بیج بو کر چلے گئے، وہ تین لاکھ فوج، اشرف غنی حکومت کا طنطنہ آج معافی اور منت سماجت میں بدل گیا، غزنی، ہلمند، بلخ، زابل، ہرات، قندھار، قندوز اور بڑے بڑے صوبائی دارالحکومت، فوج، گورنر ایسے ھتھیار ڈالتے گئے جیسے ریت کے ٹیلے بھسم ہو رہے ہوں، اور امریکہ کوسوں میل دور رہ کر تماشا دیکھنے لگا، کابل ائیر پورٹ پر یورپی یونین کا مبصر ملک ترکی کنٹرول سنبھال رہا ہے، واشنگٹن کے متضاد بیانات، افغانستان کی حکومت اور عوام خود افغانستان کا دفاع کریں، ھمارے عملے اور سفارت خانوں کو نہ چھیڑا گیا تو کابل۔

(جاری ہے)

سے مستقبل میں تعاون بڑھے گا، مگر کیا امریکہ کی خود ساختہ پسپائی اور افغان عوام کو مسائل کی گرداب میں جھونک دینے پر امریکہ سے کوئی پوچھ سکتا ہے،؟ بھارت مسلسل سازشی حکمت عملی پر عمل پیرا ھے، وہ ایک قدم طالبان کے ساتھ رکھ رہا ہے اور دوسرا اشرف غنی کے ساتھ، اسے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا مستقبل مخدوش لگ رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی افغانستان اور طالبان سے قربت کی فکر کھائے جارہی ہے، تاہم چین سی پیک اور تجارت کی خاطر طالبان سے روابط بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ھے، حیرت یہ تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر ایران میں اترے تو طالبان وفد وہاں موجود تھا، وہ روس گئے تو وہاں بھی طالبان وفد موجود ہے، اس سے لگتا ہے کہ بھارت طالبان کے ساتھ بھی ایگنج ھے، طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھارت کو دھمکی بھی دی کہ وہ افغانستان میں مداخلت بند کرے، اس کے بعد بھارتی سفارتکار افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے، افغانستان کی صورتحال پر تشویش سب کو ھے مگر امریکہ کو بالکل نہیں ہے، وہ اپنے مفادات لے کر کہیں اور کا رخ کر رہا ہے، مستقبل قریب میں طالب، افغانستان میں فتح و نصرت کا جھنڈا گاڑیں گے، امید صرف ایک ہی ھے اور وہ یہ کہ کیا طالبان پہلے کی نسبت اپنی پالیسیوں میں نرمی لائیں گے، اگرچہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مضبوط شراکت داری اور تعلقات قائم کریں گے، یہی بات ترکی، بھارت اور امریکہ کو ناپسند ھوگی! اس لئے ہر کوئی خطرناک خانہ جنگی کا عندیہ دے رہا ہے، میرے خیال میں طالبان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جلد امن قائم کر سکتے ہیں، تاہم دنیا کے تقسیم شدہ مفادات کا ٹکراؤ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، پاکستان کی معاشی اور سرحدی مشکلات بڑھ سکتی ہیں، سیاسی اور سماجی انتشار کی سی کیفیت ھو سکتی ھے جس کے لیے اداروں کو  متحرک رہنا ہوگا، ایک سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ تین لاکھ تربیت یافتہ افغان فوج کہاں گئی، کیا طالبان کے لئے امریکہ نے خود میدان صاف کر دیا یا طالبان اپنی فتح و نصرت کا جھنڈا ایک مرتبہ پھر کابل میں گاڑیں گے؟ روسی افواج جس طرح واپس ھوئی تھیں، امریکہ اس طرح نہیں نکلا بلکہ رات کے اندھیرے میں" دروازے کھلے چھوڑ کر بھاگ گیا' کیوں کہ اس کے مفادات بدل چکے ہیں،  اسے کوئی غرض نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :