میرا مقبول زندہ ھے،۔۔۔۔!

جمعرات 2 ستمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

اسے جب خبر ملی کہ بیٹا شہید ہوگیا، یہ خبر خط کے ذریعے ملی تھی، وہ بہت روئی، لیکن بڑے حوصلے سے کہہ رہی تھی کہ "میرا مقبول زندہ ہے" وہ ضرور آئے گا، ہر روز گاؤں کے داخلی دروازے پر آکر بیٹھ جاتی اور کہتی میرا مقبول آئے گا میں اس کا استقبال کروں گی، دکھ تو اس کی منگیتر نصیراں اور، بہن سرور جان کو بھی تھا مگر ماں کا دکھ اور یقین کمال درجے کا ہوتا ہے، آج تک کوئی ماں کی محبت کا اندازہ نہیں کر سکا، اللہ نے محبت اور مامتا کا جذبہ اتنا رکھا کہ کوئی اس  کو تول نہیں سکا، ھاں اللہ نے یہ کہہ کر سمجھا دیا کہ میں ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہوں، یہ اللہ کی محبت کا لا متناہی سلسلہ ظاہر کرتا ہے اور ماں کی محبت کو بھی امر کرتا ہے، سال ہا سال انتظار کرنے کے بعد ماں کہنے لگی میرا مقبول سچا ہیرو ھے، وہ زندہ ہے ضرور آئے گا، مجھے مرنے کے بعد گاؤں کے داخلی راستے پر دفن کر دینا، وہ آئے گا  میں اس کا استقبال کروں گی،  دھرتی ماں کا بیٹا  چالیس سال قید و بند کی سخت صعوبتیں برداشت کر واپس آیا تو حالت یہ تھی کہ بڑھاپے کے عالم میں کمر جھکی ہوئی، کمزور، لاغر  زبان کٹی ھوئی بول نہیں سکتا اور لیکن آنکھوں میں چمک جب واہگہ بارڈر پر پہنچا سب نے شناخت کرنے سے انکار کر دیا، جس نے سب کو شناخت دی، جس نے چالیس سال مسلسل جنگ لڑی، جو  تاریخی انسانی کا منفرد ہیرو تھا کیونکہ چالیس سال تک لڑتا رہا ہو، ایسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی،
  کون تھا وہ سچا ہیرو، وہ سپاہی مقبول حسین تھا جو 1965ء کی جنگ میں، کمر پہ وائرلیس سیٹ باندھے، مشین گن ھاتھ میں تھامے دشمن کے کئی ٹینک تباہ کیے، کامیاب آپریشن کے بعد واپس آ رہا تھا کہ زخمی ہو گیا، فوجی جوانوں نے مقبول حسین کو واپس لانا چاہا مگر اس نے اپنے ساتھیوں کو مشکل میں نہیں ڈالا کہ دشمن ان پر حملہ نہ کر لے،  مقبول حسین نے اپنے آپ کو گہری کھائی میں گرا لیا، وہاں سے  بھی دشمن کو دفاعی لائن کی طرح روکے رکھا، ستمبر 1965ء میں پاک، بھارت جنگ سے پہلے دونوں افواج کی طرف سے سرحدی کشیدگی جاری تھی، ایک دوسرے کی چوکیوں پر روز فائرنگ ہوتی،کہ ستمبر میں بھارت کی افواج نے پاکستان پر حملہ کر دیا، پاکستانی افواج نے بڑی کامیابی سے دفاع کیا، یہ جنگ تو سترہ روز جاری رہی مگر مقبول حسین 1965ء کی جنگ کے ابتدائی معرکے میں قیدی بنا لیا گیا، جنگ کے بعد تاشقند معاہدے کے تحت امن قائم ھوا فوجیوں کی واپسی کا تبادلہ ھوا مگر سپاہی مقبول حسین کو رہائی نہ ملی، اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انسانیت سوزی کی نئی مثال تھی، بھارت نے تمام عالمی قوانین، جنیوا کنونشن اور انسانیت کو پامال کیا،
  مقبول حسین سے مطالبہ کیا جاتا کہ ،پاکستان مردہ باد، کا نعرہ لگاؤ، وہ اتنی ہی قوت سے جیل میں ، پاکستان زندہ باد، کا نعرہ لگاتا، اس کے ھاتھ اور پاؤں کے ناخن کھینچ کر نکالے جاتے، سبزی علی خان اور ملی خان کے قبیلے کا یہ سپوت ذرا برابر جھکنے یا بکنے کے لیے تیار نہ ھوتا، جیل میں اسے کئی کئی روز بھوکا پیاسا رکھا جاتا، پھر بھی وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہ چھوڑتا، آخر سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی گئی، مگر اس کا حوصلہ اور ملک سے وفاداری اب بھی جواں تھی، جیل کی دیوار پر اپنے خون سے ،پاکستان زندہ باد، لکھتا رہتا، سپاہی مقبول حسین کو چالیس سال بعد 2005ء میں ماہی گیروں کے ساتھ نیم مردہ حالت میں رہا کیا گیا، واہگہ بارڈر پر شناخت نہ ہونے کی وجہ سے اسے بلقیس ایدھی سینٹر بھیج دیا گیا، اس کے لیے اخبار میں اشتہار دیا گیا، اتفاق سے اس کی ایک بہن زندہ تھی جن کا بیٹا بشارت فوج سے سبکدوش تھا، بہن نے بھائی کی نشانیاں بتائیں، اور بشارت ماموں کو اپنے آبائی گاؤں نیریاں تراڑکھل لے آیا، گاؤں میں ماں کی روح اور عوام علاقہ نے اس کا استقبال کیا،
  سپاہی مقبول حسین اپنے رجمنٹل سینٹر مانسہر کیمپ گیا، جہاں اس نے کمانڈر کو سیلوٹ پیش کرکے اشارے سے بتایا کہ مقبول حسین اپنی ڈیوٹی پر واپس پہنچ گیا ہے، کسی نے نہ پہچانا، جب سپاہی مقبول حسین نے اپنا سروس نمبر، جو اس کی پہچان تھا، وہی اسے یاد تھا کاغذ پر لکھا، سپاہی مقبول حسین سروس نمبر 355139,....اپنی ڈیوٹی پر حاظر ھو گیا،  پرانی فائل تلاش کی گئی تو مقبول حسین کا نام شہداء کے ساتھ درج تھا کیونکہ واپس آنے والے قیدیوں میں مقبول حسین نہیں تھا اس لیے شہید قرار دے دیا گیا،  تلاش کے بعد مقبول حسین کو شناخت مل گئی، اپنی ماں اور دھرتی ماں کا بیٹا، مقبول حسین، اتنا مقبول ہوا کہ تاریخ کا منفرد غازی بن گیا، اس کی زندگی پر ایک ڈرامہ" سپاہی مقبول حسین" بھی بنا، وہ وفاداری، جوش و ھمت کا استعارہ بن گیا، مقبول حسین کو مانسہر کیمپ میں رہائش اور علاج کی سہولت دی گئی اور ستارہ جراءت سے  بھی نوازا گیا، اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سیلوٹ کرکے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا، سپاہی مقبول حسین 28 اگست، 2018ء کو اٹک میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اعلیٰ حکام شریک ھوئے، 1965ء کے اس ھیرو کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ 29 اگست 2018ء کو آبائی گاؤں نیریاں تراڑکھل آزاد کشمیر میں دفن کیا گیا ہے، ان کی خدمات کے اعتراف میں تراڑکھل کو آرمی پبلک اسکول اور دیگر سہولتیں دی گئیں، ماں کا یہ قول کہ "میرا مقبول زندہ ہے" چالیس سال بعد پورا ھوا مگر وہ دھرتی ماں کے ہر آنگن میں  اب بھی زندہ اور پائندہ موجود ہے، جس کی قربانیوں کی داستان بچے بچے کو تاقیامت یاد رہے گی۔

(جاری ہے)

چھ ستمبر کو اس عظیم سپاہی مقبول حسین کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :