افغانستان، المیہ اور" زمین پر جہنم،"

بدھ 1 دسمبر 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

'تم چھوڑ کر تاریک غاروں میں ، خود روشنیوں میں چلے گئے" یہ کہنا تھا ایک افغان خاتون کا، جو بامیان کے اس مشہور جگہ جہاں کبھی بدھا کے مجسمے ھوتے تھے، وہاں قریب ایک غار میں بچوں کے ساتھ مقیم ہیں، تھوڑا بہت کام کرکے کچھ کما لیتی ہیں اور آٹے کے عالمی ادارہ خوراک کے کسی کیمپ میں قطار میں لگ جاتی ہیں، انتہائی افسردہ ہیں کہ پہاڑوں پر برف کی تہہ جمنا شروع ہوگئی ھے وہ بھوک کے جہنم سے کیسے نجات پائیں گی، خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ بچیوں کو مردوں کے ھاتھوں صرف خوراک کے لئے بیچ رہی ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کرنی چاہتیں، وہ امریکہ کو کہتی ہیں کہ تم ان تاریک غاروں میں چھوڑ کر، خود روشنیوں میں چلے گئے، کیا اس انسانی المیے کا تمہیں کوئی احساس ھے، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا علم ھمیشہ تمھارے ھاتھ میں رہتا ہے، مگر اس پرچم کے سائے میں ظلم، ناانصافی اور انسانی کرب تمہیں نظر نہیں آتا، یہ صرف خاتون کی کہانی نہیں ہر گھر کی کہانی ہے، اقوام متحدہ کے ادارے خوراک کی ڈائریکٹر ڈیوڈ پینسلے نے افغانستان کے دورے کے بعد کہا ہے کہ ، یہ کس کا بچہ ھے، کہاں کا ھے، کیا کرتا ہے، یہ میرے لئے اہم نہیں، اس کی بھوک، تنگ دستی اور اسے روٹی دینا اہم ھے، دنیا میں چار کھرب ڈالر دولت رکھنے والے ممالک کے لئے شرم کا مقام ہے کہ زمین پر جہنم تخلیق کر دی گئی ہے، اور دو کروڑ، 30 لاکھ افراد بھوکا، اور خوراک کی عدم دستیابی سے مر رہے ہیں، مگر دنیا کو احساس نہیں، ڈیوڈ پینسلے نے کہا کہ سردیوں کی آمد ھے مگر ایک بڑا انسانی المیہ افغانستان میں جنم لے چکا ہے،
  افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد لوگ خاموش تو ھوگئے ہیں مگر بھوک کا دیو ہیکل جن انہیں نگل رہا ہے، طالبان حکومت نے یورپی یونین، امریکہ، اور دنیا سے کئی مرتبہ اپیل کی، جامع حکومت اور دھشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کا وعدہ کیا، خواتین کی تعلیم و ترقی پر کوئی پابندی نہیں لگائی، مگر کیا کیجیئے اس ظلم کا جو خطے اور دنیا کو کھا جائے گا،
امریکہ اس میں براہ راست قصور وار ھے، عجلت اور غیر منطقی سوچ نے افغانستان کو بڑے انسانی المیے میں مبتلا کر دیا ہے، پاکستان، قطر اور چند دوسرے ممالک نے خوراک اور ادویات کی فراہمی میں مدد تو کی ہے مگر یہ افغانستان کے لئے مونگ پھلی سے زیادہ نہیں، کیا انسانیت اتنی اندھی ھو گئی کہ کروڑوں لوگ بھوک سے مر جائیں اور وہ خوشحال رہیں، افغانستان کے شہری، میدانی اور پہاڑی علاقوں میں ایک ہو کا عالم ہے، اسرافیل نے صور پھونک دی، یا انسانوں نے خون کے دریا بہا دئیے، کون قصور وار ھے؟
  آج ہی سعودی عرب نے 17 دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے، اس انسانی المیے سے بچنے کے لیے اسلامی ممالک بھی متحد ہو کر کچھ کریں تو بہت کچھ ھو سکتا ھے، سردیوں سے قبل افغانستان کو ایک بڑے مالیاتی اور انتظامی سپورٹ کی ضرورت ہے، امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں بھی مذاکرات ہیں، پاکستان نے افغانستان کو انسانی بحران سے بچانے کے لیے بہت کیا ہے حال میں خوراک، ادویات اور پانچ ارب روپے کی امداد بھی جاری کی گئی، مگر جن قوتوں نے پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی تھی وہ چپ سادھے ہوئے ہیں، جو بائیڈن کورونا کے پیچھے چپ گئے یا مشرقی ایشیا کے سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے، کولڈ وار اتنی کولڈ ھو گئی کہ انسانی تباہی بھی نظر نہیں آتی، طالبان کے نازک ھاتھوں میں مطالبات کی ایک بھاری بھرکم کتاب پکڑا کر ، یہ گئے، وہ گئے! 45 ٹریلین ڈالر لگا کر دنیا کو بھوکا مارنا مقصد تھا یا امن و ترقی بھی لانی تھی، پاکستان، ایران لاکھوں مہاجرین، کی پاسداری کرتے کرتے تھک چکے، بھارت سازشوں کے جال تو بچھا گیا، مگر بھوک سے اسے بھی غرض نہیں ایک زمانے میں جنگ زدہ علاقوں میں خوراک مہیا کرنے میں الرشید ٹرسٹ سب سے آگے تھا مشرف صاحب نے اس کو بند کروا دیا، تو پھر اس جہنم سے انہیں کون نکالے گا؟
یہ خیال کسی کو نہ آیا تو جلد خوراک کے قحط کے ساتھ انسانی قحط بھی دنیا کی تاریخ کا حصہ ھو سکتا ھے، طالبان کی بنیاد پر نہ سہی انسان کی بنیاد پر ھی آگے بڑھیے، آپ مزے سے کھانا کھائیں گے تو کیا افغان بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو بھوکا چھوڑ دیں گے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :