صاف چلی، شفاف چلی

جمعرات 9 اگست 2018

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب انتہائی جذباتی ماحول میں آصف زرداری نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ بلند کیاتو اطراف وجوانب سے اِس کی تحسین کی گئی اور قوم نے یہ جانا کہ اُسے بینظیر کا متبادل مل گیا۔ لیکن جب پیپلز پارٹی نے عنانِ حکومت سنبھالی تو کرپشن کی ایسی ایسی کہانیاں منظرِعام پر آئیں کہ سبھی انگشت بدنداں۔مشاہد حسین سیّد نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا تو نعرہ ہی ”لُٹّو تے پھُٹو“ ہے۔

میاں شہباز شریف بھی اپنی تقاریر میں بار باریہی کہتے رہے ”اگر میں نے زَربابا چالیس چوروں کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام نہیں“۔ اُسی ”زَربابا“ نے اپنا عرصہٴ اقتدار مکمل کرنے کے بعد حکومت نوازلیگ کے سپرد کی لیکن قوم انتظار ہی کرتی رہی کہ کب زَربابا کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔

(جاری ہے)

آج وہی ”زَربابا“ نوازلیگ کا اتحادی اور اپوزیشن الائنس کا حصّہ ہے ۔


2011ء کے آخر میں کپتان نے ”نیاپاکستان“ کا نعرہ بلند کیا اور ”شفافیت“ اُس کا منشور ٹھہرا۔ بلاشبہ اُن دنوں کپتان مقبولیت کی رفعتوں کو چھو رہا تھا اور اُس کے خلاف اُٹھا ہوا قلم بھی تھرتھراہٹ کا شکار ہو جاتا تھا لیکن جس شفافیت کی بنیاد پر کپتان کو بے پناہ پذیرائی ملی، وہ قائم نہ رہ سکی۔ ہواوٴں کا رُخ پہچان کر ”جیتنے والے گھوڑے“ خان کی طرف بگٹٹ ہوئے اور قوم مایوسیوں کا شکارکہ یہ تو وہی چہرے تھے جنہیں دیکھ دیکھ کر قوم بیزار ہو چکی۔

شفافیت کا بھانڈا پھوٹ گیا اور سونامی ”گَٹر“ میں بہہ گئی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد کپتان نے دھاندلی کا علم اُٹھایا اوراُنہوں نے پورے پانچ سال اِس علم کو سَرنگوں نہیں ہونے دیا۔ کپتان کا احتجاج اور دھرنے تاریخ کا حصّہ ہیں، اب کپتان وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے جا رہے ہیں۔ اُنہیں مسندِ اقتدار تک کِن قوتوں نے پہنچایا، وہ بظاہر تو نہاں مگر بہت سے حلقوں میں عیاں۔


 احتجاجی تحریک کے دوران کپتان بار بار یہ کہتے رہے کہ 2008ء کے عام انتخابات میں نوازلیگ نے لگ بھگ 80 لاکھ ووٹ لیے، پھر صرف پانچ سال بعد یہ ایک کروڑ پینتالیس لاکھ کیسے ہو گئے؟۔ اب قوم اُن سے سوال کرتی ہے کہ کِس ”مہربان “ کے دَستِ شفقت کی بدولت تحریکِ انصاف کو 2013ء کے مقابلے میں ”دوگنے“ ووٹ عطا ہوئے؟۔ پاناما کی بجائے اقامہ پر میاں نوازشریف کی نااہلی اور پھر احتساب عدالت کی مہربانی سے اڈیالہ جیل مہربانوں ہی کی ”کرشمہ سازی“ہے۔

مہربانوں نے اِسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی طاقت کے زور پر جیتنے والے گھوڑوں کا رُخ تحریکِ انصاف کی طرف موڑ دیا۔ پھر بھی بات نہ بنی تو عام انتخابات میں ایسے حربے استعمال کیے گئے جو کبھی دیکھے نہ سنے۔ اداروں کی شدید مخالفت بھی عیاں، نَیب کا ڈنڈا بھی سَر پر اور ہواوٴں کا رُخ بھی تبدیل، اِس کے باوجود بھی 2013ء کے مقابلے میں نوازلیگ کو کم وبیش بیس لاکھ ووٹ کم پڑے اور وہ آج بھی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔


کپتان کی پہلی ”وِکٹری سپیچ“ کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ واقعی ایک وزیرِاعظم کا خطاب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ جس کسی کو عام انتخابات میں دھاندلی کا اعتراض ہے، وہ یہ حلقہ کھلوا سکتا ہے، تحریکِ انصاف اُس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ کپتان کا یہ بیان انتہائی مستحسن قرار دیا گیا اور ”مدح سراوٴں“ نے اِس پر ”قلم توڑ“ کالم بھی لکھے لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا“۔

خواجہ سعد رفیق نے 131 N-A لاہور میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ اِس حلقے میں عمران خاں خواجہ سعد رفیق سے صرف 680 ووٹوں سے جیتے تھے۔ جب آر او نے خواجہ سعد رفیق کی دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کی تو وہ ہائیکورٹ سے دوبارہ گنتی کا حکم لے آئے۔ اِس حکم کے بعد کپتان کا ”یوٹرن“ ایک دفعہ پھر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ سامنے آگیا۔ اُنہوں نے N-A 131 میں دوبارہ گنتی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

اِسے کہتے ہیں”ساغرِ اوّل و دُرد“۔کپتان کی ”وِکٹری سپیچ“ کی خوشبو سے ابھی فضائیں معطر ہی تھیں کہ اِس یو ٹرن نے سارے خطاب کو ہی مسموم کر دیا۔ اگر ابتدا یہ ہے تو انتہا کیا ہوگی؟۔
عام انتخابات میں دھاندلی کا شور مچتا ہی رہتا ہے۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے منعقد کروائے جانے والے عام انتخابات سے لے کر 2018ء کے انتخابات تک ہمیشہ ہارنے والے نے دھاندلی کا شور مچایا۔

2013ء کے عام انتخابات کے بعداُس وقت کے وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے خود سپریم کورٹ کو خط لکھا، لیکن اِس کے باوجود کپتان نے ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا دیا اور بعد از خرابیٴ بسیار وہ سپریم کورٹ کی تحقیقات پر راضی ہوئے جس کے فُل بنچ نے عام انتخابات کو صاف شفاف اور عوامی اُمنگوں کے عین مطابق قرار دیا۔

2018ء کے عام انتخابات میں تو کئی شواہد ایسے ہیں جنہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے دھاندلی کا عنصر عیاں ہوتا ہے۔ پولنگ ایجنٹس کو گنتی کو دوران باہر نکال دینا، نتائج پر مشتمل فارم 45 پولنگ ایجنٹس کو نہ دینا، رات گیارہ بجے کے بعد آر ٹی ایس سسٹم کا یکلخت بیٹھ جانا، نتائج میں بائیس ،بائیس گھنٹوں کی تاخیر ہونا اور کچرے کے ڈھیروں ، گٹروں میں نشان زدہ بیلٹ پیپرز کا ملنا، یہ تمام شواہد ایسے ہیں جن کی تحقیقات ضروری ہے۔

اِس کے علاوہ فافن کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے 49 اور صوبائی ا سمبلیوں کے 120 حلقے ایسے ہیں جہاں مسترد ووٹوں کی تعداد ، جیت کے مارجن سے زیادہ ہے۔ N-A 21 مردان میں امیر حیدر صرف 33 ووٹوں سے جیتے جبکہ مسترد شدہ ووٹ 5790 ، نون لیگ کے امیر مقام نے 182 ووٹوں سے ہارے جبکہ مسترد ووٹ 3236 ، راولپنڈی سے نون لیگ کے راجہ محمد علی 127 ووٹوں سے ہارے اور مسترد شدہ ووٹ 5735 ، قصور سے نون لیگ کے رانا حیات ،تحریکِ انصاف کے طالب نکئی سے 236 ووٹوں سے ہارے لیکن مسترد شدہ ووٹ 7453 ،کراچی سے میاں شہباز شریف 718 ووٹوں کے فرق سے تحریکِ انصاف کے فیصل واوڈا سے ہارے لیکن مسترد شدہ ووٹ 2684 ۔

یہ تو محض چند مثالیں ہیں ، حقیقت یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے 169 حلقوں میں یہی صورتِ حال ہے۔ الیکشن رولز کے مطابق جہاں بھی ووٹوں کا مارجن 5 فیصد سے کم ہو، وہاں درخواست پر ریٹرننگ آفیسر لازماََ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ الیکشن کمشن نے دوبارہ گنتی کی محض چند درخواستیں قبول کیں اور باقی سب مسترد کر دیں، آخر کیوں اور کِس قانون کے تحت ؟۔

کیا عمران خاں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے کے بعد اِن شکایات کے ازالے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھیں گے۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹا گیالیکن اُسی سپریم کورٹ سے ”تمغہٴ نااہلی“ حاصل کرنے والا نااہل ترین تحریکِ انصاف کے مدارالمہام بنا بیٹھا ہے۔ اُس نے ہارس ٹریڈنگ کے کاروبار کو رفعتوں سے روشناس کراتے ہوئے ”مہنگے ترین گھوڑے“ خرید کر کپتان کے چرنوں کی بھینٹ چڑھائے اور کپتان نے بھی نہ صرف یہ” بھینٹ“ بخوشی قبول کر لی بلکہ ”گھوڑوں“ کے ساتھ ”فوٹوشوٹ“ بھی کیا۔

یہ بھی تازہ یوٹرن ہی تھا کیونکہ اِس سے پہلے وہ اعلان کر چکے تھے کہ اِن ”گھوڑوں“ کی تحریکِ انصاف میں کوئی جگہ نہیں۔ جو ”بھان متی“ کا کنبہ کپتان کے سپرد کیا گیا ہے، اُس کی ڈور ”مہربانوں“ کے ہاتھ میں ہے اور یہ سارا کنبہ مقتدرہ کے اشارہٴ اَبرو کا منتظر۔ کپتان کی تو وہاں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ویسے بھی اب کپتان کے گرد وہی لوگ ہیں جن کے خلاف وہ ماضی میں زہر اُگلتے رہے۔

شاہ محمود قریشی کہتے ہیں” اپوزیشن میں مختلف الخیال لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن کی سوچ میں کوئی مطابقت ہے نہ نظریاتی ہم آہنگی۔ یہ صرف شور وغل غپاڑا ہے“۔ جس وقت شاہ محمود قریشی یہ فرما رہے تھے، اُس وقت اُن کے پہلو میں راجہ ریاض بھی کھڑے تھے اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ عشروں تک پیپلزپارٹی کا طواف کرنے والے شاہ محمود ، راجہ ریاض اور اُن جیسے پیپلزپارٹی سے ہجرت کرکے تحریکِ انصاف میں ٹھکانہ بنانے والے بیشمار لوگوں کا نظریہ کیا ہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :