آزمائش شرط ہے

ہفتہ 5 اکتوبر 2019

Rehan Muhammad

ریحان محمد

پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والا ملک ہے۔وطن عزیز پر جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے یا ملک کسی دہشتگردی تخریب کاری کا شکار ہوتا ہے تو ہماری قوم ہر طرح کی قربانی کے لیے خدمت کے لیے امداد کے لیے اٹھ کھڑی ھوتی ھے 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ.افغان پناہ گزینوں کی اعانت 1988 کا اوجڑی کیمپ یا 1988 کا سیلاب۔2005 کا زلزلہ 2010 کا سیلاب یا دہشت گردی کا اندوہناک واقعہ پاکستانی عوام نے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔


پاکستان کا سب سے بڑا بلکہ دنیا کے بڑے فلاحی ادارے میں شمار کیا جانے والا ایدھی ویلفیئر سنٹر کا تعلق پاکستان سے ہے جس کی فضاء اور زمینی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی سروس ہے۔ اور یہ ادارہ پاکستانی عوام کی خیرات پر ہی چل رہا ھے پر جب بات ملکی ٹیکس دینے کی آتی ھے تو سب سے کم ٹیکس دینے والوں میں ھمارا شمار ھوتا ھے ۔

(جاری ہے)

ٹیکس کے بغیر کوئی ملک نہیں چل سکتا۔

ٹیکس کی وصولی ہر حکومت کے لئے بہت بڑا مسئلہ ھے۔اور اب تک کوئی بھی حکومت ٹیکس کا مقررہ حدف حاصل نہیں کر پائی ہے۔موجودہ حکومت بھی ہر طرح کا حربہ آزماہ چکی ہے۔پر نتائج مایوس کن ہی ہیں۔ملک میں سرمایہ دار جائز ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ہر بجٹ میں ٹیکس وصولی پوری نہ ھونے کا رونا رویا جاتا ھے۔عوام ٹیکس دیں تو حکومت کا کاروبار چلے گا۔ لیکن اصل صورت حال جس کا یقیناً حکمرانوں کو بھی علم ھے کہ زیادہ آمدنی والے لوگوں سے کوی ٹیکس لیتا ھی نہیں آپ کسی بھی شہر کی کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں اپنے تعلقات سے کام لیں تو صاف پتہ چلے گا کہ دُکاندار ٹیکس دینے کی بجاے ٹیکس افیسر سے کھلم کھلا مک مکا کر لیتے ھیں۔

جب سرکاری کارندے اور متعلقہ محکموں کے ذمہ دار لوگ خود ہی ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی کرتے ھوں تو ٹیکس کہاں سے اور کیسے وصول ھو گا۔جتنا بڑا کاروباری آدمی اتنا ہی بڑا ٹیکس چور ھو گا۔ لیکن خیرات کرنے میں سب سے آگے ھو گا۔ ٹیکس حجم میں ناکامی کی وجہ سے ملک کے ذرمبادلہ کے ذخائر دن بدن کم ھو رہے ھیں جس کے اثرات سے ڈالر اور مہنگائی جس رفتار سے بڑھ رھی ھے۔

اس کی مثال نہیں ملتی۔
 مہنگائی اور ڈالر کی اونچی اران میں ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عوام کی قوت خرید کم ھوتی جا رھی ھے حکومتی قرضوں میں مسلسل اضافہ ھو رھا ھے۔غریب مزید غریب ھو رھا ھے۔درمیانہ طبقہ تقریبا ختم ھی ھو چکا ھے۔ملک کی معاشی حالت انتہائی خطرناک ھو چکی ھے۔سیاست دانوں کی آپس کی نورا کشتی نے ملک کے مسائل اور بڑھا دیے ہیں۔

عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔صرف اور صرف اقتدار کے حصول کا ہے۔نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ملک اب بیرونی قرضوں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہاں تک پہنچانے میں ہماری پسندیدہ حکومتوں کی لوٹ مار بھی شامل ہیں بقول شاعر
.... یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
.... لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
imf نے پاکستان کی موجودہ حکومت کو جن شرائط پر قرض دیا ان میں سر فہرست ملک میں ٹیکس نیٹ ورک میں اضافے کی کڑی شرائط شامل ہے۔

حکومت نے imf کا مطالبہ مانتے ہوئے ٹیکس نیٹ ورک میں اضافے کے لیے فوری اقدامات شروع کر دیے ہیں۔imf کی ٹیکس اصلاحات اتنی کڑی ہیں کہ خوانچہ فروش سے لے کر بڑا کاروباری طبقہ تک سب ڈر اور خوف کا شکار ہیں۔ہماری عوام میں ٹیکس کی ادائیگی کے فقدان اور چور راستوں کی وجہ سے imf کی ٹیکس اصلاحات کسی ایٹم بم سے کم نہیں۔ 
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت عوام کو ٹیکس ادا کرنے کے فوائد بتائے۔

اس کی تربیت کرے۔اس حوالے سے ان کے خدشات دور کرتے کہ عوام کا ٹیکس درست جگہ استعمال ھو گا۔عوام کا اعتماد بحال کرے۔ٹیکس پالیسی اتنی آسان اور سادہ ہو کہ ایک کم پڑھا لکھا شہری بھی با آسانی اپنے سالانہ گوشوارے بھر سکے۔بجائے اس کے ٹیکس وکلا کو بھاری بھرکم فیسیں دے کر ٹیکس چوری کیا جائے۔ٹیکس کے نظام کو آسان بناننے کی ضرورت ہے۔تا کے ہر شہری بلا خوف و فکر اپنے حصے کا ٹیکس پوری دیانتداری سے ادا کرے۔

ملک کی تعمیر میں اپنے ذمہ دار باشعور قوم ہونے کا ثبوت دے۔
یہ تو طے ہے کہ خیرات دینے والے سب سے بڑے ملک میں ٹیکس دینے کو کوئی تیار نہیں۔عوام کو یقین ہے کہ ٹیکس کا پیسہ حکمرانوں کی عیاشیوں پرصرف ہوگا جبکہ دی ہوئی خیرات اسکی جائز جگہ پر استعمال ہو گی۔کیوں نہ ایک تجربہ کیا جائے۔ٹیکس کا نام بدل کر خیرات رکھ دیا جائے۔صرف چند دنوں میں اتنی خیرات اکھٹی ہوجائے گی پاکستان کا سالانہ مالی خسارہ پورہ ہو جائے گا۔

عوام کو دنیا کے ترقی یاقتہ ممالک کی عوام کی طرح سہولتیں میسر آ جائے گی۔پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ھو گا۔ سارے قرضے اتر جائیں گے بلکہ دوسرے ممالک کو قرض دینے کے قابل ھو جائے گا۔ لفظوں کے ھیر پھیر سے ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں اس کے لیے صرف اور صرف آزماش شرط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :