لبرل ازم طبقہ،آیا صوفیہ اور بابری مسجد

پیر 27 جولائی 2020

Saif Awan

سیف اعوان

8نومبر 2019کو بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کا حکم دیا تو اس متنازعہ فیصلے کیخلاف پاکستان کی جانب سے سخت ترین ردعمل سامنے آیا جبکہ پاکستان کے بعد ترکی اور ملائیشیا نے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مذمت کی۔دوسری جانب سعودی عرب،عرب امارات سمیت کسی چوتھے مسلمان ملک کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کے بھارتی عدالت کے فیصلے پر نہ ہی ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی کوئی ردعمل سامنے آیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے بابری مسجد کیس کا فیصلہ سنایا، پانچ رکنی بنچ میں مسلمان جج ایس عبدالنذیر بھی شامل ہیں۔”چیف جسٹس رانجن گنگوئی نے کیس کا فیصلہ سناتے ہو کہا بابری مسجد کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔

(جاری ہے)

ہندو ایودھیا کو رام کی جنم بھومی جب کہ مسلمان اس جگہ کو بابری مسجد کہتے ہیں۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد کی جگہ پر رام کی جنم بھومی تھی اور بابری مسجد کے نیچے اسلامی تعمیرات نہیں تھیں، بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں ہندو اسٹرکچر پر تعمیر کی گئی“۔

یہ تھا بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ جس کے بعد بھارت کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی مودی کی جماعت میں شامل ہو گئے اور آج کل ایک اہم سیاسی عہدے پر تعینات ہیں۔بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعد پاکستان میں ایک نام نہاد لبرل طبقہ اس فیصلے کی حمایت کررہا تھا ۔ایسا ہی کچھ ردعمل اس لبرل طبقے نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے متعلق دیا ۔
10جولائی 2020کو ترکی کی ایک اعلیٰ عدالت نے آیا صوفیہ کی عجائب گھرکی حیثیت ختم کرنے کے حق میں فیصلہ سنا، جس کے بعد اب اس تاریخی ورثے کے ایک مرتبہ پھر مسجد میں تبدیل ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ۔

ترکی کی اعلیٰ عدالت کونسل آف اسٹیٹ میں کیس چل رہا تھا کہ کیا آیا صوفیہ کی موجودہ حیثیت یعنی عجائب گھر کو ختم کرکے اسے مسجد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے اس کیس کا فیصلہ 2 جولائی کو سنانا تھا لیکن اْس دن مختصر سماعت کے بعد فیصلے کو 15 دن کے لیے موٴخر کر دیا گیا۔تاہم بروزجمعہ 17جولائی کو عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کر دی ہے۔

اس فیصلے کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی کے مغرب اور عیسائی برادری کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔خیال رہے کہ یہ عمارت چھٹی صدی میں بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں بنائی گئی تھی اور تقریباً 1000 سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر تھی۔ 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ نے اسے ایک مسجد بنا دیا تھا لیکن 1934 میں مصطفٰی کمال اتاترک کے دور حکومت میں اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا اور اِس وقت یہ عمارت اقوام متحدہ کے ورلڈ ہیریٹیج فہرست میں بھی شامل ہے۔

جبکہ ترک کے موجودہ صدر طیب اردوان نے الیکشن مہم کے دوران آیا صوفیہ کو ایک مرتبہ مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ترک عدالت نے آیا صوفیہ کو مسجد کا درجہ دینے کا فیصلہ دیا تو پوری دنیا میں ایک ہنگامہ کھڑا ہے۔مغرب کی جانب سے اس فیصلے کی شدید مخالفت بھی کی گئی اور سخت ردعمل بھی سامنے آیا جبکہ پوپ فرانسس بھی ترک عدالت کے فیصلے سے ناخوش نظر آئے۔

یہاں تک پاکستان میں نام نہاد لبرل طبقہ پھر اس فیصلے کیخلاف بول اٹھا کہ ترک عدالت کا فیصلہ متنازعہ ہے۔سوشل میڈیا پر بھی آیا صوفیہ کے متعلق عجیب و غریب ردعمل سامنے آئے ۔ویسے مجھے ذاتی طور پر حیرت ہوتی ہے کہ مسلمان مغرب اور غیر مسلم کے اقدامات کی تعریفیں کرتے ذرا بھی آر محسوس نہیں کرتے لیکن مسلمان ممالک کے فیصلے پر کھل کے اپنے دل کی بڑاس نکالتے ہیں ۔لبرل ازم پر یقین رکھنے والے طبقے کیلئے مشورہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے دین اسلام اور اپنے وطن عزیز کو مقدم رکھیں پھر مغرب اور غیر مسلم کی حمایت کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :