فائزعیسیٰ،صدیقی اور جج ارشد ملک

پیر 26 اکتوبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

چند ماہ قبل تحریک انصاف کا لائرز ونگ ملک بھر میں مختلف ہائیکورٹس بار کے وکلاء کے پروگرامز منعقد کررہا تھا ۔ان پروگرامز کا مقصد اور موضوع بحث ”جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس “ تھا۔ایسا ہی ایک پروگرام لاہور کے الحمراء ہال میں بھی ہوا جس میں کچھ نامور اور کچھ نامعلوم وکلاء نے جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کے متعلق کھل کر اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا ۔

اس پروگرام میں میرے ایک جانے والے وکیل صاحب بھی شرکت کرنے پہنچنے تھے ۔اسی شام میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا جناب آپ اس پروگرام میں شرکت کرنے کیسے پہنچ گئے۔ان کا جواب تھا کہ قانون سب کیلئے ایک جیسا ہونا چاہیے اور قانون کے سامنے سب کو جواب دے ہونا چاہیے۔ چاہے وہ وزیر اعظم ہو ،سیاستدان ہو ،کوئی جج یا جنرل ہو۔

(جاری ہے)

میں نے پوچھا کیا جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس انتقامی بنیادوں پر دائر نہیں کیا کہ انہوں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا ؟وکیل صاحب بولے یہ ریفرنس صرف ان کی اور ان کی اہلیہ کی پراپرٹی کے متعلق ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کا فیصلہ آنے کے اگلے دن میری اچانک ان وکیل صاحب سے ملاقات ہو گئی تو میں نے ان سے پوچھا جناب اب تو سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی کہہ دیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دیا ہے۔اب وکیل صاحب مسکرانے لگے اور کوئی جواب نہ دے سکے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے 7 ججز کا 173 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی 11 وجوہات بیان کی گئی ہیں۔پہلی وجہ: صدر اور وزیر اعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کی منظوری نہیں دی، یہ منظوری وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے دی جس کا انہیں آئینی و قانونی اختیار نہیں تھا۔دوسری وجہ: صدارتی ریفرنس دائر کرنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116 ایک کے تحت نوٹس دینا ضروری تھا جو نہیں دیا گیا۔

تیسری وجہ: ٹیکس آرڈیننس کی سیکشن 116 ایک کی تشریح کے بغیر یہ فرض کر لیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے بیوی اور بچوں کی جائیدادیں ظاہر کرنا لازمی تھا۔چوتھی وجہ: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔پانچویں وجہ: صدارتی ریفرنس میں ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس سے ظاہر ہو کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

چھٹی وجہ: صدر مملکت کو ریفرنس کے مرکزی کرداروں، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے غیر قانونی ایڈوائس دی۔ساتویں وجہ: صدر مملکت نے قانونی نکات پر تیسرے فریق سے بامقصد ایڈوائس نہیں لی۔آٹھویں وجہ: صدر مملکت ریفرنس میں موجود نقائص کو سمجھنے میں ناکام رہے۔نویں وجہ: صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 209 پانچ کے تحت اپنی رائے قائم نہیں کی۔دسویں وجہ: جواب گزاروں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں تک غیر قانونی طور پر رسائی حاصل کی۔

گیارہویں وجہ: معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی۔
عدالت نے سپریم کورٹ پر عمران حکومت کا ایک وار ناکام بنادیا ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کے فیصلے میں بہت سی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔اس ریفرنس نے صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کی کریڈیبلٹی پر بھی سوالات کھڑے کیے ہیں ۔

ہمارے صدر پاکستان تو شریف اور بھولے بھالے انسان وہ تو فروغ نسیم کے جھانسے میں آگئے لیکن عمران خان جیسا ایکٹیو شخص فروغ نسیم کے داؤ میں کیسے مات کھاگیا ہے یہ قابل تشویش بات ہے۔اگر اب عدالت نے درست سمت کا تعین کرلیا ہے تو جسٹس شوکت صدیقی اور جج ارشد ملک کے کیسز کا بھی فیصلہ ہونا چاہیے۔جسٹس شوکت صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے وکلاء سے خطاب کے دوران جو الزامات لگائے وہ انتہائی خوفناک اور قابل تشویش ہیں ۔

اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت بھی روزانہ کی بنیاد پر کرے ۔اسی طرح جج ارشد ملک کی حرکت سے جہاں نوازشریف کو تو سزا ہوئی وہاں پوری عدلیہ کے کردار اور وقار پر بھی سوالات اٹھے ہیں اور یہ سولات تب تک اٹھتے رہے گے جب تک سپریم کورٹ اس معاملے کی طے تک نہیں پہنچتی کہ جج ارشد ملک نے کس کے دباؤ میں اور کس سے بلیک میل ہوکر نوازشریف کیخلاف فیصلہ دیا ۔

جیسے وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس صاحب کو کہا ہے کہ کرپشن والے کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کریں ہم آپ کو ہر طرح کی مدد فراہم کریں گے۔ایسے سپریم کورٹ جسٹس شوکت صدیقی اور جج ارشد ملک کے کیسز کی بھی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں ۔تاکہ قوم کے سامنے اصل حقائق آسکیں۔
عمران خان نے احتساب کا نعرہ لگایا ہے تو اس کو ضرور پورا کریں لیکن احتساب کے چکر میں ایف آئی اے ،دیگر اداروں اور پولیس کو اتنی بھی کھلی چھٹی نہ دیں کہ وہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کیخلاف جھوٹے مقدمات بنائیں ،ان کو اغواء کریں اور ڈرانے دھمکانے کیلئے طلبی کے نوٹسز جاری کریں۔

ابھی کل ہی ہمارے ایک لاہور کے صحافی بول ٹی وی کے رپورٹر میاں داؤد کو ایف آئی اے نے طلبی کا نوٹس جاری کیا اور اس سے قبل کراچی سے کیپٹن صفدر اور مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑنے والے لوگوں کی ویڈیو جاری کرنے والے جیو نیوز کے رپورٹر علی عمران کو نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا ۔خان اعظم صاحب آپ سے پہلے بھی گزارش کی جاچکی ہے کہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو اپنا دشمن نہ بنائیں کل کو آپ بھی اپوزیشن میں آسکتے ہیں اور یہ وقت آپ کو اور آپ کے کارکنوں کو بھی دیکھنا پڑسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :