نہ سپر اوور نہ میچ ٹائی ، اب فائنل ہوگا

پیر 7 دسمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

پاکستان کی داخلہ پالیسی کیا ہے ،پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے،پاکستان کا مستقبل کیا ہے ،ستر سالوں سے پاکستانی قوم کو یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا۔دنیا کے بڑے اور طاقتور ملکوں کی پالیسیاں کم از کم بیس سے تیس سالوں پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ان ممالک کے ماہرین ریاست کو ایک پلان تیار کرکے دیتے ہیں کہ آنے والے بیس تیس سالوں میں ہمیں تعلیم،صحت،ڈویلپمنٹ ،صنعت اور توانائی کے شعبوں میں یہ یہ اقدامات ہر صورت اٹھانے ہونگے ورنہ آئندہ چند سالوں میں ہمارے ملک میں یہ بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔

لیکن پاکستان واحد ملک ہے جس کا کسی ایک شعبے میں بھی کبھی کوئی پلان تیار نہیں ہوسکا۔ہاں یہاں پلان تیار ہوتے ہیں وہ بھی کچھ اپنی کی نوعیت کے ۔مصری تہذیب ہویا یونانی تہذیب ہو ان دونوں تہذیبوں نے تعلیم،صحت،اور ڈویلمپنٹ کے شعبوں میں شاہکار بنائے۔

(جاری ہے)

دنیا کو جمہوریت کی جدید شکل بھی یونانیوں نے ہی دی۔یونانی جمہوریت میں صرف ایک خامی تھی کہ اس میں عام شہریوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا صرف ریاست کے امیر لوگ ہی اپنے نمائندوں ”سینیٹرز“کا انتخاب کرتے تھے جبکہ یہی سینیٹرز بعد میں عام شہریوں کے بھی نمائندے ہوتے تھے۔

ہمارے حکمران بار بار تاریخ سے سبق سیکھنے کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔جو بھی حکمران اقتدار میں آتا ہے اس کو صرف سب سے زیادہ فکر اپنی کرسی کی ہوتی ہے۔حکمران کرسی کی فکر سے باہر نکلیں تو ان کو عوامی مسائل کی فکر ہو۔
عمران خان نے پیچھلے دنوں اپنے وزیروں اور مشیروں سے خطاب کے دوران کہا تھا مجھے کرسی کی کوئی فکر نہیں ہے۔

ٹھیک خان صاحب اگر یہ حقیقت تسلیم کربھی لی جائے تو پھر آپ اتنے غیر مقبول کیوں ہوتے جارہے ہیں ۔آپ نے اڑھائی سالوں میں ایک بار بھی کبھی عام مارکیٹ کا دورہ نہیں کیا کہ شہری کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور کس طرح کی مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں۔ابھی کل تو آپ نے کہا تھا کہ چینی کی قیمت 20روپے کم ہو گئی ہے لیکن آج بھی چینی 105کلو مل رہی ہے۔

چینی جو ہماری اپنی پیداوار ہے وہ ہم آج یوکرائن اور نائیجریا جیسے ملکوں سے منگوانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔کیا یہ ساری چینی پی ڈی ایم کھاگئی ہے۔یہ 1965کی بات ہے جب پاکستان اور بھارت کے دوران جنگ چھڑ چکی تھی ۔نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے گورنر ہاؤس میں تاجروں کو طلب کیا۔ تاجر گورنر ہاوٴس کے دربار ہال میں جمع ہو گئے جہاں وسط میں صرف ایک کرسی رکھی تھی۔

تاجروں کا وفد ہال میں آ کر کھڑا ہوا تو کچھ دیر کے بعد نواب صاحب ہال میں آئے اور وہاں موجود واحد کرسی پر بیٹھ کر کہا کہ لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے۔ اگر کسی نے اشیائے ضرورت ذخیرہ کیں یا مقررہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم اور دکان مستقل طور پر سیل کر دی جائے گی۔جنگ ہی کے دنوں میں ایک بار سکیورٹی کے بغیر نواب صاحب بازار پہنچ گئے۔

انھیں اطلاع ملی تھی کہ کوئی تاجر مقررہ نرخ سے زائد پر گندم فروخت کر رہا ہے۔ اسے کہا تم شاید یہ سمجھتے ہوگے کہ امیر محمد جنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے؟ میری مونچھ کو تاوٴ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آ جائیں ورنہ ایسی سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔کہتے ہیں اس کے بعد پورے صوبے سے ایسی کوئی شکایت نہ آئی۔آج پنجاب میں گندم 26سو فی من اور آٹا 90روپے کلو فروخت ہو رہا ہے ۔

وزیراعظم تو دور کی بات نہ گورنر کسی مارکیٹ میں اشیاء کی نرخ چیک کرنے نکلا اور نہ کوئی وزیر مشیر آٹے چینی کا باؤ معلوم کرنے آیا۔غریب عوام ہیں اور منافع خور دکاندار ۔
 منگل کے روز عوامی رکشہ یونین کے چیئر مین مجید غوری نے لاہور پریس کلب کے باہر رکشہ مزدورو ں کے ہمراہ ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا ۔مجید غوری نے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا خان صاحب مزدور کو آج نہ چینی مل رہی ،نہ آٹا مل رہا ہے،نہ دوائی مل رہی اور نہ روزگار مل رہا ہے ،آپ نے اس ریاست مدینہ کا وعدہ الیکشن سے پہلے کیا تھا؟رکشہ یونین نے جمعرات کو جلو موڑ سے یو ای ٹی یونیورسٹی تک بھی ایک بڑی ریلی نکالی جس میں سینکڑوں رکشہ ڈرائیو شامل تھے۔

یہ سب رکشہ ڈرائیو مہنگائی،بیروزگار ،ٹریفک پولیس کے روزانہ کے چالانوں اور ایل ٹی سی کی غنڈہ گردی کیخلاف سرپا احتجاج ہیں۔مجال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ،چیف سیکرٹری یا آئی جی پنجاب کے کانوں تک کوئی جوں تک رینگی ہو یہ رکشہ ڈرائیو کیوں احتجاج کررہے ہیں ۔
ایسی ہی کچھ صورتحال اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی ہے۔جو دو ماہ سے مسلسل حکومت کیخلاف جلسے جلوس اور احتجاج کررہے ہیں لیکن نہ ان جلسوں کی حکومت کو فکر اور نہ طاقتور دیوتاؤں کو فکر ہے۔

حکومت اور طاقتور دیوتا ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ شاید پی ڈی ایم کا اتحاد جلسے کرکے قیمت والے نان اور برنانی کھاکر گھروں کو واپس لوٹ جائے گا۔لیکن اب بات جلسوں سے آگے نکلنے والی ہے۔پی ڈی ایم کا 13دسمبر کو لاہور میں آخری جلسہ ہے۔اب ان کا اگلا ہدف اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ ہے۔اب پی ڈی ایم نے فائنل راؤنڈ شروع کردیا ہے۔ہمیشہ فائنل جب بھی ہوتا ہے اس میں ایک فریق کو شکست لازمی ہوتی ہیاب میچ ٹائی ہونے والا بھی چکر ختم ہو گیا اور نہ ہی کوئی سپر اوور ہوگا۔اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ فائنل میں دیوتاؤں کو شکست ہوتی ہے یا پی ڈی ایم کو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :