خاموشی ساز باز کے مترادف

پیر 20 جنوری 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پچھلے 72سالوں سے اقوام عالم کشمیر کے عوام کو آزادی دینے سے محروم ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوا م متحدہ کی قرار دادیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات برائے مذاکرات جبکہ تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ مسئلہ تا حال حل طلب ہے۔ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کے سامنے کشمیری عوام کھڑے ہیں۔ یہ صورتحال بھارت کی جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے اور عالمی ضمیر کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

کشمیر میں جاری عوامی تحریک مظلوم کشمیریوں کے عزم و حوصلے اور آزادی کے حصول کی جدو جہد ہے۔ اس تحریک آزادی کو بھارت نے دہشتگردی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس بھارتی پراپیگنڈہ کا جواب پاکستان کی طرف سے سفارتی سطح پر بلا تعطل ضروری ہے۔ حکومت پاکستان اپنی بساط، بصیرت اور وسائل کے مطابق جواب دینیکی کوشش بھی کرتی آ رہی ہے۔

(جاری ہے)


 اب وفاقی حکومت نے پانچ فروری کو یوم کشمیر منانے کا فیصلہ کیا ہے وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور شہریت قانون میں ترمیم نسل پرستانہ عزائم کی تکمیل کی کوشش قرار دیا ہے۔

انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کے سامنے مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بات بھی کی۔ انہوں نے کہا دنیا کو باورکروایا جائے سلامتی کونسل کی قرار دادوں سے مسئلہ کشمیر کا حل اقوام عالم کا فریضہ ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ اتوار کے روز وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کیا پاکستان کو بھارت کی جانب سے ایک خود ساختہ جعلی حملے کا سخت اندیشہ ہے۔

بھارت نے ایل او سی پر عسکری حملوں میں نہتے شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان کیلئے سرحد پر خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔
قارئین کرام! برصغیر میں ڈیرھ ارب سے زائد انسان آباد ہیں۔ آج کے مہذب اور جدید دور میں عالمی سطح پر جس خوشحالی کا خواب دیکھا جا رہا ہے اس منزل کا راستہ کشمیر سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔

یہ وہ حقیقت ہے جسے پاکستان سمیت دنیا کی تمام سیاسی قیادت مانتی ہے۔ مگر بھارت کشمیر کے مسئلہ کے پر امن حل کی طرف آنے کو تیار نہیں۔ علاقائی تھانیدار کے روپ میں بھارت اپنا گھناؤنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس سے خطے میں دو ایٹمی قوتوں کے درمیان بہت خطر ناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔خارجہ سطح پر حکومت پاکستان اپیلوں،مطالبات اور بیانات کی حد تک تو متحرک ہے لیکن حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو چین ہی ایک ایسا ملک ہے جو ہمارے ساتھ ہے کشمیر کیلئے چین سب سے توانا آواز ہے۔

چین کی اپنی ایک پوزیشن ہے اور اپنی خارجہ پالیسی، جس کے تحت چین اس خطہ میں امن کا متلاشی ہے۔ ایران امریکہ کشیدگی اور افغانستان سے امریکہ کی واپسی یہ ایسی سیاسی تبدیلیاں ہیں جن کے رونما ہونے سے امریکہ مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کرنے پر تیار ہو سکتاہے۔ امریکہ کو قائل کرنے کی ذمہ داری پاکستان کی وزارت خارجہ کی ہے۔
گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سلامتی کونسل میں چین کی درخواست پر کشمیر کے مسئلہ پر دوسرا اجلاس ہوا، سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں اقوام متحدہ کو کشمیر کے ساتھ لائن آف کنٹرول کی حالیہ صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کے بعد چین کے مستقل مندوب ز ینگ جن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستا ن بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے حوالہ سے دنیا کو خبر دار کیا ہے مسئلہ کشمیر پر بھارت کو سلامتی کونسل کے ممبران کی درخواست پر عمل کرنا چاہئے۔ روس کے مستقل مندوب دمتری پولیانسکی نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات مامور پر لانے کے خواہاں ہیں۔


سپین میں بھی انٹرنیشنل کشمیر پیس فارم کے تحت کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہواجس میں سپین کی قومی اسمبلی کی ممبر ماریہ دانتس نے کہا سپین اسمبلی میں کشمیر کے حق میں قرار داد منظور کروائی جائے گی انہوں نے عالمی برادری کی خاموشی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے سے پہلے پاکستان کو برادر اسلامی ممالک سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک ضروری ہے۔

چین نے تین مرتبہ سلامتی کونسل میں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کی درخواست کی ان میں گزشتہ سال اگست اور دسمبر جبکہ رواں سال جنوری شامل ہیں۔ پاکستان اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے عرب ممالک کے ساتھ حمایت کی بات کھل کر نہیں کرسکتا اور پاکستان کے وزیر خارجہ مناسب الفاظ میں اپنی بے بسی کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارت سعودی عرب،خلیجی ممالک سمیت ایران پر بھی معاشی اثرو رسوخ رکھتاہے۔

اب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کااز سر نو جائزہ لینا چاہئے جبکہ امریکہ افغانستان کے مسئلہ کے حوالہ سے پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے اور ایران امریکہ کشیدگی سمیت ایران سعودیہ تعلقات میں بہتری کیلئے پاکستان ہی کردار ادا کر سکتاہے۔ وقت ہیپاکستان اب موثر خارجہ حکمت عملی اپنائے۔
 امریکہ کے سینٹر کوری بوکر نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت یکطرفہ طور پر تبدیل کیے جانے کے معاملے پر سینیٹ میں قرار داد لانے کا عزم کیا ہے۔

واشنگٹن میں ایک تقریب کے بعد انہوں نے کہا سینئیر سینٹرز جن کا تعلق امور خارجہ کمیٹی سے ہے کے ساتھ ملکر کشمیر کے معاملہ پر قرار داد لائیں گے۔ انہوں نے کہا اہمیت اس بات کی ہے کہ سب ہم آواز ہوں اس پر خاموشی اختیار کرنا ساز باز ہونے کے مترادف ہے جو نہیں ہونی چاہئے۔پاکستان میں سیاست اور سیاسی اختلاف اپنی جگہ تمام سیاسی قیادت اگر کشمیر کے مسئلہ پر ہم آواز نہیں اور ہمارے دوست ممالک خاموشی اختیار کرتے ہیں تو میری دانست میں یہ بھی ساز باز ہوگا۔

جبکہ امریکہ میں سینٹر کوری بوکر خاموشی کو ساز باز قرار دیتے ہیں تو حکومت پاکستان دوست ممالک کی خاموشی کو ساز باز کو کیوں نہیں سمجھتے اور اس کے تدارک کیلئے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کیوں نہیں لاتے۔ یہی آج کا سوال ہے او ر یہی دعوت فکر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :