نیا پاکستان اور آزادی اظہار

جمعہ 6 مارچ 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

 ہفتہ رفتہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری پنجاب کو اپنی سیاسی مصروفیات کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔اپنے سیاسی لائحہ عمل کو بیان کرنے کیلئے وفود سے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے تاہم عام آدمی سے مخاطب ہونے کا سب سے بہتر اور موثر ذریعہ میڈیا ٹاک ہے۔ اس ذریعہ کے بہتر استعمال کے لیے بلاول بھٹو نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران لاہور پریس کلب میں ''میٹ دی پریس ''میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج ہر طرف سے جمہوریت اور آزادی صحافت پر حملے ہو رہے ہیں۔


قارئین کرام! بلاول بھٹو کی سیاسی باتوں سے قطع نظر میڈیا کے حوالے سے جو انہوں نے گفتگو کی وہ قابل غورہے۔ بلاول بھٹو کے مطابق اخبارات اور چینلز پر سنسر شپ ہے، ایسا نیا پاکستان نہیں مانتے جہاں آزادی اظہار نہ ہو۔

(جاری ہے)

حکومت نے پریس پر پہلا حملہ اس وقت کیا جب اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے واجبات نہیں دیے گئے۔ میڈیا کے واجبات کی ادائیگی نہ ہونے کے عذر کو استعمال کرتے ہوئے ہر ادارے سے صحافیوں کو نکالا گیا۔

اس کے بعد جس تیزی کے ساتھ ملک میں سنسر شپ میں اضافہ ہوا اس کے تحت ہونے والی گھٹن صرف سیاسی کارکنان اور اپوزیشن کیلئے ہی نہیں بلکہ صحافیوں، کیمرہ مین، پروڈیوسر، میڈیا مالکان کیلئے بھی ہے بلکہ بلاگرز اور ٹویٹر، فیس بک پر پوسٹ کرنے والے بچوں پر بھی ہے۔ اگر ایسا پاکستان تشکیل دینا ہے جہاں ہر ایک کی اپنی مرضی ہو کہ وہ کیا لکھنا چاہتا ہے اور کیا پوسٹ کرنا چاہتا ہے جہاں تعمیری تنقید برداشت ہو اسکے لیے ہمیں صحافتی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے، یہ جدوجہد ہم سب کے مفاد میں ہے۔


 بلا شبہ تبدیلی سرکار بلاول بھٹو زرداری کے خیالات سے متفق نہیں ہوگی۔ حکومتیں تو ہمیشہ میڈیا کو اپنے خلاف سازش کا حصہ ہی سمجھتی آئی ہیں۔ کیا حقیقت میں میڈیا حکومت کے خلاف ہونے والی ہر سازشوں کا حصہ دار ہوتا ہے یہ بہت اہم سوال ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے دوران 2014ء میں دھرنے کو سارا دن اور رات چینلز پر نشر کیے جانے پر بھی اعتراضات اٹھتے رہے تب عمران خان میڈیا کی حمایت میں سب سے آگے تھے۔


نئے پاکستان میں عمران خان کا کردار بدل گیا اور میڈیا کا انداز۔۔۔ میڈیا کو جو بھی آزادی حاصل ہے اس کو کنٹرول کرنے کیلئے آج تک 150کے قریب قوانین نافذ کیے گئے آج بھی کم و بیش میڈیا پر قابو پانے کیلئے 44قوانین استعمال ہو رہے ہیں۔میڈیا کتنا آزاد ہے اور اس پر کس حد تک قد غن ہے اس پر سول سوسائٹی میں گفتگو ہو تی رہتی ہے۔ ہمیشہ سے اپوزیشن کی جانب سے آزادی صحافت کی حمایت میں آواز بلند ہوتی ہے۔

ہمیں ادراک ہے کہ پاکستان میں میڈیا اسی حد تک آزاد ہے جس حد تک جمہوریت مضبوط اور بہتر ہے۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالہ سے بات کرنے کی ضرورت ہے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خطے کے دیگر ممالک سعودی عرب، چین، ایران،افغانستان سے ہماری میڈیا کی صورتحال بہترہے تو محسوس کرتے ہیں ہمیں خطہ کے ممالک سے نہیں ترقی یافتہ ممالک سے اپنا موازنہ کرنا چاہئے۔

2019ء پریس فریڈم انڈیکس نے اپنی سالانہ رینکنگ جاری کی جس میں سب سے زیادہ آزادی اظہار رکھنے والے دس ممالک میں ناروے، فن لینڈ، سویڈن، نیدر لینڈ، ڈنمارک، سویٹزر لینڈ، نیوزی لینڈ، جمیکا، بیلجیم اور کوسٹا ریک سر فہرست ہیں پاکستان کا نمبربہتر نہیں ہے۔ آزادی صحافت کے ممالک کی سالانہ درجہ بندی رپورٹ ایک سوال نامہ پر مبنی ہوتی ہے جس سے نتائج اخذ کر کے فہرست مرتب کی جاتی ہے۔

2010 ء میں پاکستان کو دہشتگردی کا سامنا تھا جس کے مقابلے کیلئے کچھ پابندیاں قابل برداشت تھیں۔ صحافیوں کیلئے آزاد ماحول میں کام کرنا بھی مشکل تھا۔ اب الحمداللہ صورتحال ویسی نہیں۔ لاء اینڈ آرڈر بہت بہتر ہے اور پاکستان میں تواتر سے انتخابات ہو رہے ہیں۔ ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے توقع ہونی چاہئے کہ میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے بہتر ہو۔

اس حوالہ سے بلاول بھٹو زرداری کے تحفظات قابل غور ہیں۔
پاکستان کا آئین آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کے بنیادی اصولوں کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں اس حوالے سے اعتراضات سامنے آتے رہتے ہیں۔آئین پاکستان سنسر شپ کو محدود کرتا ہے لیکن اسکے ساتھ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی عوامی نظم و اخلاقیات کے مفادات میں معقول پابندی کی اجازت بھی دیتا ہے۔

2019ء میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات اور پی ٹی اے کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ پاکستان ریاست، عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف توہین آمیز مواد رکھنے پر 9لاکھ URLکو بند کر دیا گیا ہے۔ اب جبکہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت قائم ہے جن کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ فیس بک کے وزیر اعظم ہیں۔ انھیں مقبول عوامی لیڈر بنانے میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔

ایسے میں تبدیلی سرکار میں میڈیا میں محسوس کی جانے والی گھٹن ایک لمحہ فکریہ ہے۔میڈیا ہاؤسز کے مالی معاملات اور ادائیگیاں بلا شبہ حل طلب معاملات ہیں۔ دوسری طرف میڈیا اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات میں اپوزیشن کی مشاورت اور میڈیا نمائندگان کی رضا مندی بھی ضروری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری جب اظہار رائے کی آزادی کی بات کر رہے تھے تو صوبہ سندھ میں جہاں انکی حکومت قائم ہے وہاں صحافی عزیز میمن کی موت پر اٹھائے جانے والے سوال کا جواب دینا تھا۔

الحمد اللہ اسی دوران ایڈیشنل آئی جی ولی اللہ نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیش ہو کر صحافی عزیز میمن کی موت کو طبی قرار دیدیا۔ یاد رہے 16فروری کو نجی ٹی وی چینل KTNکے رپورٹر عزیز میمن کی نعش مہراب پور میں نہر سے ملی تھی۔فریڈم آف پریس کو درپیش چیلنجز میں ریاستی جبر کے ساتھ معاشرے میں موجود عدم برداشت کے رویے بھی شامل ہیں۔یہ سماجی رویے بھی بہت بڑی سنسر شب ہے۔

راقم الحروف کو بھی بلاول ہاوس میں بلاول بھٹو سے بالمشافہ ملاقات کا موقعہ ملا۔اس موقعہ پر چوہدری منظور سے ہم نے جب اپنی رائے کے اظہار پر آنے والے ردعمل پر پارٹی کی طرف سے حمایت نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ جنرل سیکرٹری سنڑل پنجاب پی پی پی چوہدری منظور کی مصروفیات کے باعث انکا مفصل جواب سننے سے محروم ہی رہے۔
 ریاستی جبر کے ساتھ سماجی رویے آزادی صحافت پر ایک بڑی پابندی ہیں۔

خلیل الرحمن کے مقابلہ میں ماروی سرمد کی رائے سے متفق طبقہ کی عزت کرنے پر ایک بڑی اکثریت تیار نہیں۔اختلاف رائے درست مگر بد کلامی اور شخصی حملے آزادی کے تصور کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ایک لائن میں لکھوں تو ہمارا بڑا مسئلہ رویوں میں بہتری اور معاشرے کی اصلاح سے متعلق ہے۔ ہمیں محض معلومات حاصل کرنے اور مہیا کرنے کی آزادی تک خود کو محدود نہیں کرنا چائیے۔ ریاستی جبر کے خاتمہ کے ساتھ پرداشت کا کلچر اور جہموریت ہی آزادی صحافت کی ضمامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :