
''سیاسی بیانات اور تلخ حقائق''
منگل 11 اگست 2020

سلمان احمد قریشی
دوسری طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مظفر آباد میں قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتیہوئے مسئلہ کشمیر کے بارے کہا کشمیر باتوں سے نہیں، موثر سفارت کاری سے آزاد ہوگا۔ جادو ٹونے یا لفاظی سے نہیں۔ جس راہ سے اٹیمی قوت بنے اسی پر چلنے سے کشمیر پاکستان بنے گا۔
قارئین کرام! وزیر اعظم عمران خان ہوں یا موجودہ اپوزیشن ملکی ترقی کے دعوے، خوشحالی کی نوید اور مسئلہ کشمیر پر بلند وبالا دعوے نئی بات نہیں۔
(جاری ہے)
ہر آنے والا حکمران تمام مسائل کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو قرار دے کر بہتری کی امید دلاتا ہے۔ 73سال بیت گئے، ترقی کا دور شروع ہوا نہ تنازعہ کشمیر پر مثبت پیش رفت، آج بھی کشمیرآزادی ہندکا نامکمل ایجینڈاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کو چھوڑ کر کسی بھی دور حکومت میں عوام خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں رہے نہ ہی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچے۔
مسئلہ کشمیر پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی موجودہ حکومت کی طرف سے پاکستان کے نئے نقشہ کے اجراء پر اختلافی بیانات دیکھنے اور سننے کو ملے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے جنرل سیکرٹری مولوی بشیر احمد نے میڈیا بیان میں پاکستان کی طرف سے نئے نقشے کا خیر مقدم کیا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا۔ حریت قیادت کے مطابق نئے نقشہ سے دو قومی نظریہ کی عکاسی اور حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی قیادت نقشے کے اجراء پر تنقید اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالہ سے میمز بنائے گئے۔ یہ کیسا اتفاق رائے ہے۔۔۔؟ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن پر مسئلہ کشمیر پر تعاون کے بدلے این آر او کے مطالبے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جبکہ آج اپوزیشن حکومت کو کشمیر کے مسئلہ پر موثر سفارت کاری کا درس دے رہی ہے۔جس وقت خودمسند اقتدارپر براجمان تھے تب یہ سبق کیوں نہ یاد آیا۔ ستم ظریفی حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے ہر بات پر سیاست، اور بیان بازی۔ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ کے حالیہ اجلاس میں قرار داد منظور ہوئی۔ جس میں عالمی برادری سے بھارتی مظالم کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اپوزیشن کے تعاون پر وزیراعظم عمران خان این آر او کا الزام لگائیں تو پھر آگے کیسے بڑھا جائے۔۔۔؟
1988ء میں جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو برسراقتدار آئیں تو امید ہوئی خارجہ سطح پر مسئلہ کشمیر پر پیش رفت ہوگی تو اس وقت انکو اپوزیشن کی طرف سے سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ بھارت کو سکھوں کی لسٹیں فراہم کرنے جیسا الزام لگا یا گیا۔ قومی اتفاق رائے کو مدنظر رکھا گیا نہ ملکی وقار کو، مقصدصرف حکومت گرانا تھا۔آج 2020ء میں وزیراعظم عمران خان پر انکے مخالفین کلبھوشن کی رہائی کے لیے اقدامات کا الزام لگاتے ہیں۔ ماضی قریب میں نوازشریف مودی کے یار قرار دئیے جاتے تھے۔ سیاسی میدان میں اخلاقی، فکری زوال کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ لہذا بغض، کینہ، حسد اور نفرت جیسے جذبات کا خاتمہ ضروری ہے۔ قوم کے رہنماوں اور صاحب فکر حضرات کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ قوم کشمیرمسئلہ پر متحد ہے مگر سیاسی قیادت کی طرف سے بعض دفعہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔قومی اخبارات میں بیانات سبھی حسب سابق ہیں۔ صرف تصاویر اور نام بدلے۔ بڑے بڑے القابات وخطابات، معاملات وہی، مسائل جوں کے توں اور ہم اپنا 72واں یوم آزادی منارہے ہیں۔
وطن عزیر میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کی قیادت نے دامے درمے سخنے اپنی اہلیت کا اعلان اور بہتر مستقبل کی امید نہ دلائی ہو۔ مگر حالات تو جوں کے توں ہیں۔سب سے پہلے ہم یہ مان لیں کہ یہ عہد عارضی ہے دائمی نہیں، زندگی کا پہیہ رواں رکھنا ہی مسئلے کا حل ہے۔قوموں کی زندگیوں میں مشکل وقت گزر جاتا ہے۔ زندگی جفا و ابتلاء سے عبارت ہے مگر پاکستان میں محسوس ہوتا ہے یہ وقت طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے۔
راقم الحروف ہرگز نا امید نہیں مگر خوش گمانی سے پہلے ہمیں یہ مان لینا چاہیے اصل وجہ یہ ہے کہ ہم خود ہی غلط ہیں خود کو پکڑنے کی بجائے سیاسی مخالفین کو رگیدنے میں لگے رہتے ہیں۔ سوچ بچار اور طرز فکر پر سیاسی مخالفت حاوی ہے۔ فیصلہ نما تجزیے کرنے اور پڑھنے کے عادی ہیں۔ ہمیں پاکستان کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے۔ شروعات کا آغاز اعلی درجے سے ہونا چاہیے۔ یہی سیاسی قیادت کی اصل آزمائش ہے۔ ہمارے رہنما سابقہ غلطیوں سے کچھ سیکھ پاتے ہیں یا نہیں۔۔؟ہمارامستقبل اس پر منحصر ہے۔بیانات سے ترقی کا دور شروع ہونے والا نہیں نہ ہی کشمیر کاز پر کامیابی مل سکتی ہے۔ عام سیاسی کارکن کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی بیوقوفیوں کی عادت پر ڈٹے رہنا ہے یا حلقہ ہائے سیاست میں حقیقت شناس بننے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہوگیا۔اب وزیراعظم عمران خان کو سنبھل کر چلنا چاہیے۔ جذبات سے سیاست ہوسکتی ہے حکومت نہیں۔ ہوش سے چلیں جوش سے نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سلمان احمد قریشی کے کالمز
-
گفتن نشتن برخاستن
ہفتہ 12 فروری 2022
-
نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا عزم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
کسان مارچ حکومت کیخلاف تحریک کا نقطہ آغاز
پیر 24 جنوری 2022
-
سیاحت کے لئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت
بدھ 12 جنوری 2022
-
''پیغمبراسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں''
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
ڈیل،نو ڈیل صرف ڈھیل
بدھ 29 دسمبر 2021
-
''کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور ملکی سیاست''
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
غیر مساوی ترقی اور سقوطِ ڈھاکہ
اتوار 19 دسمبر 2021
سلمان احمد قریشی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.