''حقیقی عوامی مسائل اور سیاست''

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

فی زمانہ سیاست نظریات اور عوامی مسائل سے ہٹ کر شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ صرف میاں نواز شریف کی ذات کا دفاع ہے جبکہ جے یوآئی (ف) میں مولانا فضل الرحمن اپنی ذات میں خود انجمن ہیں۔ عمران خان کی پارٹی برسراقتدار ہوتے ہوئے بھی عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپوزیشن سے مقابلہ بازی میں مصروف ہے۔ حکومتی وزراء اپوزیشن کو غداراور کرپٹ ثابت کرنا ہی فرض عین سمجھتے ہیں۔

عوامی مسائل اور انکا حل توحکومت کی ترجیح ہی نہیں۔پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان ہی واحد ایماندار سیاست دان ہیں۔ کہتے ہیں ہینڈ سم بھی ہیں اور تقریر بھی پرچی کے بغیر کرلیتے ہیں۔ دل فریب نعروں اورمخالفین پر ذاتی حملوں سے ووٹرمطمین ہیں۔ ایسیسیاسی ماحول میں عوامی مسائل کے حل سے حکومت کو کیا سروکار۔

(جاری ہے)

۔۔؟
جب عوام اپنے لیڈر سے وعدوں کی تکمیل کے متعلق سوال ہی نہیں کریں گے تو تبدیلی سرکار کو کیا مسئلہ۔

۔۔۔ عوامی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے نعروں سے حکومت صرف اپنا الو سیدھا کرتی رہے گی۔
سیاسی بیانات ہر گزرے دن کے ساتھ اقدارواخلاق سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔کرپشن کے خلاف کاروائی کے دعوے تو حکومتی صفوں میں شامل کرداروں سے چشم پوشی سے ہی ہوا ہوگئے۔ اپوزیشن کے احتساب کے بیانیہ پر انتقام کا تاثر غالب نظر آتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری 6اگست 1990ء کو پہلی بار گرفتار ہوئے۔

وہ کونسا الزام ہے جو انکی ذات سیمنسوب نہیں کیا گیا۔ 30سال بعد آج بھی وہ عدالتوں میں حاضر ہیں۔اس احتساب یا انتقام کا نتیجہ آخر کیا نکلا۔۔۔؟
اب اپوزیشن بھی حکومت کے خلاف فائنل راونڈ کھیلنے کا اعلان کر چکی ہے۔ کپتان کے کھلاڑی اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کو ہی کامیاب سیاست سمجھتے ہیں۔ اب عوامی مسائل کے حل کے لیے کون سامنے آئے گا۔

سیاست برائے مخالفت جاری ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کی زندگیاں اجیرن کردیں۔ زندہ باد، مردہ باد کے نعرے ہر طرف سنائی دے رہے ہیں۔مگر عوام کا برسان حال کوئی نہیں۔ان حالات میں بھی
حکومت اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار نہیں۔پی ڈی ایم حکومت کے خاتمہ کے لیے دمادم مست قلندر کرنے جارہی ہے۔ سیاست میں تلخی اور گرماگرمی بڑھتی ہی جارہی ہے۔

اس سیاسی صورتحال میں عوامی مسائل کی نشاندہی اور حل صرف نعرو تک ہی محدود ہے۔ سنجیدگی اور بہتری کی طرف آگے بڑھنے کی صورت صرف ڈائیلاک سے ہی ممکن ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنا اپنا کردار ادا کریں تو بہتری کی آس لگائی جا سکتی ہے۔
اپوزیشن کے مطابق موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے پر اگر سوالیہ نشان لگایاجائے تو 2013ء میں مسلم لیگ (ن)بھی ان الزامات کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔

اب تبدیلی سرکار حکومت میں ہے تو ن لیگ کو امپائر پر اعتراض ہے۔ اس سیاسی گیم میں ایک ہی راستہ سب کے لیے بہتر ہے کہ امپائر کے متعلق سب مل کر فیصلہ کرلیں اورحقیقی عوامی مسائل کے حل کی طرف آئیں۔حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ملک تو درست سمت آگے بڑھے۔ پاکستان زندہ باد، جمہوریت زندہ باداورعوام زندہ باد یہ نعرے گونجنے چاہئیں۔
قارئین کرام! موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک دفعہ پھر سب سے پہلے پی پی پی کی طرف سے مثبت پیغام آیا۔

شیری رحمن نے مولا بخش چانڈیو، سسی پلیجو اور روبینہ خالد کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔وہ پارلیمان میں آئیں۔ کشمیر، کورونا، جی بی پر ہم نے حکومت کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا اصل مسئلہ مہنگائی ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کی جارہی۔ حکومت نے ہمیں بیانیے کی جنگ میں الجھا رکھا ہے۔جبکہ دو سال میں ملک کو ایف ایٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکال سکے۔

جب بھی پاکستان بارے کوئی اہم مسئلہ
 ہواپھر ہم اکھٹے ہوجاتے ہیں۔
غور طلب امر تو یہ ہے سیاسی قائدین کیوں متحد ہونے کے لیے کسی بڑے سانحہ کا انتظار کرتے ہیں۔حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوامی مفاد میں سیاسی قیادت کو متحد کرے۔حقیقی مسائل کے حل کی طرف آئے۔ میری دانست میں پی پی پی کی طرف سے تعاون کی بات عوام کے بڑھتے مسائل کے حل خواہش ہے۔

پی ٹی آئی اسے این آر او کی خواہش قرار دے کر ماضی کی طرح ہوا میں نہ اڑا دے۔ آج نہیں تو کل حکومت اور اپوزیشن کومذکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ریاستی ادارے تو پہلے ہی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاسی قیادت کو متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔ یہ جتنی جلدی ممکن ہوگا اتنا ہی بہتر ہے۔ سیاست برائے مخالفت کسی کے حق میں بہتر نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :