حکومت، بیوروکریسی اور مہنگائی

بدھ 4 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

حکومتی دعووں اور تمام تر کوششوں کے باوجود ایک ماہ کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کی بجائے 12فیصد اضافہ ہوا۔ تبدیلی سرکار کے لیے مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ عام آدمی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے اور مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔ حکومت صرف اپوزیشن سے لڑنے میں مصروف ہے جبکہ مہنگائی کا جن بے قابو نظرآتا ہے۔ ادویات، اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ سے تبدیلی کا خواب چکنا چور ہو رہے ہیں۔

الیکشن سے قبل پی ٹی آئی نے سہانے خواب دکھانے اور اپوزیشن پر تنقید سے عوامی حمایت توحاصل کرلی مگر اب حکومت بے بس محسوس ہوتی ہے۔
کپتان کے کھلاڑی ہر میدان میں ناکام، کبھی ٹائیگر فورس پر تکیہ کرنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی بیوروکریسی پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

تاہم حکومت کی نااہلی عیاں ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اعلی حکام کو ایک رپورٹ پیش کی گئی جسکے مطابق مہنگائی کنٹرول کرنے میں بیوروکریسی پوری طرح دلچسپی نہیں لے رہی۔

رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں وزیراعلی کے 8اور چیف سیکرٹری # کے 21اجلاس ہوئے۔ اجلاس میں فیصلے ہوتے ہیں لیکن عملدرآمد کے بجائے معمول کی رپورٹ پیش کردی جاتی ہے جبکہ وزیر اعلی کو حقائق کے برعکس معلومات دی جاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 17اضلاع نے کام کرنے کی بجائے سب اچھا کی رپورٹس دیں۔ سپیشل برانچ کی رپورٹ کی تیاری بعض ڈپٹی کمشنرز کی مشاورت سے کی جاتی ہے۔

بہتر تعلقات کے سبب سب اچھا کی رپورٹ بھجوائی جارہی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا بعض اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اپنی رپورٹ خود تیار کرتے ہیں اور سپیشل برانچ کے آفیسر کے ذریعے ہیڈ آفس بھجوادی جاتی ہے۔ متعدد اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کبھی فیلڈ میں نہیں گئے جن میں مظفرگڑھ، ملتان، اوکاڑہ، ساہیوال،خوشاب، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ڈپٹی کمشنرزشامل ہیں۔ کچھ افسران پروٹوکول کے تحت دو تین دکانوں کا وزٹ کرتے اور تصاویر بنواتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ فیلڈ میں موجود افسران کی تاجروں سے مبینہ ملی بھگت سے اشیائے خوردونوش کے ریٹ کئی گنا بڑھے ہیں۔اسسٹنٹ کمشنرز بھی صرف کاغذی کاروائی تک محدود ہیں۔چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کو متعدد اداروں کی رپورٹس وصول ہوئیں لیکن کوئی انکے احکامات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ افسران اپنے خلاف کاروائی کو سفارش سے رکوادیتے ہیں۔

ترجمان چیف سیکرٹری کا کہنا ہے کہ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ بعض اضلاع میں آٹا کی مقررہ نرخوں سے زائد فروخت ہورہی ہے۔ چیف سیکرٹری نے نوٹس لے کر سخت کاروائی کا حکم دیا ہے۔
قارئین کرام!اس رپورٹ کے مندرجات اخبارات میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ تبدیلی سرکار کو تمام حقائق کا علم ہے۔موجودہ حکومت ایماندار ہونے کی بھی دعویدار ہے۔ لیکن عوامی مسائل میں کمی کی بجائے روز بروز اضافہ کیوں ہورہا ہے۔

۔۔۔؟ یہ غور طلب ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت ابتک تمام مسائل کو اپوزیشن پر تنقید کرنے اور تقریروں سیحل کرنے میں مصروف ہے۔
کوئی جامع پالیسی وضع نہیں ہوسکی۔قابل افراد کی ٹیم بھی ایک کے بعد دوسرے کے ناکام ہونے سے ناکامی کے تاثر کو مضبوط کررہی ہے۔ اپوزیشن کرپٹ، بیوروکریسی کنٹرول سے باہر ان حالات میں حکومت کتنا عرصہ گزار سکتی ہے۔ حکومت اپنی آئینی مدت 5سال پورے بھی کرلے تو بہرحال جاناتو عوامی عدالت میں ہی ہے۔

تب ہینڈ سم ایماندار قیادت مہنگائی کے ردعمل سے نہیں بچ سکے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے ریلیف کے لیے کچھ کرے۔ آٹا
 غائب، چینی کا بحران،مہنگائی کا طوفان ان سب مسائل پر شہباز گل جواب دہ نہیں۔ انکے لیے توحکومتی مشیر ہونے کے ناطے میڈیا کے ساتھ طنزا گفتگو بہت آسان ہے،مگرعوام کا سامنا ممکن نہیں۔

وقت پورا ہونے پر یہ غیر منتخب مشیران نظر نہیں آئیں گے۔پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے جو عوامی سیاست کرتے ہیں انہیں حلقے میں ہی رہنا ہے۔
ٹائیگر فورس کی نشاندہی پر خفیہ چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک ماہ میں پنجاب بھر میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف چھاپوں کے دوران 1300ٹن چینی قبصہ میں لی گئی۔ رواں سال اپریل سے اکتوبر تک 7ارب 10کروڑ روپے سے زائد کی ذخیرہ اندوزی قبضے میں لی گئی۔

9ہزار سے زائد ایف آئی آر درج کرکے 9543افراد گرفتار کئے گئے۔ ان تمام کاروائیوں کے باوجود چینی اور آٹے کا بحران آیا۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ چینی سکینڈل پر تحقیق کے بعد کاروائی کس کے خلاف ہوئی۔۔؟ بیوروکریسی کے کردار، ٹائیگر فورس کی مدد اور حکومتی اقدامات سب کچھ کرنے کے باوجود مہنگائی کیوں کنٹرول نہیں ہورہی۔ معاملہ صرف بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کا ہی نہیں حکومت میں شامل فیصلہ ساز بھی وزیراعظم کو درست مشورے نہیں دے رہے۔

پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں شامل کچھ کردار قابل گرفت ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پہلے فیصلہ کرلیں کہ انھیں صرف اپوزیشن سے لڑنے کا مینڈیٹ ہی ملا ہے یا عوام کے لیے بھی کچھ کرنا انکی ذمہ داری ہے۔ ''گھبرانا نہیں ہے '' اس نصیحت پر عمل اب مشکل ہوتا جارہا ہے اورگھبراہٹ ہونے لگی ہے۔ آٹا،چینی اور دیگر اشیاء خوردونوش کی ہوشربا قیمیتں برداشت سے باہر ہیں۔

حکومتی ناکامیوں کو اپوزیشن کی کرپشن کی داستانوں اور بیوروکریسی کی عدم دلچسپی سے جوڑ کر بات بننے والی نہیں۔
بات کو زلف یار کی طرح طول دینے کی بجائے لمحہ وصال کی طرح مختصر کروں تو عمران خان کی ایمانداری کا یقین اور اپوزیشن کی کرپشن کے قصے بہت ہوگئے۔ آج عام آدمی تبدیلی سرکار سے ایک ہی خواہش کرتا نظر آتا ہے کہ مہنگائی سے نجات دلوانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پرکچھ کریں۔

وزیراعظم کا نوٹس، اجلاس کا انعقاد اور بیانات سے آگے مارکیٹ تک معاملات کو چلایا جائے۔ کچھ کرنے کے لیے سچ کی تفہیم لازم ہے اس لیے سچائی کو تسلیم کریں اور بیوروکریسی پر تمام ناکامیوں کا بوجھ نہ ڈالیں۔اپنی سیاسی فہم وفراست کو بھی استعمال کریں۔حکومت مہنگائی کا جن قابو کرلے پھر آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :