''گلگت بلتستان الیکشن اورحقیقی تبدیلی''

ہفتہ 14 نومبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پی ٹی آئی کے وزراء جہاں جاتے ہیں اپوزیشن پر کرپشن اور بیڈ گورنس کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ اب وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی ٹیم کو اپوزیشن سے مقابلہ کرنے کے لیے جارحانہ انداز اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آج پاکستان کی سیاست میں کشیدگی عروج پر ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری کے دور حکومت کے علاوہ کبھی بھی مفاہمت اور برداشت کا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

سیاسی طور پر مخالفین کے وجود کو برداشت کرنے کا کلچر عام نہیں۔ حکومت کے خلاف ہمیشہ گرینڈ الائنس بنتے رہے ہیں۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان بھی مختلف اپوزیشن اتحاد کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری ہی وہ واحد شخصیت ہیں جہنوں نے طاقت ملنے پر مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔

(جاری ہے)

اس پالیسی سے پی پی پی کو توضرور نقصان ہوا لیکن پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔

الیکشن کے بعد اقتدار دوسری جماعت کو منتقل ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور سیاسی معاملات کو سڑکوں اور عدالتوں میں حل کرنے کی کوششوں کو مفاہمت سے ناکام بنانا بھی آصف علی زرداری کی سیاست کا کمال تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد 2018ء میں پی ٹی آئی برسراقتدارآئی۔ یہ سیاسی تسلسل ابتک جارہی ہے۔
قارئین کرام! 2013ء سے ہی پی ٹی آئی جارحانہ سیاسی انداز اپنائے ہوئے ہے۔

دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ عمران خان نے اسی طرز سیاست سیکامیابی بھی حاصل کی۔ تبدیلی آئی تو صرف حکومت کی حد تک باقی معاملات بہتر نہیں ہوئے۔ الزامات اور تلخ بیان بازی نے مفاہمت کو مک مکا کا نام دیااور سیاست کو گالی بنا دیا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں انتخابی مہم میں بدتہذیبی کی نئی مثالیں قائم ہوئیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما چور ڈاکو کہنے کے ساتھ پی پی پی پر تنقید کرتے ہوئے سندھ کے برے حالات کا بہت ذکر کرتے ہیں۔

سندھ کے حالات کی ایسے منظر کشی کی جاتی ہے جیسے وہاں تباہی ہی تباہی ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ صوبہ سندھ میں پی پی پی 2008ء سے بر سراقتدار ہے اور ناقابل شکست ہے۔ ایم کیوایم، قوم پرست، علاقائی بااثر افراد اور جی ڈی اے کی حمایت کے باوجود پی پی پی کو شکست نہ دی جاسکی۔ جمہوری ضابطہ کو مانیں تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ سندھ میں تباہی ہے۔

اس تباہی والے بیانیے کو اگر درست تسیلم کربھی لیا جائے تو سندھ کے ووٹرز کے سیاسی شعور پر سوال اٹھتا ہے۔ سندھ جو پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرار داد منظور کرنے والا صوبہ ہے۔ بحالی جمہوریت کی تحریکیوں میں سب سے زیادہ متحرک خطہ، کیا وہاں 12سال سے کرپٹ اور نااہل برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔۔۔؟ ایماندار اور اہل کامیاب کیوں نہیں ہوریے۔سوال یہ بھی ہے کہ جی بی میں سندھ کا نوحہ پڑھنے والے سندھ کی عوام کو کیوں قائل نہیں کرسکے۔

۔؟
سب سے سادہ اور آسان جواب تو یہ ہے پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس دینے کو کے پی کے کی بہترین مثال نہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت کے پاس آٹا، چینی اور ادویات کے مافیاز کو کنٹرول کرنے کی کوئی پالیسی ہی نہیں۔صرف اپوزیشن کو خراب کرنا تبدیلی سرکار کی منشا ہے۔ عام آدمی کے سلگتے مسائل کا حل حکومت کی ترجیح ہی نہیں۔
جی بی کے الیکشن میں اگر پی ٹی آئی الزامات کی سیاست کے ذریعے کامیابی حاصل کر بھی لیتی ہے تو 800دن میں جو بہتری پاکستان میں آئی بالکل ویسی ہی تاریخ وہاں دہرائی جائے گی۔

راقم الحروف کسی خوش فہمی کا شکار نہیں۔بہتری کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت بات کرنے کو بھی تیار ہی نہیں۔ ماضی کے الزامات اور چور ڈاکو کی گردان بس یہی سیاست ہے تبدیلی سرکار کی۔ صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی باتیں صرف سیاسی وعدہ ہی ثابت ہوئیں۔ احتساب میں بھی انتقام کا تاثر نمایاں ہے۔
جی بی میں تیر چلے گا، شیر دھاڑے گا یا بلا کامیاب ہوتا ہے یہ فیصلہ تو ہوجائے گا۔

لیکن جی بی میں یہ عام ووٹر تو یہ شکوہ بھی کرتا ہے کہ سب جھوٹ بولتے ہیں اپنا الو سیدھا کرتے ہیں منتخب ہونے کے بعد کوئی کام نہیں کرتا۔ بہتر تو یہ ہے کہ اس سوچ کو ہی بدلا جائے۔ اب کوئی بھی برسر اقتدار آئے عوامی مسائل ضرور حل ہونے چائیں۔ سیاستدانوں کی کریڈیبیلٹی بہتر ہو سکے۔ہم اجتماعی سوچ اپنانی چائیے۔ سب سے پہلے پاکستان پھر جمہوریت اسکے بعد سیاسی نظریہ اس پر سب جماعتیں عمل کریں توکوئی وجہ نہیں کہ حالات نہ بدل سکیں۔

پی ٹی آئی کے بتانے سے سندھ برباد نہیں ہوگا آباد ہی رہے گا۔
باتوں سے جی بی صوبہ نہیں بن سکتا نہ وہاں کے حالات بدلیں گے۔ سب سے پہلے اپنی سوچ بدلیں، پھر رویے اور اسکے بعد جی بی تو کیا پورے پاکستان میں تبدیلی آسکتی ہے۔ محض تبدیلی کے نعرے سے زیادہ عرصہ کام نہیں چلے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے جی بی میں سب سے موثر اور بھرپور انتخابی مہم چلائی۔

یہاں ایک کریڈیٹ ضرور پی پی پی کو جاتا ہے۔ضلع تانگیر جہاں لڑکیوں کے سکول جلادئیے جاتے ہیں۔ عورت کو ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔2015ء میں یہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے مقامی جرگہ کا فیصلہ سامنے آیا پی پی پی اور خواتین رہنماوں نے اس فیصلہ کی مذمت کی لیکن جرگہ کے فیصلہ پر عمل ہوا۔ اس دفعہ پی پی پی نے ایک خاتون سعدیہ دانش کو ٹکٹ دیا ہے۔

وہ اس حلقہ سے پہلی خاتون امیدوار ہیں۔سعدیہ دانش کے پاس جی بی میں وزارت اطلاعات کا قلم دان بھی رہا۔ انکے نزدیک الیکشن میں کامیابی یا ناکامی اتنی اہم نہیں جتنا خواتین کے متعلق حقوق کی آگاہی ہے۔ تبدیلی اسی سوچ کا نام ہے کہ سیاسی مفاد پر اجتماعی مفاد کو فوقیت دی جائے۔ پی پی پی نے اس مقصد کے لیے پہلی اینٹ لگادی۔ اب سب سیاسی جماعتیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :