''میدان سیاست میں برسرپیکار قیادت''

جمعہ 4 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

پاکستان کثیر سیاسی جماعتیں رکھنے والا ملک ہے۔یہاں دو جماعتی نظام سیاست رائج نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی نسبت شخصیات زیادہ اہم ہیں۔اکثر سیاسی جماعتیں اپنے لیڈر کے ہی گرد گھومتی ہیں۔منشور اور نظریات کی بجائے نعرے زیادہ اہم تصور کیے جاتے ہیں۔لسانیت، مذہب اور فرقہ کی نسبت سے بھی سیاست مقبول ہے۔ مذہبی، علاقائی، لبرل اور قومی سوچ کی حامل جماعتیں سب اپنا اپنااثر رکھتی ہیں۔

طلبہ یونین پر پابندی اور بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی کے نتیجہ میں نچلی سطح سے سیاسی قیادت کا سامنے آنا قطعی آسان نہیں۔ کیونکہ یہ ادارے ہی سیاست کی نرسری ہوتے ہیں جہاں سے قیادت پروان چڑھتی ہے۔ اس لیے علاقہ میں اثرورسوخ اور دھن دولت کے ذریعے غیر سیاسی شخصیات بھی سیاسی میدان میں اہم پوزیشن حاصل کر لیتی ہیں۔

(جاری ہے)

مزید براں کہ حالات کے ساتھ بدلتے نظریات کی حامل شخصیات بھی ہر حکومت میں شراکت دار ہوتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں میں تنظیمی ڈھانچہ بھی رسمی کاروائی کے نتیجہ میں تشکیل پاتا ہے۔
قارئین کرام! میدان سیاست کے ان حقائق کو مدنظر رکھیں تو موروثیت اور موروثی سیاست پر تنقید بے معنی لگتی ہے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پہلے اور واحد سیاست دان تھے جو اپنے منشور کے ساتھ جمہوری سیاست میں آگے بڑھے۔ سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا سیاسی سفر سکندر مرزا کے دور اقتدار میں شروع کیا جبکہ ان کے ناقدین انہیں ایوب خان کے ساتھ نتھی کرتے ہیں۔

پڑھا لکھا طبقہ بھی اس حقیقت کو نظر انداز کردیتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے سے ہی حکومت کا حصہ تھے اور ایوب خان تو بعد میں برسراقتدار آئے۔ بھٹو کو سیاست کرنا تھی لہذا باامر مجبوری ایک ڈکٹیڑر کے ساتھ کام کیا اور اس دور میں پاکستان کے لیے کلیدی کردار کے ساتھ قابل فخر خدمات انجام دیں۔ دوسری طرف اگر نواز شریف کی سیاست کا بنظر عمیق مطالعہ کریں تو غیر معروف نوازشریف کی سیاست اور تربیت جو کلی طور پرجنرل ضیاء الحق کی چھتری تلے ہوئی۔

نواز شریف پر اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے بھٹو کے ایوب خان کے ساتھ کام کرنے کو مثال بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ دونوں کی سیاسی اننگز میں واضح فرق ہے ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی اختلاف پر ایوب خان کی حکومت چھوڑ دی اور اسکے خلاف تحریک چلائی۔ اپنی پارٹی بنائی اور عوام کو اس میں شامل کیا۔ نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی زندگی تو کیا انکے بعد بھی انکے مشن کو پورا کرنے کا اعلان کیا۔

پرویز مشرف کے آنے تک وہ مزاحمتی سیاست کی طرف نہ آئے۔ پنجاب میں بااثر سیاسی شخصیات کی شمولیت سے پارٹی کا ووٹ بنک ضرور مضبوط کرلیا۔ موٹر ویز اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات سے شہری علاقوں میں مقبولیت بھی حاصل کی۔ 2002ء کے الیکشن میں انکی پارٹی سے طاقتور شخصیات نے جب مسلم لیگ (ق) کا رخ کیا تو قومی اسمبلی میں نواز شریف کی مقبول جماعت صرف 19نشتوں تک محدود ہوگئی۔

جبکہ مسلم لیگ(ق) نے 126نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
چونکہ مسلم لیگ (ق) کے پاس نظریاتی ووٹ نہیں تھا اس لیے 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ(ق)نے صرف 33اور ن لیگ نے 69سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے 2002میں81اور 2008میں 91نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔
موجودہ برسر اقتدار پارٹی پی ٹی آئی 2002 میں صرف ایک نشت جیت سکی اور عمران خان کی پارٹی کو کل 242472ووٹ پڑے۔

مسلم لیگ (ق) کو 7500797 ووٹ پڑے۔ پی پی پی نے 7616033ووٹ لیے۔مسلم لیگ(ن) نے 3409805ووٹ حاصل کیے۔2013میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے 166نشستیں اور 14874104ووٹ، پی پی پی نے 42نشستیں اور 6911218ووٹ جبکہ پی ٹی آئی نے 35نشستیں اور 7679954ووٹ حاصل کیے۔25اپریل 1996کو قائم ہونے والی عمران خان کی پارٹی نے2018کے الیکشن میں اکثریت حاصل کی۔149نشتوں کے ساتھ حاصل کردہ ووٹ 16903702 رہے۔

مسلم لیگ (ن) نے 82نشتیں اور 12934588ووٹ حاصل کیے۔ پی پی پی نے 54نشتیں اور 6924356ووٹ حاصل کرسکی۔ان انتخابی نتائج سے اسمبلی میں پارٹی پوزیشن بدل گئی۔ عمران خان اس کامیابی کو 22سالہ جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے عمران خان کی کامیابی مسلم لیگ (ق) اور پی پی پی کے مقامی طاقتور شخصیات کی سیاسی ہجرت کی مرہون منت ہے۔جو ہوا کا رخ دیکھ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔

کپتان نے تو محنت 1996سے شروع کی۔ سوال یہ ہے کہ کیاعام آدمی کو اپنا ہم خیال بنانے میں کپتان کو اتنا وقت لگا تو اس کا جواب ہے کہ عمران خان کی کامیابی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں یہ تو صرف وقتی بندوبست ہے۔اس کامیابی میں پارٹی پروگرام اور کپتان کی شخصیت کی حثیت ثانوی ہے۔پی ٹی آئی کی چھتری سے یہ پنچھی آج اڑ جائیں تو پی ٹی آئی مسلم لیگ(ق) جیسی پارٹی بن جائے گی۔


پاکستان کی سیاست میں یہ کامیابی اور مقبولیت کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی شطرنج پر یہ کھیل ایسے ہی جاری ہے۔ لیڈر اور پارٹیاں ایسے ہی بنتی اور کمزور ہوتی آرہی ہیں۔ملک میں موروثی سیاست کے حوالہ سے اعتراض پر کسی تعصب سے بالا تر ہوکر غور کریں تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اکثرسیاسی رہنماوں کو سیاست وراثت میں ملتی ہے لیکن کامیابی مکمل طور پر اپنی ہی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔

کچھ شخصیات سیاست کو اپنی مرضی سے نہیں چنتیں بلکہ سیاست خود انکا انتخاب کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اگر پھانسی دے کر منظر سے نہ ہٹایا جاتا تو بیگم نصرت بھٹو اورمحترمہ بینظیر سیاسی میدان میں متحرک نہ ہوتیں۔ یہ سیاسی وراثت کی منتقلی نہیں سیاست کا فیصلہ تھا۔ اسطرح محترمہ بے نظیر کی شہادت کے نتیجہ میں بلاول بھٹو زرداری کو کم عمری میں سیاست میں عملی طور پر شریک ہونا پڑا۔

اب یہاں یہ اعتراض کیسا معنی خیز ہے کہ ایک طرف بلاول کو پرچی چیرمین کا طعنہ دیا جاتا ہے الگے لمحہ ہی یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ بلاول بھٹو نہیں اور بھٹو کے اصل وارث مرتضی بھٹو کا خاندان ہے۔ کیسا مضحکہ خیز اعتراض ہے۔ پہلے سیاسی وراثت پر اعتراض پھر خود ہی سیاسی وارث ڈوھونڈ نکالتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں جب اہم شخصیات ہیں تو پھر سیاسی وراثت پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔

حقائق کو جان کر اگر مصلحت کی عینک اتار کر دیکھیں تو پارٹی لیڈر شپ تو مل سکتی ہے مگر اسکے لیے خود کو اہل ثابت کرنا پڑتاہے۔ بھٹو کے بعد بینظیر اور مرتضی بھٹو کی مثال سامنے ہے۔ مرتضی بھٹو کی سیاست کو پی پی پی کے کارکنان نے شرف قبولیت نہیں بخشا۔ اسی طرح بلاول بھٹو نے خود سیاست کا انتخاب نہیں کیا بی بی کے قاتلوں نے اسکو میدان سیاست میں کم عمری میں قدم رکھنے پر مجبور کیا۔

پرچی نہیں بھٹو کے نظریاتی ووٹروں نے بلاول کو پی پی پی کا چیرمین بنایا۔ اپنی اہلیت خود بلاول نے ثابت کی۔ دوسری مثال جے یو پی کی ہے۔ اس کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی جو بڑا مذہبی ووٹ بنک رکھتے تھے انکے انتقال کے بعد انکے صاحبزادے مولانا انس نورانی اس ووٹ بنک کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ اس مذہبی طبقہ کا ووٹ علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی جماعت کو منتقل ہوگیا۔

اب انکے انتقال کے بعد انکے صاحبزادے کو قیادت سونپی گئی۔ اب یہ سعد رضوی کا امتحان ہے کہ وہ اس ووٹ بنک کو محفوظ رکھ پائیں گے یا نہیں۔ سیاست میں صرف وراثت ہی نہیں چلتی اہلیت کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز کو بھی خود اپنے آپ کو منوانا ہے۔والد سے تعلق تو شناخت ہے امتحان تو عملی سیاست میں ہوگا۔ ایاین پی، قومی وطن پارٹی، جے یو آئی (ف)، بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں سب میں لیڈر شپ نسل در نسل منتقل ہوتی آرہی ہے۔

بھارت، بنگلہ دیش،سری لنکا، انڈونیشیا سمیت بہت سے ممالک میں باپ کے بعد دوسری اور تیسری نسل براقتدار آتی رہی۔ سیاست دان کی اگلی نسل کے لیے میدان سیاست کوئی شجر ممنوعہ نہیں۔ اس لیے جمہوریت میں سیاسی کامیابی کو صرف وراثت سے منسوب کرنا مناسب نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :