''قلم آپکا ہے ضرور لکھیں''

جمعہ 5 فروری 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

صوبائی وزیر سید صمصام بخاری دھیمے اور شیریں لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ مخاطب کو عزت دے کر جواب دیتے ہیں۔ تحمل مزاجی انکی شخصیت کا خاصہ ہے۔انکے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر طرز تکلم کی تعریف نہ کرنا غیر مناسب ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت میں وزارت اطلاعات ونشریات کے وزیر مملکت رہے۔ موجودہ صوبائی حکومت میں بھی اطلاعات ونشریات کا قلمدان انکے پاس رہا۔

پنجاب کابینہ میں انکی وزارت کئی بار تبدیل ہوئی۔آپ میڈیا سے بہتر تعلقات رکھتے ہیں۔ شنید ہے آئندہ الیکشن میں اوکاڑہ شہر سے بطور امیدوار شریک ہونگے۔ 2018ء کے الیکشن میں اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر ناکام رہے اور ضلع ساہیوال سے ضمنی انتخاب میں ایم پی اے بنے۔انکا آبائی علاقہ اوکاڑہ شہر کے حلقہ میں شمار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

آپ اوکاڑہ کے صحافیوں سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں۔

اب میڈیا کے دوست بھی تعلقات تو استوار کرلیتے ہیں لیکن اپنی صحافتی ذمہ داری سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اس سے قبل ایک نجی چینل کے رپورٹر کے ساتھ خبر بریک کرنے پر معاملہ خراب ہوا۔ کورونا وباء کے دوران ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی آڈیو کا منظرعام پر آنے جیسے واقعات رونما ہوئے جو خوشگوار تاثر نہیں چھوڑتے۔
گزشتہ روز اوکاڑہ میں تقریب تقسیم جہیز فنڈ کے دوران ایک صحافی نے اوکاڑہ میں نکاسی آب کی ابتر صورتحال پر تلخ سوال کیا۔

جس کے جواب میں صوبائی وزیر سید صمصام بخاری نے جواب دیا'' قلم آپکا ہے، آپکی مرضی ہے اچھا لکھیں یا برا یہ آپکا حق ہے- خلاف ضرور لکھیں''- اس دوران سوال کرنے پر All Ok,کی گردان کرنے والوں کی آوازیں بھی بلند ہوئیں۔ستائش پر مبنی گفتگو کرنے والے میڈیا کے دوستوں نے بھی ناخوشگواری کا اظہار کیا۔ وزیر موصوف نے سوال کا جواب تو صرف یہ دیا کہ ضرور لکھیں مگر عوامی مسائل کو سننے کے بعد انکے حل کے لیے کوئی ٹھوس پلان میڈیا کے سامنے نہیں رکھا۔

مسائل کو سابقہ حکومت پر ڈالنے اور میڈیاپرسن کی جرات اظہار پر ردعمل ہر گز سیاسی طرز عمل نہیں۔ پی ٹی آئی کو برسراقتدار لانے میں عوامی حمایت اور خفیہ طاقت کے ساتھ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ میڈیا نے عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا۔ سابقہ حکومتوں سے اگر عام آدمی مطمئن ہوتا تو تبدیلی سرکار کیسے برسراقتدار آتی؟
اقتدار تو مل گیا مگر اسکے بعد عمران خان کی پالیسی بھی بدل گئی۔

سابقہ روایات کے مطابق حکومت کو میڈیا سے گلہ ہے اور عام آدمی حکومت سے شکوے شکایات رکھتا ہے۔ اوکاڑہ شہر کی بڑی آبادی ایک عرصہ سے نکاسی آب کے مسائل سے دوچار ہے۔ سڑکوں کی صورت حال ابتر ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری مسائل ہی مسائل ہیں۔بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حلقہ کی سیاست کرنے والے پی ٹی آئی کے نمائندے خود مشکل میں ہیں۔ضلع اوکاڑہ سے پی ٹی آئی کی نمائندگی صفر ہے۔

مقامی رہنما اور ٹکٹ ہولڈرز اپنی بساط کے مطابق سیاسی عمل کا حصہ ضرور ہیں، لیکن کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔صوبائی وزیر سید صمصام بخاری نے ضلعی انتظامیہ سے میٹنگ کا کہہ کر بات ہی ختم
 کردی۔ تمام تر ذمہ داری مقامی انتظامیہ پرڈال دی۔ انتظامیہ فنڈز کی عدم دستیابی کا مژدہ سناتی ہے۔ فنڈز ہونگے تو مسائل حل ہونگے۔ سرکاری بابو آج یہاں ہیں کل کسی اور جگہ ہونگے۔

اب جواب دے تو سیاسی قیادت ہی دے۔ عوامی مسائل اور تلخ سوالات کی بازگشت تو آئندہ الیکشن تک سنائی دے گی۔ اوکاڑہ کی عوام تو سید صمصام بخاری سے ہی سوال کریگی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں صوبائی ٹکٹ ہولڈر سیلم صادق ہمہ وقت عوامی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ انکے کردار اور خدمت پر سوال نہیں۔معاملہ تو یہ ہے جب صوبائی اور وفاقی حکومت فنڈز جاری نہیں کرتی تو مسائل کیسے حل ہونگے۔

اوکاڑہ کی عوام کی آواز تو پہلے ہی موثر انداز سے ایوان اقتدار تک نہیں پہنچتی۔ قومی میڈیا اور سیاستدان کراچی اور بڑے شہروں کے مسائل پر ہی بات کرتے ہیں۔حالات کسی بھی جگہ بہتر نہیں۔جسم اور روح کارشتہ برقرار رکھنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سے حالات سنگین ہیں۔نکاسی آب کے مسئلہ پر اضلاع کی اخباروں کے صفحہ پر خبریں مسلسل شائع ہوتی ہیں مگر کوئی سننے والا ہی نہیں۔

کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔ صوبائی وزیر اگر خواہش رکھیں کہ سب میڈیا پرسن ستائشی کلمات کہیں تو ایسا ممکن نہیں۔میڈیا کی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ صحافی کا قلم اور کیمرہ توحقائق سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ ہاں کچھ میڈیا پرسن رواداری کا مظاہرہ کریں یا مصلحت کا شکار رہیں وہ الگ بات ہے۔
سوال تو اٹھے گا۔ صحافی کا قلم حقائق بھی لکھے گا۔

صحافی اپنے فرائض اور حقوق سے آگاہ ہیں معاملہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت بھی تو بیان بازی سے آگے بڑھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اتنا کہنے سے کہ گھبرانا نہیں، مشکلات حل نہیں ہو سکتیں۔سینیٹ الیکشن سے قبل اراکین اسمبلی سے ملاقات اور ان کو ہی فنڈز کی فراہمی یہ سب پرانے پاکستان کا طرز سیاست ہے۔ تبدیلی کے دعوے تب ہی سچ ہوسکتے ہیں جب پرفارمنس پر بات کی جائے۔

مسائل کی وجہ ن لیگ کا اقتدار تھا تو انکے حل کی ذمہ داری صرف اور صرف موجودہ حکمرانوں کی ہے۔ سوالات کا جواب عمل سے ہی ممکن ہے۔ لفاظی اور ناگواری وقتی کیفیت ہے۔ حقیقت کا سامنا کرکے ہی عوام کے سامنے خود کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
صحافی کو قلم اور لکھنے کے حق کا ادراک ہے۔ سیاسی قیادت بھی نمائشی اور ستائشی تقریبات سے آگے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے۔

ایک سال سے اوکاڑہ شہر کے نصف حصہ کی گلیاں اور سڑکیں گندے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔یہ تو مقامی ٹکٹ ہولڈرز کا حوصلہ ہے کہ وہ ان حالات میں بھی عوام کا سامنا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے خوب خواب بیچے مگراب تعبیر کا وقت ہے۔ صرف اوکاڑہ کی بات کروں تو گزشتہ اڑھائی سال سے کوئی ایک منصوبہ بھی نہیں جو شروع ہوا ہو۔ الزامات، وعدے،بیانات بس یہی سیاست جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :