اہل وطن پر گزرا ایک اور سانحہ

منگل 26 مئی 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں جمعہ الوداع کی نمازوں کا اہتمام کیا جارہا تھا کہ خبر آتی ہے کہ لاہور سے کراچی آنے والی قومی ائیر لائنز کی پرواز نمبر پی کے 8303 حادثے کا شکا ر ہوگئی ہے۔طیارہ جب لینڈنگ کیلئے ائیر پورٹ کے قریب پہنچا تو اس کے وہیل نہیں کھل سکے‘جس کی وجہ سے طیارے کا کپتان جہاز کو دوبارہ بلندی پر لے گیا اور دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی‘تاہم وہ ناکام رہا اور جہازجناح گارڈن نامی ہاوسنگ اسکیم پر گر گیا۔

طیارے کے پائلٹ کی کنٹرول ٹاور سے آخری گفتگو میں ا س نے طیارے کا ایک انجن فیل ہونے کی اطلاع دی۔چشم دید گواہوں کے مطابق طیارہ پہلے ایک موبائل ٹاور سے ٹکرایا‘ اس کے بعد گھروں کے اوپر گر گیا۔ اس علاقہ کی دوری ائیر پورٹ سے کچھ ہی کلومیٹر ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق طیارے کے انجن میںآ گ لگی ہوئی تھی اور یہ زور دار دھماکے کے بعد مکانات پر جا گرا۔

(جاری ہے)

اس جہاز میں کپتان سجاد گل اور دیگر عملے سمیت 99افراد سوار تھے۔طیارہ آبادی پر گرا‘جس کی وجہ سے پندرہ سے بیس گھر بہت زیادہ متاثر ہوئے پر خوش قسمتی سے اُن گھروں میں بسنے والے لوگ محفوظ رہے۔
حادثے کے حوالے سے پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ یہ جہاز 8 سے 10 سال پرانا تھا‘جہاز گرنے کی وجوہات لینڈنگ گئیر میں خرابی بتائی جاتی ہے‘ جس وقت طیارہ پرواز کیلئے تیار ہوا اس وقت اس میں کسی بھی قسم کی کوئی خرابی نوٹ نہیں کی گئی۔

طیارہ ٹیک آف کرنے سے پہلے انجینئر سے کلیئر کرایا جاتا ہے‘جہاز تکنیکی طور پر پوری طرح محفوظ تھا‘جہاز کو لینڈنگ کی اجازت دے دی گئی تھی جس کے بعد پائلٹ گراؤنڈ کرتا ہے جس سے متعلق کوئی شکوک و شبہات نہ رکھے‘ہمارے پاس فرلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور بلاک باکس ہوتا ہے جس میں ہر چیز سامنے آجاتی ہے۔ 
حادثہ جتنا افسوسناک ہے اتنا ہی قابل مذمت لوگوں کا رویہ بھی ہے۔

حادثے کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے اور ہر حادثے کے بعد یہی کہا جاتا ہے جبکہ پرواز سے قبل طیارے کی مکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور ٹیکنیکل کلیئرنس تک جہاز پرواز نہیں کرسکتا‘اکثر اوقات اس وجہ سے پروازوں میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے‘ پروازوں میں تاخیر یا منسوخی تو ہوجاتی ہے لیکن کلیئرنس کے بغیر جہاز ٹیک آف نہیں کرتا۔کسی نے یہ بھی کہا کہ حادثہ پائلٹ کی ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ہوا جو یقینا ایک مضحکہ خیز بات ہے اور یہ بھی کہ طیارے میں ٹیکنیکل خرابی کے باوجود پائلٹ نے ضد کرکے پرواز لی۔

یہ طیارہ بھی سیکیورٹی سے کلیئر ہوا اور ایک روز قبل بھی اس نے لاہور سے کراچی پرواز کی جو اطمینان بخش تھی۔ہوسکتا ہے کہ کوئی حادثہ کسی کوئی غفلت کے سبب پیش آیا ہو لیکن حادثہ بہرکیف حادثہ ہی ہے۔ 
ملکی تاریخ میں اب تک کئی فضائی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور ان میں درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ان میں کچھ ایسے حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجودبھلایا نہ جاسکا۔

پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 کو پیش آیا‘ اس حادثے کا شکار ہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی۔ یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہوگیا تھا‘ اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے۔
دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 کو 30مسافروں کو لے کر جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا‘ طوفان میں گھرگیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور راو ت کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا‘ اس حادثے میں تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔

آٹھ دسمبر 1972 کو فوکر طیارہ F27 (فلائٹ نمبر 631) اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ یہ حادثہ 26 مسافر جان لے گیا۔
کوئی نہیں بھول سکتا 26نومبر1979کا وہ دن جب پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر 740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آرہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔

23 اکتوبر 1986 کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہوا‘جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے تھے۔
پاکستان کی تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا جب 17 اگست 1988 کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ اس وقت کے فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیائالحق‘30فوجیوں اور امریکی سفیر کو لے کر اُڑا اور بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا‘ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بھی نہ مل سکیں۔

25 اگست 1989 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ 404 PKگلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہوگیا۔ آج تک اس جہاز کا ملبہ ملا اور نہ ہی لاشیں مل سکیں۔ جہاز کی تلاش میں بھیجے گئے 73 امدادی مشن بھی ناکام رہے۔ طیاروں کے ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس اور دیگر اداروں نے لاشیں اور جہاز کا ملبہ نہ ملنے کے باعث اسے ابھی تک حادثہ تسلیم نہیں کیا۔
 پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ پیش آیا 28 ستمبر 1992 کو جب پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی‘ جس کے نتیجے میں عملے کے 12 افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو ئے۔

اس حادثے کی وجہ جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پروازکو قرار دیا گیا۔
20فروری2003ئکو پاک فضائیہ کا فوکر طیارہ F27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر ا جس کے باعث پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر‘ ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
24 فروری 2003 کو افغانستان کے وفاقی وزیر کو چار دیگر افغان حکام کے ہمراہ چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

دس جولائی 2006 کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 پرواز کے دس منٹ بعدہی ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے‘حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی۔
28 جولائی 2010 کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو ا۔

کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے۔
20 اپریل 2012 کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا تھا‘اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
 اکتوبر2016ئمیں جے ایف 17 تھنڈر طیارہ 27 ستمبر کو بحیرہ عرب میں گر گیااس طیارے نے پی اے ایف بیس مسرور سے پرواز کی تھی۔

پائلٹ نے طیارے سے چھلانگ لگا دی اور محفوظ رہا۔ 
7 دسمبر 2016کو پی آئی اے کا چترال سے اسلام آبادآنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے جس میں معروف نعت خواں جنید جمشید بھی شامل تھے۔
گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔

صرف پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں جس کی عمومی وجہ تکنیکی یا پھر موسم کی خرابی ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی کو الزام دینا اور پائلٹ یا محکمے کی غفلت کہہ دینا صحیح عمل نہیں۔ جانی اور مالی نقصان ادارے کا ہوتا ہے‘ اسے طرح طرح کے رویوں اور سوالوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امید غالب ہے کہ ہر حادثے کے بعد انتظامیہ نہ صرف اس کے اسباب تلاشتی ہوگی بلکہ مستقبل کی پیش بندی بھی کی جاتی ہوگی بس میری سمجھ میں لوگوں کی صرف ایک بات آتی ہے کہ ہمارے طیارے پرانے ہیں ان کی مستقل بنیادوں پر اوورہالنگ کی جانی چاہئے۔

حادثے میں بچ جانے والے خوش نصیبوں کو زندگی کی مبارکباد اور اس حادثے نے جن کے پیارے ان سے جدا کردیئے ان سے تہہ دل کے ساتھ تعزیت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :