کراچی کی تباہی اور مگر مچھ کے آنسو

بدھ 26 اگست 2020

Shazia Anwar

شازیہ انوار

ہم میں سے بہت سے لوگوں نے یہ محاورہ سنا ہوگا ‘ میں بھی بچپن سے ہی اس محاورے کو سنتی چلی آئی ہوں ”مگر مچھ کے آنسو“ لیکن دیکھے کبھی نہ تھے‘ قسمت کہ کل وہ بھی دیکھ لئے ”وسیم اختر “ کی آنکھوں میں ۔یہ بات بعید از عقل ہے کہ وسیم اختر گزشتہ چار سال سے جن مسائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھے اس کا اظہار الوداعی پریس کانفرنس میں ہی کیوں کیا؟ اُن کے پاس اس شہر کا بڑا مینڈیٹ ہے جیسا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں دعوی کیا تو پھر لوگوں کو خطوط لکھ کر ”امداد“مانگنے کے بجائے کوئی عملی کام کیوں نہیں کیا گیا ۔

ندی نالوں اور شہر کی صفائی شہری حکومت کی ذمہ داری ہے جو اسے ہی ادا کرنی تھی لیکن جیسا کہ وہ خوود فرماتے ہیں کہ ہر جگہ رشوت ہے تو جناب ان کا اپنا محکمہ بھی بغیر رشوت لئے کسی بھی قسم کے کام کرنے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتا ۔

(جاری ہے)

گزشتہ 35سال سے پیپلز پارٹی صوبائی حکومت اور ایم کیو ایم سوائے نعمت اللہ خان مرحوم کے چار سالہ دور نظامت میئر شپ سنبھالے ہوئے ہیں اور یہ دونوں سیاسی جماعتیں ہی خود کو شہر کا وارث سمجھتی ہیں لیکن درحقیقت ان دونوں پارٹیوں نے ہی کراچی کو تباہ حال کیاہے ‘لوٹ مار کا تاریخ ساز بازار گرم ہے اور اس بہتی گنگا میں نئے اور پرانے سب ہی ہاتھ دھو رہے ہیں۔

آج جو میڈیا کے آگے آنسو بہارہے ہیں کوئی ان کا گریبان تو پکڑے کہ اپنے دور میں آپ نے کیا کیا؟جناب عالی‘ شہر کی تزئین و آرائش اتنی ضروری نہیں تھی جتنی کہ اس کے بنیادی مسائل حل کرنا ضروری تھے۔تن ڈھانکیں گے تو آرائش کریں گے ‘ برہنہ جسم پر آرائش کیسی؟
پورا شہر تالاب بنا ہوا ہے‘ آج کی بار ش میں بھی 4بچوں کے جان سے جانے کی اطلاع ہے۔شہر کی گلی محلوں میں ہر طرف پانی نظر آرہا تھا لیکن وزیر اعلیٰ سندھ ‘ وزیر بلدیات اور ناظم شہر کہیں نظر نہ آئے ۔

بارش تھمنے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گھر سے نکلے اور آرٹس کونسل تک کا ایک چکر لگاکر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوگئے اورپھرآخر کار سندھ کے انتہائی زیرک وزیر اعلیٰ سندھ نے بارشوں کے پانچویں اسپیل کی تباہ کاریوں کے بعدچھٹ ”رین ایمرجنسی “ کے نفاذ کا اعلان کردیا۔
شہر قائد میں گزشتہ دو روز سے بارش کا سلسلہ جاری ہے جس نے شہر کا حلیہ تبدیل کردیا ہے۔

کورنگی‘ لانڈھی‘ ڈیفنس‘منظور کالونی‘ ملیر‘شاہ فیصل کالونی‘اورنگی ٹاوَن‘ آئی آئی چندریگر روڈ‘صدر‘کھارادر‘نارتھ کراچی‘ ناگن چورنگی‘ گلبرگ‘بفرزون ‘عزیزآباد ‘ لیاقت آباد‘ تیسر ٹاوٴن‘ لیاری ایکسپریس وے ریسیٹلمنٹ سوسائٹی،‘ روزی گوٹھ‘ خدا کی بستی‘عرض محمد گوٹھ اور ان علاقوں سے ملحق کئی علاقے سب سے متاثرہ علاقے بتائے جا رہے ہیں‘ ان علاقوں میں چھ ‘ چھ فٹ پانی کھڑا ہونے کی اطلاع ہے۔

افسوسناک امر ہے کہ دو دن گزرنے کے باوجود کئی علاقوں سے نہ صرف تاحال بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہو سکی ہے بلکہ کچھ جگہوں پر اس میں سیوریج کا پانی بھی مل گیا ہے جس کی وجہ سے متعدی امراض پھیلنے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔بدھ کے روز علی الصبح شروع ہونی والی بارش کبھی ہلکی تو کبھی تیز پانچ بجے شام کے بعد بھی جاری رہی اور کراچی کے شہری سڑکوں پر گاڑیاں تیرانے کی مشق کرتے نظر آئے کیوں کہ پورے شہر میں بارش اور سیوریج کا پانی ”یکجان“ ہوچکا ہے لہٰذا کراچی کی عوام مختلف وبائی امراض سے نمٹنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔

مجھے کسی نے آغا خان اسپتال کراچی میں پانی جمع ہونے کا ایک وڈیو کلپ بھیجا جسے دیکھ کرسوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔
اب تو اس تلخ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہی ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم کاروباری و تجارتی شہر کراچی ایک ایسا شہر ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑھتا چلا گیا۔قیام پاکستان سے پہلے کراچی کی آبادی تقریباً 13 لاکھ تھی تاہم برصغیر تقسیم ہوا تویک دم ہی اس شہر میں تقریبا مزید 30 لاکھ لو گ آبسے۔

1971 میں بنگلہ دیش قائم ہوا تو ایک بار پھر بڑی تعداد میں لوگوں نے اسی شہر کا رُخ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ کراچی پہنچ گئے‘ جبکہ اس کے ساتھ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کیلئے تقریباً روزانہ ہی کراچی منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ صرف چند سال کے دوران اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی منتقلی کے بعدآبادی میں اضافہ ناگزیر تھا اور اس اضافے کے بعد یہ شہر کنکریٹ کا جنگل بنتا چلا گیا ‘ شہر کے وہ علاقے جنہیں ہم غیر آباد قرار دیا کرتے تھے آج گنجان آباد ہیں۔

کراچی میں 500 سے زائد برساتی نالے ہیں جو بحیرہ عرب میں جا گرتے ہیں‘بڑھتی ہوئی آبادی نے انہیں بھی نہ چھوڑا اور رفتہ رفتہ ان پر آبادیاں قائم ہوگئیں۔ اب کیسے قائم ہوئیں ‘ کس نے بیچا ‘ کس نے خریدا یہ ایک علیحدہ بحث ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ المیہ ہے ہوا کہ متعلقہ ذمہ دار اداروں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔ آج اس بین الاقوامی شہرت کے مالک شہر میں نہ تو کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا موٴثر انتظام ہے اور نہ ہی نکاسی آب کی کا کوئی انتظام ہے جس وجہ سے اب اگر کراچی میں معمول کی بارشیں بھی ہوں گی تو صورتحال نارمل نہیں رہے گی جبکہ اس وقت تو معمول سے زائد بارشیں ہو رہی ہیں۔

اس صورتحال کے باعث کراچی میں شہری سیلاب کاخدشہ پہلے ظاہر کیا جاچکا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے‘ زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اور شہر کا بیڑہ غرق کردیتا ہے ایسے میں کراچی کی عوام کرے تو کیا کرے ۔ اتنی بارشوں ‘ سڑکوں کی خراب صورتحال کے باوجود ہم لوگوں کو بلاضرورت موسم کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے دیکھ رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے پارکوں اور ساحل سمندر تک پہنچ ہی رہے ہیں جب کہ اس وقت شہریوں کو احتیاط کرتے ہوئے گھروں تک محدود ہونے کی ضرورت ہے۔

بارش میں بجلی کا کرنٹ لگنے سے کئی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں اس لئے شہریوں کو بجلی کی تاروں اور کھمبوں سے بچنا چاہیے۔گھروں میں بجلی کی ناقص وائرنگ بھی حادثات کا سبب بن سکتی ہے۔ شہری سیلاب کے خطرے کے پیش نظر شہریوں کو چاہیے کہ وہ گھروں پر مناسب مقدار میں کھانے پینے کا سامان محفوظ مقام پر رکھیں۔گلی محلوں میں بارش کا پانی اکھٹا ہوتا ہے تو اس وقت لوگ چلتے ہوئے‘ گاڑی یا موٹر سائیکل پر سواری کرتے ہوئے زیادہ ترکسی گڑھے میں گر کر حادثات کے شکار ہوتے ہیں‘ اس لئے بلاضرورت باہر نہ نکلیں۔

تیز بہتے ہوئے پانی میں کچرا اور ملبہ بھی بہ کر آجاتا ہے جس میں ٹھوس اور تیز دھار اشیاء بھی ہو سکتی ہے‘ان سے بھی ٹکرانا انسانی زندگیکیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔بارشوں کے دوران بڑے بھی باہر نکلنے میں احتیاط کریں مگر خاص طور پر بچوں اور بزرگوں کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔اب فوری طور پر عوام احتیاط ہی کرسکتے ہیں باقی متعلقہ محکموں کی کارکردگی کا سب کے سامنے ہے ہی۔


 کچھ کونوں سے این ڈی ایم اے کی کارکردگی کے حوالے سے بھی آوازیں آرہی ہیں ۔دیکھا جارہا ہے کہ قدرتی آفات میں مدد کیلئے قائم ادارے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے زیر انتظام ایف ڈبلیو او کی ٹیمیں 3اگست سے کراچی میں نالوں کی صفائی کررہی ہیں اور ابتدائی چند دنوں میں 10 ہزار ٹن سے زائد کچرا نالوں سے نکالاگیا ۔ این ڈی ایم اے کے پاس کام کرنے کیلئے بہت کم وقت ہے‘ بارش کا ایک کے بعد ایک اسپیل آرہا ہے ایسے میں این ڈی ایم اے سے زیادہ کام کی امید رکھنا عبث ہے تاہم توقع کی جاسکتی ہے کہ انہیں جو ذمہ داری دی گئی ہے وہ اسے پورا کرتے ہوئے آنے والے وقتوں میں شہریوں کیلئے سہولیات کی فراہمی میں کامیاب ہوجائے ۔


اس مون سون کے دوران تو کچھ بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی لیکن آنے والے وقتوں میں ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے سب سے اہم اور ترجیحی بنیادوں پر جو کام کیا جانا چاہئے وہ کراچی کے ماسٹر پلان کو شہر کی ضروریات کے مطابق بنانا ہے اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر تمام ندی نالوں پر سے تجاوزات ختم کی جائیں ‘ندی نالوں کی صفائی کا موثر اور یقینی انتظام کیا جائے اور ان سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے ایک دیانت دار ‘ کراچی سے محبت رکھنے والے اور اس کا درد محسوس کرنے والے ‘ نڈر ناظم شہر کا انتخاب کیا جانا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :