
مروہ زیادتی کیس ‘ ایک اور پھول کچلا گیا
منگل 8 ستمبر 2020

شازیہ انوار
(جاری ہے)
اس کی پانچ سالہ معصوم مروہ جمعہ 4 ستمبر کو صبح سات بجے قریبی دکان سے بسکٹ لینے کیلئے گھر سے نکلی اور پھر لاپتہ ہوگئی‘ جس کے 48 گھنٹے بعد بچی کی سوختہ لاش کچرہ کنڈی سے برآمد ہوئی۔بچی کے والد عمر صادق نے بچی کی گمشدگی کا مقدمہ پی آئی بی کالونی تھانے میں درج کرایا لیکن حسب روایت پولیس ایک غریب رکشہ ڈرائیور کی پریشانی کو خاطر میں نہ لائی یہاں تک کہ انہیں زندہ کے بجائے مروہ بچی مل گئی ۔ پولیس نے سخت عوامی ردعمل کے بعد ایک شخص اور اس کے بیٹے کو حراست میں لے کر اُن کا ڈی این اے سیمپل ٹیسٹ کےلیے بھیج دیا ہے‘ ڈی این اے کی رپورٹ آنے میں ایک ہفتے سے زائد کا وقت لگ سکتا ہے۔ پی آئی بی کالونی کے ایس ایچ او شاکر حسین کے مطابق پولیس علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کر رہی ہے تاکہ حقیقی مجرم کا پتا لگایا جاسکے ۔جناح اسپتال کی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ نے مروہ کےساتھ زیادتی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بچی کو زیادتی کے بعد سر پر پتھرمار کر قتل کیاگیا‘تاہم بچی کے جسم پرجھلسنے کے کوئی نشان موجود نہیں۔
کیونکہ ”جسٹس فار مروہ “ٹوئٹر میں ٹاپ ٹرینڈ پر ہے اسلئے اس واقعے کا فوری نوٹس لیا گیا‘ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 5سالہ بچی سے زیادتی اور قتل کوانسانیت سوز واقعہ قرار دیتے ہوئے سندھ پولیس کو مجرم تک پہنچنے اور اسے کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت کی ہے‘ تاہم اب ہوگا کچھ یوں کہ چند دن کی سرگرمیوں کے بعد یہ معاملہ بھی ٹھنڈا پڑجائے گا اور پھر کسی اور حادثے کی صورت میں ہم ایک بار پھر ”جسٹس فار“کا ہیش ٹیگ استعمال کررہے ہوں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں کم عمر بچوں اوربچیوں کےساتھ زیادتی کے تقریباً چار ہزار واقعات رپورٹ ہوچکے ہیںجبکہ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کے واقعات کو عدالتوں تک لے جانے کے بجائے گھر میں خاموش ہوکر بیٹھ جانے کو ترجیح دی جاتی ہے اسی لئے اندازاہے کہ رپورٹ کئے جانے واقعات پچاس فیصد بھی نہیں ہوں گے۔بچوں کےساتھ زیادتی ایک ایسا المیہ ہے جس کے سدباب کیلئے عملی کوششیں کرنے کے بجائے ایسے واقعات کا انتظار کیا جاتا ہے اور جب کوئی پھول کچلا جاتا ہے تو لوگ حرکت میں آتے ہیں جو جانے والوں کو واپس نہیں لاسکتے۔
ایک سال قبل معصوم زینب نے اپنی جان دے کر اپنے جیسے تمام بچوں کیلئے انصاف کی راہ ہموار کی تھی ۔رواں سال مارچ میں پاکستان کے سینیٹ نے قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی زینب سے منسوب اور بچوں کے تحفظ سے متعلق ”زینب الرٹ بل 2020ء“ کثرت رائے سے منظور کرلیا تھا۔زینب الرٹ بل 2020ءکے تحت بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے والوں کو سزائے موت سے لے کر عمر قید یا پھر زیادہ سے زیادہ 14 سال اور کم سے کم سات سال قید کی سزا ہوگی۔زینب الرٹ بل 2020 ءکے تحت بچوں کو اغوا اور ان کےساتھ زیادتی کرنے والوں کو عمر قید کی سزا ہو گی‘مقدمہ درج نہ کرنے والے پولیس اہلکار بھی جیل جائیں گے لیکن تاحال اس بل کے تحت کسی کو سزا پاتے کم از کم میں نے تو نہیں سنا ہے۔
ہر بچے کا بنیادی حق ہے کہ وہ ہر قسم کے ذہنی‘ جسمانی اور جنسی استحصال کے بغیر پرورش پائے۔ بنیادی طور پر بچے کی حفاظت اور اس میں اچھے اور برے کا شعور بیدار کرنے کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے لیکن والدین کی اکثریت ان ضروری عوامل سے خود ہی لاعلم ہیں یا مناسب آگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے بچوں کو ضروری باتوں سے آگاہ کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے بچوں کی اس ضمن میں تربیت کریں تو بچوں کی بڑی تعداد زیادتی کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ پاکستان میں پے در پے رونما ہونے والے واقعات معاشرے میں بے چینی پیدا کررہے ہیں‘ بچے خونی رشتے داروں کےساتھ بھی محفوظ نہیں ہیں‘ جنسی زیادتی کے واقعات نے معاشرے میں ایک گھٹن پیداکردی ہے ‘ لوگ اب اپنے بچوں کے مستقبل سے خوفزدہ نظر آرہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر اُن کے مستقبل سے خوفزدہ ہوکر انہیںزندہ دفن کردیا کرتے تھے لیکن موجودہ معاشرے میں جنسی درندوںکی دہشت نے بیٹی اور بیٹے کی تفریق مٹا دی ہے۔
زینب سے زیادتی ‘اس کے قتل کے بعد ملک گیر تحریک اور اس کے نتیجے میں بنائے گئے قانون کے بعد اُمید ہوچلی تھی کہ پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں شاید کمی آجائے گی ‘تاہم ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کا سلسلہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا‘ ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق آج بھی پاکستان میں ہر روز 12بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور دیہی علاقوں میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
پاکستان میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا مسئلہ غور طلب ہی نہیں بلکہ حل طلب بھی ہے‘ جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے‘ اکثر کیسوں میں ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھاکر گرفت سے نکل جاتے ہیں اور مزید بچوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد تومنظور ہوچکی ہے لیکن تاحال اس پر عملدراآمد نہیں ہوسکا۔ صورتحال ہر گزرتے ہوئے دن کیساتھ بگڑتی جارہی ہے لیکن قانونی کمزوری کے سبب اس مسئلے کا حل دکھائی نہیں دیتا۔جنسی جرائم کے خاتمے کیلئے سزاﺅں پر عملدرآمد بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیں گی تب معاشرے ایسے ناسوروں سے پاک نہیں ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر زینب الرٹ بل کے تحت بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرمان کو سرعام سزائیں دینا شروع کی جائیں تاکہ ہمارے اور آپ کے بچے کسی شقی القلب جنسی درندے کی زد میں نہ آسکیں ۔اللہ سب کے بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شازیہ انوار کے کالمز
-
کرونا وائرس کا نیا حملہ ‘بوسٹر لگوائیں‘ احتیاط کریں
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
بریسٹ کینسر کی الارمنگ صورتحال
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
مہنگائی اور ہم
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
عمر شریف کو فوری طور پر بیرونی ملک بھیجا جائے
منگل 14 ستمبر 2021
-
واقعہ کربلا ‘خواتین کی عزم و حوصلے کی لازوال داستان
بدھ 18 اگست 2021
-
ملالہ فیشن میگزین کے سرورق اور عوام کی زبان پر
جمعہ 4 جون 2021
-
کورونا وائرس ‘ مئی کا مہینہ جنوبی ایشیاء کیلئے خطرناک قرار
جمعرات 6 مئی 2021
-
کورونا آگاہی مہم ،آکسیجن ،ویکسین اور فوری طبی انتظامات
ہفتہ 1 مئی 2021
شازیہ انوار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.