خراج تیرے لہو کا بھی رنگ لائے گا

اتوار 2 فروری 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

کئی ماہ بیت چکے ہیں ہندوستان نے کشمیر سے نہ تو کرفیو ختم کیا اور نہ ہی ان کو عالمی سطح پر کسی قسم کی مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کا کردار بھی صرف مذ متی قرار دادوں اور پا نچ فروری کو ملک گیر احتجاج سے بڑھ کر اور کچھ نہیں پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان قراردادوں اور احتجاجوں کا کوئی اثر کیوں نہیں ہوتا۔

اقوام عالم کی طرف سے اس قدر بے حسی کہ خدا کی پناہ، اپنی کیفیت بیان کروں تو در حقیقت جب بھی خیال آتا ہے تو رات بھر کانٹوں کے بستر پر گزرتی ہے اُس شب تو مختلف حیلے بہانوں سے ذہن کو آسودہ کرنے کے لاکھ جتن کے بعد بھی نیند ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی‘ اور پھر ساری رات فکر اور اضطراب میں گزر جاتی ہے کہ کاش کسی بھی قیمت پر کہیں سے کشمیریوں کے لیے آزادی اور سکون خریدا جاسکتا تو میں خرید لیتا‘ مگر ا فسوس کہ ایسا ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

 آزادی تو جانیں قربان کیے بغیر اور لہو کا نذرانہ دئیے بغیر نہ تو ملتی ہے اور نہ ہی خر یدی جا سکتی ہے کہ جو پاکیزہ لہو کا خراج کشمیری دے رہے ہیں وہ یقینناً رنگ لائے گا۔ اس دل کے اضطراب اور بے قراری کا کیا کروں کہ یہ ابھی تک زندہ ہے‘ اس دلُِ بے قرار میں ابھی بھی دھڑکنیں موجود ہیں‘ اس جسم میں ابھی بھی سانس باقی ہے‘ اور نبض بھی چل رہی ہے‘ مگر آنکھیں یو ں محسوس ہوتا ہے کہ پتھر کی ہو چکی ہیں اس قدر انتظار کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا‘ ساری ساری رات ان آہوں اور سسکیوں کی آوازیں میرا پیچھا کرتی ہے‘ مجھے ان روتی ہوئی ماؤں کی صدائیں سونے نہیں دیتی کہ جن کے جگر گوشوں کو آزادی کی معصوم خواہش نے من و مٹی تلے سلا دیا کہ جن کے سہاگ لٹ گئے‘ جن کی زندگیوں میں امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی‘ جن کے جواں سال بیٹے حضرت علی اکبر کی طرح دین حق پر قربان ہوگئے جنہوں نے حضرت امام حسین کے نقش قدم پر چلنے کی اپنے جواں سال بیٹوں سے قسم لی ہے‘ مجھے ان بہنوں کی ردائیں سونے نہیں دیتی کہ جنہوں نے اپنی عزت و آبرو‘ عفت و عصمت کو دین حق پر قربان کردیا‘ مجھے ان بچوں کی چیخیں سونے نہیں دیتی کہ جو اپنی ماں کے پلو سے لپٹ کر دودھ کی ایک بوند کی بھیک مانگ رہے ہیں‘ جو بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر اپنی جان دے رہے ہیں‘ جو کسی محمد بن قاسم کے منتظر ہیں‘ جو کسی صلاح الدین ایوبی کا راستہ دیکھ رہے ہیں کہ جو ان ظالم اور درندہ صفت بھارتی دہشتگرد فوج سے ان کی جان چھڑائیں‘ اس بوڑھے باپ کے آنسو مجھے جگائے ہوئے رہتے ہیں کہ جو اپنے بڑھاپے کا سہارا اپنے بوڑھے ہاتھوں سے زمین کے سپرد کرکے آیا ہے‘ جس کی آنکھیں بھی آزادی کی سنہری صبح کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی ہیں‘ ان بیٹیوں کی آہ و پکار مجھے چین نہیں لینے دیتی کہ جو اپنے بابا کے انتظار میں گھلی جارہی ہیں۔

آخر کب ان مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق ملے گا‘ آخر کب ان کی صدا بھی اقوام عالم کے مردہ ضمیروں کو جگائے گی‘ آخر کب یہ نام نہاد مسلمان حکمران کشمیریوں کا عملی طور پر ساتھ دینگے‘ آخر کب تک ان کے مقدر میں یہ ظلم و جبر کی تاریک راتیں رہیں گی‘ آخر کب ترکی کی طرح پاکستان بھی حوصلہ کرے گا اور اپنی فوج کو ان مظلوموں کی مدد کیلئے بھیجے۔

کیا ان کشمیریوں نے اس وقت کیلئے ہمارا ساتھ دیا تھا کہ ان مظلوم کشمیریوں کا خون بہے‘ اور ان کی بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہوتی رہیں‘ اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں۔ اس زندگی سے تو موت لاکھ درجے بہتر ہے کہ جو اپنا حق اس غاصب اور مکار دشمن سے نہ لے سکے کہ جس کے ظلم و بربریت کا شکار لاکھوں کشمیری مسلمان گاجر مولی کی طرح شہید کئے جارہے ہیں۔

 
جس دن سے کرفیو لگا ہے اس دن سے ایک رات بھی حرام ہے کہ جو کشمیریوں کو سکون کی نیند آئی ہو‘ نجانے یہ حکمران کیسے آرام کی نیند سو جاتے ہیں‘ کیسے ان کو ان مظلوموں کی چیخیں سنائی نہیں دیتی کہ جو پاکستان سے صرف چند قدموں کے فاصلے پر ہیں اور نوحہ کناں ہیں۔ حکمران تو ایک طرف کچھ سیاسی حلقوں کی حرکات و سکنات پر نظر دوڑائیے تو لگتا ہے کہ ان جیسے ننگے‘ بے غیرت‘ بے آبرو اور بے ضمیر لوگ تو شاید دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوئے‘ ان ضمیر فروشوں نے اصل میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کو اس قدر اہم موڑ پر دفن کیا ہے کہ جب حکمران کسی حد تک عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوگئے تھے ان کا آزادی مارچ اُس وقت آڑے آ گیا اور جب چند ماہ قبل انہوں نے تحریک کشمیر کی کمر میں خنجر گھمپا تھا۔

جو بے وقت کی اذان سے بڑھ کر کچھ نہیں‘ تھا ان سے کہیں بہتر تو جماعت اسلامی ہے کہ جو ابھی تک کئی جلسے‘ جلوس‘ عوامی ریلیاں اور نہ جانے کیا کیا کام کر چکی ہے تاکہ کشمیریوں کی آواز دب نہ جائے اور یہ نئی پارٹی مولانا مسلم پیپلز پارٹی جو اچکزئی اور ولی خان کے گٹھ جوڑ سے معرض وجود میں آئی ہے‘ مکمل طور پر گونگے اور بہرے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

ان کا آزادی مارچ کہ جو در حقیقت نواز شریف کو باہر بھجوانے اور زور داری کو جیل سے رہائی دلوانے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں تھا۔
 حرام ہے کہ اس مارچ کے بعد سے کشمیر کا نام بھی ان کی زبان پر کبھی آیا ہو‘ ان کو تو بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بننا تھا سو بن گئے‘ بھارت اور بیرونی طاقتیں اپنا مقصد بڑی آسانی سے مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ کسی طرح کشمیر کا مسئلہ دب جائے سو دب گیا اور کیا کہوں لگتا تو یونہی ہے کہ مولانا صاحب کا نہ تو دس سال کشمیر کمیٹی کی صدارت کے دوران کشمیریوں سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اب ان کے کان ان مظلوم کشمیریوں کی آواز سن سکتے ہیں ان کو تو حلوہ چاہیے اور پھر ان کا جلوہ دیکھئے‘ دراصل ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری جماعتیں مل کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے اور کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد میں حصہ لیتے مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

ان ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں‘ بچوں اور بزرگوں کی آہیں اور سسکیاں ان کا پیچھا قبر کی دیواروں تک کریں گی کہ جنہوں نے اس تحریک آزادی کشمیر کو اس وقت نقصان پہنچایا کہ جب وہ کامیابی کے دہانے پر تھی پورے میڈیا کا رخ اُسوقت آزادی مارچ کی طرف موڑ دیا بالکل اسی طرح کہ جیسے خالصتان کی تحریک انڈیا کو پاش پاش کرنے چلی تھی‘ اور سکھوں کی فہرستیں انڈیا کے حوالے کرکے اس تحریک کو ہمیشہ کیلئے دفنا دیا گیا اور اب یہ کلنک کا ٹیکہ بھی انہی کے ماتھے کا جھومر بنا ہے کہ جو سیاہ کرتوت انہوں نے اب کشمیر کے ساتھ کی ہے۔

 
وہ نا قابل معافی ہے اور اب تو حکومت کو بھی موقعہ مل گیا ہے کہ اپنے گلے کی ہڈی کو نکال پھینکیں سو انہوں نے نکال پھینکی۔ نہ کوئی پوچھے اور نہ کو ئی جانے۔ مگر ان سب کو جواب تو دینا ہو گا ایک دن۔ میں نے تو اپنے قلم کی جنبش سے اپنا حق ادا کر دیاکہ اب آپ جانیں اوریہ حکمران۔ کہ مجھے ہے حکم اذان
لاالہ الا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :