محکمہ پولیس ……محدود وسائل اور کارکردگی‎

منگل 11 اگست 2020

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

ویسے تو پاکستان کا تقریباً ہر شعبہ ہی خراب کارکردگی اور بدعنوانی کی طویل داستانیں رقم کر رہا ہے، لیکن اگر دوسری جانب دیکھا جائے توپاکستانی عوام کے معیار پر اْترنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے میرا ماننا ہے کہ لاحاصل گفتگو اور بے جا تنقید سے بہتر صرف خاموشی ہے، جو عین عبادت ہے، مگر اگر اسی تنقید کو اصلاح کا پیراہن دے دیا جائے تو اس کی اہمیت اور قدر میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔


حقائق پر نظر ڈالی جائے تو ملک بھر میں سب سے زیادہ جس محکمہ پر تنقید ہوتی ہے وہ محکمہ پولیس ہے۔ جب جب جس کا من چاہتا ہے اْٹھ کر پولیس پر تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیتا ہے، ویسے بھی تنقیدآسان مگر اصلاح بہت مشکل ہے۔بہر کیف اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں اختیارات ہوں وہاں کڑا احتساب بھی ضروری ہے، مگر احتساب اور تنقید کا بھی معاشرے میں کوئی معیار یا ضا بطہ کار وضع ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

میری نظر میں پولیس کا شعبہ پاکستان میں اس تناظر میں انتہائی مظلوم ہے، کیونکہ بعض اوقات ان کو ہر طرف سے ہی ہرزاسرائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی، کام کی زیادتی اور افسر شاہی کا دباؤ۔ آج تک شاید ہی کسی نے سوچا ہوکہ پولیس کی ان تھک محنت اور ان کا ایثار اور قربانیاں بھی تو اس وطن عزیز کے ما تھے کا جھومر ہیں، جس کی حالیہ مثال چند روز قبل کراچی سٹاک ایکسچینج میں شہید ہونے والے انسپکٹر شاہد اور سٹاک ایکسچینج کے تین سکیورٹی گارڈز محمد افتخار، خدا یار اور حسن علی کی ہے،جو حقیقی معنوں میں ہمارے ہیروز ہیں۔


حکومت کو خصوصی طور پر ان کے لواحقین کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ جس ہمت، جرأت اور بہادری سے ان قوم کے سپوتوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا وہ یقینا قابل ستائش ہے۔یہ تو ایک مثال ہے ایسی کئی لازوال قربانیوں سے پاکستان پولیس کا دامن بھرا ہوا ہے۔ سٹریٹ کرائم ہوں یا دہشت گردی کا مسئلہ یہ پولیس کے جوان ہی ہیں جو اپنی جانوں کو ہتھیلی پر لئے انتہائی محدود وسائل کے ساتھ قوم کی خدمت کے لئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری کورونا وائرس کے مسائل سے لڑتے اور ملکی فرائض انجام دیتے ہوئے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی قربانیوں کا ذکر نہ کرنا بھی بددیانتی ہوگی جو اْسی طرح قابل ِ تعریف ہیں جس طرح کوئی اور شعبہ کے شہدا۔حکومت کو ان حالات میں پولیس کو حفاظتی لباس دینے کے علاوہ ورچوئل پولیس سٹیشنز کے قیام پر توجہ دینی چاہئے تاکہ پولیس کے جوان کورونا وائرس سے محفوظ رہ سکیں اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔


میں سلام پیش کرتاہوں اُن اللہ کے شیروں اور فرزندانِ وطن کو جو اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے اور اُن ماؤں کے جگر گوشوں کو بھی جو اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر جذبہ ئ حب الوطنی سے سرشار قوم کی خدمت کے لئے سینہ سَپر رہتے ہیں۔ یہاں میں اس بات سے قطعی انکار نہیں کر تا کہ محکمہ پولیس میں بھی دیگر اداروں کی طرح خامیاں موجود ہیں۔اس محکمہ میں بھی چند کالی بھیڑیں ہیں جو محکمے کے لئے کبھی کبھی شرمندگی کا باعث بنتی ہیں اس لئے پولیس میں احتساب کے نظام کو مزید بہتر ہونا چاہئے، مگر اعلیٰ کردار اور انسان دوست لوگ بھی اسی محکمے کا حصہ ہیں،جو محکمہ پولیس کے لئے باعث فخر ہیں۔

جہاں ہمیں محکمے میں موجود بد کردار لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہئے وہاں پر ہمیں بہترین کردار، محنتی اور ایماندار پولیس آفیسرز کو خراج ِتحسین پیش کر کے اْن کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے۔ درحقیقت اب ہمیں اپنے پندار سے باہر نکل کر سوچنے اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں آج اس بات کا تہیہ کرنا ہو گا کہ معاملات کا تنقیدی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اداروں کی خصوصیات پر بھی مد نظر رکھنا ہو گااور دونوں اطراف کے حقائق کوعوام اور حکومت کے سامنے اُجاگر کرنا ہو گا۔


اشفاق احمد صاحب کی وہ بات بہت یاد آتی ہے فرما کرتے تھے کہ ہمیں کبھی کبھی اپنی انا اور روایتی رویوں سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی سوچ کے پیش ِ نظر وہ عید کے دن اپنے قریبی تھانے جا پہنچے اور وہاں جا کر انہوں نے پولیس اہلکاروں سے عید ملی اور ان کو تحائف پیش کئے۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ اس قدر حسن وسلوک اور محبت سے پیش آنے پر مقامی ایس ایچ او کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے وسائل کا شکوہ کیا اور کہا کہ اُس کی پچیس سالہ سروس میں پہلی مرتبہ کو ئی پولیس سٹیشن میں پولیس سے عید ملنے آیا ہے جذبات کا آنکھوں سے بہنا ایک فطری عمل ہے، مگر شکوہ اس وقت بھی وسائل کا تھا اور آج بھی وسائل ہی فرض کی راہ میں رکاوٹ ہیں، مگر درحقیقت اشفاق صاحب کا یہ عمل واقعی مشعل راہ ہے اور ایک گہری سوچ کو تحریک دیتا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے ہر محکمے کو تنقید کے ساتھ حوصلہ اور شاباش بھی دینی چاہئے، چونکہ وہ تمام تر مشکلات اور محدود وسائل کے باوجود بے حد جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں،
جوواقعی قابل تعریف ہے کہ نہ دھوپ کا شکوہ نہ سائے کی تلاش بس ہر وقت چاک وچوبند اپنے فرائض ادا کرتے چلے جا رہے ہیں۔


میں ناصر درانی کے بعد آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس قدر محدود وسائل کے باوجود انہوں نے محکمے کی ترقی کے لئے بہت سے اہم اقدامات کیے، جن میں ٹرسٹ بلڈنگ اور سٹاف ٹریننگ جیسے کام قابل ذکر ہیں،ان اقدامات کے ذریعے پولیس کو اْسکا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں کافی مدد مل سکتی ہے، جبکہ پنجاب بھر میں پولیس کے 83 ڈی ایس پیز کے تقررو تبادلے ہونے کے بعدحالات یکسر تبدیل ہو کر بہتری کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اس کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو محکمے میں ضروری سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کا شدید فقدان ہے،جوانوں کی ڈیوٹی کاکوئی مخصوص وقت مقررنہیں اوران کو ایمرجنسی کے دوران ہر وقت آن کال رہناپڑتا ہے،حالانکہ یہ ذمہ داری کویک رسپانس فورس کے پاس ہی ہونی چاہئے، لیکن یہ سب محدود وسائل کا ہی شاخسانہ ہے۔
اس بات کا یقین کر لیجئے کہ ہر شعبہ میں اچھے بُرے انسان موجود ہوتے ہیں برے افراد اداروں کی تباہی اور بدنامی کا مؤجب بنتے ہیں جبکہ اچھے افراد محکمے کا نام روشن کر دیتے ہیں اس کی قریب ترین مثال جو میرے ذاتی مشاہدے میں آئی وہ لاہورمیں ہربنس پورہ تھانہ کی ہے جہاں روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کیا جا رہا ہے قلیل عرصے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں،تحقیق پر پتہ چلا کہ اس تبدیلی کے روح رواں تھانہ ایس ایچ او محمد ندیم ہیں، جنہوں نے روایتی طریقوں سے ہٹ کر محدود وسائل کے باوجود اس تبدیلی کے سفر میں بلا شعبہ اہم کردار ادا کیا اس تھانہ کی پولیس کی پیشہ وارانہ مہارت، عوامی رابطوں کاتسلسل، ٹرسٹ بلڈنگ، علاقہ مکینوں کے ساتھ ملاقاتیں،مشاورت اور باہمی اعتماد کی بحالی اس کا نقطہ آغاز بنا،جس سے علاقہ مکین خود بخود پولیس کے معاون اور مددگار بن گئے اور کرائم ریٹ میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔

علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
مَیں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جب معاشرے میں پولیس پر اعتماد بڑھتا ہے تو تبدیلی بھی صاف نظر آتی ہے اس عمل اور سوچ کا تسلسل محکمہ پولیس میں ایک نئی روح پھونک سکتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں گزشتہ ستر سال سے محکمہ پولیس میں عوامی رابطوں کا شدید فقدان رہا ہے، جس کی کمی اب کسی حد تک پوری ہوتی محسوس ہو رہی ہے، مگر اس پر ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب تک عوامی اعتماد مکمل طور پر بحال نہیں ہو گا تب تک معاملات کی مکمل اصلاح ممکن نہیں۔

بہرحال یہ بارش کا پہلا قطرہ ہی سہی شاید اسی طرح سے پولیس اور عوام کے درمیان خوف اور بد اعتمادی کی فضا ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔
میری دانش میں چند سال قبل اسی طرح کا طریقہ کار برطانیہ میں بھی استعمال کیا گیا،جس میں علاقہ کونسلرز، کونسل، علاقہ این جی اوز اور علاقہ مکینوں نے مل کر کرائم کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔

یقین جانیے کہ اس کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہوئے اور عوام کا اعتماد پولیس پر بہت حد تک بحال ہوا۔ بعدازاں پورے برطانیہ اور یورپ کو سیف سٹی بنانے کے لئے برطانیہ بھر میں کیمروں کا جال بچھا دیا گیا، جس سے کرائمز میں بتدریج کمی واقع ہوئی، مگر یہاں اہم بات یہ ہے کہ برطانوی پولیس کو بہتریں سہولتیں بھی میسر ہیں کوئی برطانوی پولیس کا جوان کم از کم آپ کو بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر نظر نہیں آئے گا، پنجاب حکومت نے 115ملین روپے سندھ نے 98 ملین، خیبر پختونخوا نے 44 ملین اور بلوچستان حکومت نے 28 ملین روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جوکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف دس فیصد اضافہ ہے۔

ہماری حکومتوں کو سنجیدگی سے اس پر توجہ دینی چاہئے۔
خوشی اس بات کی ہے کہ اب لاہورسمیت پنجاب کے کئی بڑے شہروں میں ”پنجاب سیف سٹی اتھارٹی“کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کی وجہ سے بھی جرائم کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے، ماڈل پولیس سٹیشنز اور سیف سٹی سسٹم کو جلد از جلد ملکی سطح پر رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ جرائم میں مزید کمی ہو سکے اور پولیس کو اس سسٹم سے مدد حاصل ہو اور بالآخر پاکستان حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :