نئی امریکی خارجہ پالیسی‎

جمعہ 12 فروری 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی میں واضح طور پر تبدیلی کا اعلان کیا ہے، جو بظاہر تو ایک مثبت تبدیلی محسوس ہو رہی ہے، مگر اس کے اثرات و اصل شکل آنے والے وقت میں واضح ہو گی۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن جو انسانی حقوق کو اپنی الیکشن مہم کے دوران کافی اہمیت دیتے رہے ہیں، انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی سترہ احکامات جاری کیے جن میں سب سے اہم حکم سات اسلامی ممالک ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن وغیرہ کے شہریوں پر  امریکہ میں عائد سفری پابندیوں کا خاتمہ تھا۔


چند روز قبل امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کرتے ہوئے مزید انکشافات کئے، جس میں روس کے اشتعال انگیز اقدامات کو مزید برداشت نہ کرنے کے ساتھ ساتھ اْس سے سفارتی طور پر بات چیت جاری رکھنے کا بھی اظہار کیا، جو گزشتہ حکومت سے بالکل مختلف فیصلہ ہے، کیونکہ ٹرمپ روس کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے تھے،مگر موجودہ امریکی حکومت کا موقف روس کے بارے میں جارحانہ محسوس ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

یہی نہیں امریکہ نے چین کو مل کرکام کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ حسب ِ روایت چین کی معاشی ترقی کو معاشی بدسلوکی سے عبارت کیا جو ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں سے مماثلت رکھتی ہے، اس پر چین نے پہلے ہی اپنا موقف واضح کر دیا تھا کہ وہ دنیا میں طاقت کا توازن چاہتا ہے۔یہ دراصل امریکہ کی معاشی جنگ میں شکست کا رد عمل ہے جو چین کو ہر دور میں آڑے ہاتھوں لینے پر اُکساتا رہتا ہے۔

اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جدید ہتھیاروں کی فروخت سے انکار و یمن جنگ میں سعودی عرب کا دفاع اور یمن کی حمایت کا اعلان بھی امریکہ کی نئی خارجہ کاپالیسی کا حصہ ہے، جس میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے، جس کے بعد سعودی عرب اور باقی عرب ممالک کو پاکستان کی اہمیت اور ضرورت کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ اگر اس کو یوں لکھا جائے کہ امریکہ کی عربوں سے متعلق نئی خارجہ پالیسی نے ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو غلط نہ ہو گا۔


امریکہ مسئلہ کشمیر و افغانستان پر پاکستان کی اہمیت کو پہلے ہی تسلیم کر چکا ہے اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور جوبائیڈن نے مسئلہ کشمیر حل کروانے کی اہمیت پر زور دیا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان کو آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ایران کے حوالے سے ٹرمپ کے غیر منصفانہ اور افسوسناک رویئے کے برعکس نئی حکومت کی خارجہ پالیسی میں مکمل یو ٹرن ہے امریکی حکومت نے ایران کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اْس پر 2015ء کے معاہدوں کی پاسداری کرنے پر زور دیتے ہوئے تمام پابندیاں ختم کر دینے کا وعدہ کیا ہے، جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خا منہ ای نے امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ جب تک امریکہ ایران پر پابندیاں ختم نہیں کرے گا تب تک کسی بھی معاہدے کی پاسداری کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

دیکھا جائے تو یہ وجہ حقیقت پر مبنی ہے، کیونکہ صدر باراک اوبامہ نے جو معاہدے ایران کے ساتھ کئے ٹرمپ انتظامیہ نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا جو کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اب جوبائیڈن انہی معاہدوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں، جن میں یورنیم کی فرسودگی کو محدود کرنے پر بات ہوئی تھی، جسے U235 معاہدہ بھی کہا جاتا ہے بہرحال ایران نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے تاکہ امریکہ کی سوچ و منصوبہ بندی کھل کر سامنے آسکے۔


امریکی حکومت نے سابق صدر ٹرمپ کے بہت سے احکامات کو مفاد عامہ کے لئے ختم کرکے اس کی جگہ نئے احکامات جاری کئے ہیں، جن میں سے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جوبائیڈن کی طرف سے امریکہ میں پناہ گزینوں کی تعدادکو 15 ہزارسے بڑھا کر ایک لاکھ 25 ہزار تک کر دیا ہے، جو ایک انتہائی مثبت پیش رفت ہے۔
امریکہ اپنے خارجہ معاملات میں ہمیشہ ہی تنقید کا شکار رہا ہے، کیونکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون لاگو کرنے میں امریکہ انتہائی بدنام ہے، جس کی وجہ سے عالم اسلام میں امریکہ نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

صدر جوبائیڈن کے انسان دوست اقدامات کو کئی دہائیوں کے بعد قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، مگر امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی کو چین و روس میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر جو بائیڈن اپنے اقدامات و احکامات پر آخری وقت تک کار بند رہیں گے یا وقت و حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں تبدیل کرتے رہیں گے، کیونکہ جس امریکہ کی دنیا میں عزت و تکریم کی بحالی کی بات جوبائیڈن کر رہے ہیں وہ ایک کٹھن مرحلہ ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر، افغانستان، فلسطین، شام اور عراق کو حل کرانے کی طرف عملی قدم ہی جوبائیڈن حکومت کی انسان دوستی کو ثابت کر سکتے ہیں۔


جس طرح جوبائیڈن نے میانمار میں جمہوریت کی بحالی پر زور دیا ہے اسی طرح افغانستان کی حکومت طالبان اور مصر کی حکومت اخوان المسلمین کے حوالے کرنے کی طرف عدل و انصاف سے زور دینے اور مصری فوج کو غیر جمہوری اقدامات سے روکنے کی اشد ضرورت ہے انصاف اور انسانی حقوق کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جہاں دل چاہا انصاف پر زور دیا اور جہاں دِل چاہا آنکھیں بند کر لیں۔
 مجھے پوری امید ہے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے،کیونکہ چین تو میدان عمل میں پہلے ہی کود چکا ہے اب اگر امریکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بچانا چاہتا ہے تو اس کو اپنا رویہ صحیح معنوں میں تبدیل کرنا ہوگا، کیونکہ اب دھونس و دباو کی زبان سمجھنے والے لوگ دنیا سے ناپید ہو چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :