نظریہ یا نظریہ ضرورت !

پیر 13 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

نظریے کی سیاست کرنا بہت مشکل بات ہے لیکن یہ بات ناممکن نہیں کیونکہ دنیا میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ بہت سے لیڈران نے نظریے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔جس کی بدولت وہ کامیاب ٹھہرے ۔ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لیڈر نیلسن منڈیلا سے کون واقف نہیں ۔انہوں نے سیاہ فام افراد کے اصل حقوق حاصل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی۔

کئی سال انہیں جیل بھی برداشت کرنا پڑی اور بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔لیکن وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور بالآخر سیاہ فام لوگوں کو اُن کے حقوق دلوانے میں کامیاب بھی ہوئے اور 1994 سے لے کر 1999 میں جنوبی افریقہ کے سیاہ فام صدر بھی رہے۔اِن کی ساری زندگی جدوجہد کا مجموعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کو اِسی جدوجہد ہی کی بدولت کامیابی ملی۔

(جاری ہے)


ایسے کئی واقعات برصغیر میں بھی رونما ہوئے۔

یہاں کے کئی مسلم رہنماؤں نے بھی نظریے کو ہی اپنایا اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے آخری حد تک گئے اور اِس حوالے سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا۔پاکستان بننے کے پیچھے دو قومی نظریے کا پہلو واضح ہے ۔پاکستان کی بنیاد بھی دو قومی نظریے پر ہی رکھی گئی ۔جس کے مطابق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے دو الگ الگ وطن ہونگے جہاں وہ اپنے طور طریقے استعمال کر سکیں گے۔

قائدِاعظم اور دوسرے مسلم قائدین نے دو قومی نظریے کو ہی اپنا نصب العین بنایا اور آخر کار اسی نظریے ہی کی بدولت پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔اِس سفر میں مسلمانوں اور دوسرے لیڈران کو بےشمار مسائل کا بھی سامنا رہا لیکن اِس عظیم الشان عمارت کی بنیاد رکھنا بھی ضروری تھا۔جہاں مسلمان اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزار سکیں۔

پاکستان میں اور بھی کئی ایسے لیڈران گزرے یا موجود ہیں جنھوں نے نظریے کی سیاست کرنے کی کوشش ضرور کی۔لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔۔
پاکستان میں ووٹ کو عزت دو کا سب سے پہلا نعرہ محترمہ فاطمہ جناح نے لگایا۔ کیونکہ ایوب خان کی سیاست جمہوری نظام کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی۔کبھی مارشل لاء لگایا گیا تو کبھی سندھ طاس معاہدہ کر کے پاکستان کو تین دریاؤں سے محروم کر دیا گیا تو کبھی 1962 کا صدارتی آئین نافذ کر کے پاکستان میں نفرت کی بنیادیں رکھیں ۔

یہ تمام باتیں پاکستان کی سلامتی کے لئے ناگزیر تھیں ۔جب صدر ایوب خان نے ملک بھر میں الیکشن کروانے کا اعلان کیا تو فاطمہ جناح نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان میں پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے پر زور دیا اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔یہ ایک نظریہ تھا جس کو کامیاب ہونا بھی ضروری تھا لیکن بدقسمتی سے محترمہ فاطمہ جناح اپنی انتھک جدوجہد کے باوجود ایوب خان سے صدارتی الیکشن ہار گئیں۔

اِس کے بعد یہ نعرہ وہیں دب گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے عوام کے ساتھ مل کر اِس مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے جدوجہد کو برقرار رکھا لیکن محترمہ فاطمہ جناح کو جس طرح اِس الیکشن سے ہروایا گیا یہ بھی ایک سیاہ تاریخ ہے۔جس کے بعد پاکستان میں کئی سالوں تک کسی لیڈر نے اِس بات پر بولنا گوارہ تک نہ کیا اور پاکستان میں پارلیمانی نظام کے خلاف مسلسل سازشیں ہوتی رہیں ۔

پاکستان کے منتخب وزراء اعظم کبھی بھی اپنی آئینی مدت کو پورا نہ کر سکے۔۔
2017 میں جب تین بار کے منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے باہر کیا گیاتو یہ بات پھر سے اقتدار کے ایوانوں میں محسوس کی گئی کہ ووٹ کو عزت دو اور پارلیمان کو مضبوط کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔میاں نوازشریف نے ایک بار پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا اور اِس سرخ پرچم کو تھام کر سب سے آگے چلنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کے طاقتور حلقوں میں بےچینی کی لہر چل پڑی کیونکہ جس طرح یہ بات پاکستانیوں کے ذہنوں میں بیٹھی کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو ہر حال میں کامیاب ضرور بنوانا ہے۔ تو اِن کے خلاف منتظم سازش شروع کی گئی ۔یہ سب اُس وقت ہوا جب پاکستان کی عوام کی اکثریت یہ جان چکی تھی کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی اُن کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ لیکن وقت بدلا حالات بدلے، میاں نواز شریف صاحب کو جیل بھیجا گیا، کئی لیگی رہنماؤں پر مقدمات بنوائے گئے ۔

اِسی طرح ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔اِس وقت مسلم لیگ ن کی ساری قیادت کئی مہینوں سے آزاد ہے ۔شہبازشریف جیل سے باہر تھے، مر یم نوازشریف صاحبہ جیل سے باہر ہیں، میاں صاحب علاج کی غرض سے لندن میں قیام پذیر ہیں اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف صاحب کو صحت دے ۔دوسری جانب محترمہ مریم نواز صاحبہ پُر اسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

ٹی وی اور اخبارات سے زیادہ تر غائب ہی رہتی ہیں۔۔
اب یہ بات قابلِ غور ہے کہ یا تو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ مفاہمت کے سیاہ بادلوں میں چھُپ چکا ہے یا پھر یہ نعرہ نظریہ ضرورت کے تحت لگایا گیا اور اب مفادات مکمل ہونے پر لیگی قیادت اِس نعرے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔مریم نوازشریف صاحبہ نے جب بھی لب کشائی کی تو اُن کی طرف سے صرف اتنا کہا گیا کہ مسلم لیگ کا آج بھی یہی نعرہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو لیکن کیا یہ نعرہ اب صرف بیان بازی تک محدود ہو چکا ہے؟ اگر مسلم لیگ ن یہ سمجھتی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ایک نظرہہ بن چکا ہے اور اِس کی تکمیل بھی بہت ضروری ہے تو مشکلات بھی آئیں گی اور اِس کے لئے وقت بھی درکار ہے لیکن اِس سارے معاملے پر ایک لمبے عرصے تک خاموش رہنا اِس نعرے کی حقیقت کو بھی مشکوک بنا رہا ہے۔


شریف برادران میں اِس نعرے کو لے کر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ شہبازشریف صاحب اِس نعرے کی حقیقت سے ہی انکاری ہیں ۔جبکہ میاں نوازشریف صاحب کی طرف سے یہ نعرہ لگایا گیا۔ ن لیگ کا ووٹ بنک یقیناً میاں نواز شریف صاحب کا ہی ہے اور میاں نواز شریف صاحب اور اُن کی صاحبزادی اِس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔بعض حلقے تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ میاں نوازشریف صاحب یہ جان چکے ہیں کہ ہم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اِس معاملے پر پاکستان کے ادارے یک جان نہیں ہو جاتے ۔

جو ایسا ہونا بہت مشکل ہے اِس لیے ووٹ کو عزت دو کا نظریہ بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتااور فاطمہ جناح کی طرح اِس بار میاں نواز شریف بھی نعرے کو کامیاب نہیں کروا سکے اور اپنے پتے پھینک چکے ہیں ۔لیکن نظریہ کبھی مرتا نہیں ۔پاکستان کی عوام آج بھی سمجھتی ہے کہ اُن کے ووٹ کی کوئی قدر نہیں ۔اب یہ وقت ہی فیصلہ کر پائے گا کہ اِس نظریے کو کامیاب کون کرواتا ہے کیونکہ اِس نظریے کی بنیاد تو بہت پہلے پڑ چکی ہے بس اب ایک ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو نیلسن منڈیلا یا قائدِ اعظم ثابت ہو سکے تو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :