"بدلتا سیاسی موسم"

منگل 21 جولائی 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

یہ تو حقیقت ہے کہ جب بھی موسم بدلتا ہے تو اُس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں سردی ہو یا پھر گرمی کوئی بھی موسم ماحول پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔اسی طرح سیاست کا بھی موسم ہوتا ہے۔ موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ اِس کے تیور بھی بدلتے رہتے ہیں ۔سیاست میں ہر موسم اپنا الگ رنگ دکھاتا ہے ۔اگر کوئی آج بہار میں جی رہا ہے تو اُس پر بھی خزاں آئے گی۔

مطلب اگر آج اچھے دن ہیں تو برے دن بھی یقیناً آنے ہوتے ہیں ۔
ایک وقت تھا جب عمران خان صاحب پر بھی بہار کے دن تھے یہ الیکشن سے پہلے کی بات ہے جب پاکستانیوں کی امید خان صاحب ہی ہوا کرتے تھے ۔پاکستانیوں کو عمران خان صاحب سے بہت زیادہ توقعات تھیں ۔اِس لیے جیسے تیسے خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب بھی ہو گئے ۔

(جاری ہے)

دو سال گزرنے کے بعد خان صاحب پر خزاں کے دن آ چکے ہیں ۔

یہ بات ماننا پڑے گی کہ پی ٹی آئی حکومت اِس وقت شدید عوامی دباؤ میں ہے کیونکہ ہر کام عوام کی توقعات کے برعکس ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ موسمی پرندے حالات کو دیکھتے ہوئے ابھی سے اُڑان بھرنے کے لئے بھی تیار بیٹھے ہیں. پاکستان کی سیاست میں  اِن موسمی پرندوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ یہ حکومتیں بنانے اور گرانے میں اہم کردار بھی نبھاتے ہیں ۔

الیکشن کے دنوں میں جب پاکستان مسلم لیگ ن پر خزاں کا موسم تھا تو یہ پرندے بہار کی تلاش میں اُڑتے ہوئے پی ٹی آئی کے آشیانے پر آ بیٹھے اب جب حالات بہت واضح ہو چکے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام نظر آ رہی ہے اور حکومت پر خزاں کا موسم منڈلا رہا ہے تو یہی پرندے محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں پھر رہے ہیں اور ذرائع کے مطابق بہت سے حکومتی جماعت کے رہنما مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی سے رابطوں میں ہیں یا مخالفت میں کھل کر سامنے آ چکے ہیں جس کا ذکر میں اپنے گزشتہ کالمز میں بھی کر چکا ہوں۔

یقیناً یہ حالات حکومت کے لئے پریشان کن ہیں کیونکہ ایسے حالات پہلے بہت کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے کہ کسی بھی حکومتِ کےاہم رہنما مختصر وقت میں ہی اپنی حکومت سے مایوس ہو چکے ہوں۔۔
دوسری اہم بات ہے کہ مسلم لیگ ن پر خزاں کا موسم چھٹ رہا ہے ۔اِس کی واضح مثال حالیہ عدالتی فیصلے ہیں جس میں ججز کے ریماکس اِس بات کے گواہ ہیں کہ مسلم لیگ ن آنے والے دنوں میں ایک بار پھر سے پاکستان کی سیاست میں فرنٹ لائن میں نظر آئے گی جو پچھلے کچھ سالوں سے مسلسل نیب کے مقدمات میں جکڑی ہوئی تھی ۔

بہت سے لیگی کارکنوں ہر نیب میں مقدمات چل رہے تھے جن میں سے اکثر یا تو اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں یا ضمانت پر ہیں ۔یہ بات بھی حکومت کے واحد سہارے احتساب کے عمل کے اوپر سوالیہ نشان ہے ۔سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس مقبول باقر نے خواجہ برادران کے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی کارکردگی پر ایک بار پھر سے سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے اور احتساب کے عمل میں حکومت کی دوغلی پالیسی کو بھی واضح کیا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے اپنے ایک فیصلے میں کہاکہ نیب کے امتیازی سلوک کے باعث اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔لوگوں کا اس نیب پر اعتماد مجروح ہوا ہے۔ نیب بڑے بڑے گھپلوں کے باجود کچھ سیاسی لوگوں کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں ہے جبکہ دوسری طرف یعنی اپوزیشن کے لوگوں کو مہینوں اور سالوں تک بغیر ٹھوس وجوہات گرفتار رکھا جاتا ہے۔‏نیب کے خواجہ سعد رفیق کے خلاف ریفرنس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں حبیب جالب کا شعر بھی شامل ہے۔

۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو
تم ہی کہو یہ ممکن ہے؟
اعلیٰ عدلیہ کے یہ ریماکس یقیناً بہت اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اِس کے اپوزیشن کے اِس بیانیے کو تقویت ملی ہے جس میں وہ نیب نیازی گٹھ جوڑ کے نعرے بلند کرتے تھے ۔ حکومت کے لئے یہ ساری صورتحال ایک نیا امتحان ہے کیونکہ ایک طرف کے علالتی فیصلے حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں اور دوسری طرف عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے ۔

حکومت کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم کے سات معاون خصوصی اور مشیر دہری شہریت کے حامل ہیں ۔اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جاتا ہے تو ایسا کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ حکومت کے لئے نئی مشکل کھڑی کر سکتا ہے کیونکہ ماضی میں کئی اراکین پارلیمنٹ یا سیاستدان دہری شہریت رکھنے کی وجہ سے یا تو نااہل ہوئے ہیں یا عہدوں سے فارغ کیے گئے ہیں ۔

اگر اب بھی یہ صورتحال دیکھنے کو ملی تو حکومت ایک اور سیاسی بحران کا بھی سامنا کر سکتی ہے جو پہلے بھی کئی مسائل میں پھنس چکی ہے ۔ حکومت کے اپنے وفاقی وزیر فواد چودھری صاحب اِس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے افراد پارلیمان کا کوئی بھی عہدہ نہیں رکھ سکتے تو خان صاحب یقیناً اِس ساری صورتحال سے واقف ہونگےکہ ایسا کیوں ہوا ۔

اُن لوگوں کو اہم عہدے دیے گئے جو یا تو دہری شہریت رکھتے ہیں یا پھر اِن کا شمار منتخب اراکین میں نہیں ہوتا ۔
یہ خان صاحب کے لئے فیصلہ کن گھڑی ہے کہ گاڑی کو کیسے قابو میں رکھنا ہے اور کونسا راستہ اختیار کرنا ہے کیونکہ گاڑی کے ڈرائیور اِس وقت وزیراعظم عمران صاحب ہی ہیں ۔اگر انہوں نے گاڑی کا رُکھ سہی راستے کی طرف نہ موڑا تو حالات مزید خرابی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان میں اِس وقت برسات کا موسم چل رہا ہے ہر طرف بارشیں ہو رہی ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی ماحول میں یہ بارشیں رحمت بن کر برستی ہیں یا پھر حکومت کے لئے زحمت کا باعث بنیں گی ۔اِس کا فیصلہ وقت ہی کر پائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :