"غداری کے تمغے اور تاریخی حقیقت"

بدھ 7 اکتوبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

ایک دفعہ پھر سے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کو غدار کہنے کا سلسلہ چل نکلا ہے پچھلے دنوں پنجاب کے دارلخلافہ لاہور میں بدر نامی ایک شخص نے میاں نواز شریف اُن کی پارٹی کے کارکنان سمیت آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم کے خلاف غداری کی ایف آئی آر درج کروائی ۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آخر کب تک ہم غداری یا محب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتے پھریں گے ؟ غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ قیامِ پاکستان سے پہلے انگریز حکومت میں بھی یہ روایت موجود تھی جس کو ہم نے آجتک برقرار رکھا ہوا ہے ۔

انگریز دور میں بھی جو شخص انگریز حکومت کی اطاعت سے انکاری ہوتا تو اُسے بھی غداری کا تمغہ تھما دیا جاتا کیونکہ اُس دور میں ہندوستان میں طاقت کا محور انگریز حکومت ہی تھی۔

(جاری ہے)

یہ بھی حقیقت ہے کہ غداری کا کارڈ کھیلنا بہت آسان بات ہے آپ کسی بھی وقت کسی کو غدار تصور کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

اِس کی زد میں زیادہ تر وہ لیڈران آئے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جس میں قرارداد پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اور سابق وزیراعظم حسین شہید سہر وردی شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ۔لیکن مقتدر قوتوں نے اِن پر بھی غداری کی چھاپ لگا دی ۔یہ سلسلہ یہی تھما نہیں بلکہ اِس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھا گیا ۔

ایوب خان نے بانی پاکستان قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو بھی غداری کے تمغے سے نوازا اور انہیں انڈین ایجنٹ قرار دیا اور کہا کہ فاطمہ جناح ولی خان کے ساتھ مل کر پختونستان کے لئے کام کر رہی ہے یہ بھونڈا الزام صرف سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے لگایا گیا اور محترمہ فاطمہ جناح کی حب الوطنی پر شک کیا گیا۔کبھی شیخ مجیب الرحمن کو غدار قرار دیا گیا تو کبھی ذولفقار علی بھٹو کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیا گیا تو کبھی بےنظیر بھٹو کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کیا گیا ۔

شیخ مجیب الرحمن نے ہمیشہ آئینی حدود اور مشرقی پاکستان کے حقوق کی بات کی، بجائے اُن کے مسائل حل کرنے کے اُن کو گلے لگانے کے ہم نے اُن کو غدارِ وطن ٹھہرا دیا اور پھر جو نتائج نکلے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ غداری کے سرٹیفکیٹ صرف مقتدر حلقوں کی طرف سے نہیں بانٹے گئے بلکہ سیاست دان بھی اِس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں ۔ نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف محترمہ بینظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیتے رہے اور آج وہی الزام اُن پر عمران خان صاحب اور تحریک انصاف لگا رہی ہے ۔

وقت ضرور بدلا ہے لیکن اِس حوالے سے سوچ نہیں بدلی اوراسی سوچ ہی کی بدولت آزاد کشمیر کے موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے خلاف بھی غداری کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ ایف آئی آر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے کاٹی گئی اورایف آئی آر کٹوانے والا پی ٹی آئی کا اہم کارکن بھی ہے۔اِس حوالے سے ماضی اور حال میں ایک فرق ضرور ہے کہ ماضی میں پنجاب کے لیڈرز یا اداروں کے سربراہان غداری کے تمغے چھوٹے صوبوں کے لئے بانٹتے تھے لیکن اِس بار حالات بدلے ہیں کہ پنجاب کے ہی لیڈر نے پنجاب کے دوسرے عوامی لیڈر کو غدار تصور کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔

میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں کا تعلق پنجاب سے ہے اور دونوں پاکستان کی سیاست میں سرگرم ہیں ایک موجودہ وزیراعظم ہیں تو دوسرے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں ۔موجودہ وزیراعظم کا تین دفعہ کے منتخب وزیراعظم کو یہ کہنا کہ میاں نواز شریف اِس وقت انڈیا کی زبان بول رہے ہیں اور انڈیا کو خوش کر رہے ہیں یقیناً یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ ہم نے غداری کا یہ سلسلہ مسلسل شروع کر رکھا ہے اور بات آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم تک بھی لے گئے ہیں ۔

وہ کشمیری جنھوں نے دن رات پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے جدوجہد کی۔پاکستان پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کیے آج انہی کے منتخب وزیراعظم کو ہم نے غدار قرار دینے کے لئے ایف آئی آر کٹوا دی صرف اسی لیے کہ اُن کا تعلق مخالف جماعت سے ہے۔اِس عمل سے انڈیا میں خوشیوں کے شادیانے بجائے جا رہے ہونگے کہ کشمیریوں کی قربانیوں کی بدولت پاکستان نے کشمیر کے وزیراعظم کو غداری کا تمغہ تھمایا ۔

یہ تو حقیقت ہے کہ مکافات عمل اٹل ہے ۔کل کسی کو غداری کے سرٹیفکیٹ تھمانے والوں پر آج خود غداری کے فتوے لگ رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔اگر کوئی آئین پاکستان کی بات کرتا ہے، جمہوریت کی بات کرتا ہے، اداروں کو آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی تلقین کرتا ہے تو ہم سب کو چاہیے کہ اُسے غدار یا اُس کی سیاسی مخالفت کرنے کی بجائے اُس کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ اسی میں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی بقا ہے کہ جب ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرینگے تو مسائل بتدریج کم ہونگے اور ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :