"یومِ یکجہتی کشمیر"

بدھ 3 فروری 2021

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی 05 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر مناتے ہیں، اِس دن کو منانے کا مقصد مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا ہے جو پچھلے تہتر برسوں سے بھارتی جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں، اِس دن کو منانے کا مقصدکشمیری عوام کو یہ بھی باور کروانا ہے کہ پاکستان سفارتی واخلاقی لحاظ سے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔


اِس دن کو منانے کی تجویز سب سے پہلے قاضی حسین احمد صاحب(مرحوم) نے دی اور پہلا یومِ یکجہتی کشمیر 1991 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں منایا گیا، اِس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے 5 فروری کو ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا ۔ لیکن باضابطہ طور پر ، پاکستان کی حکومت نے 2004 سے کشمیر کی مظلوم عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے، یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا ۔

(جاری ہے)

اُس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے مظفرآباد کا دورہ کیا اور 05 فروری کو آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب بھی کیا۔تب سے آجتک ہر سال یومِ یکجہتی کشمیر پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے ،سرکاری سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد صرف یہ نہیں ہوتا کہ جلسے، جلوس نکال کر اپنے فرائض کی تکمیل کر لی جائے بلکہ اِس دن کو منانے کے اصل مقاصد اور اُن پر عمل درآمد بہت ضروری ہے تاکہ ہم کشمیری عوام کو یہ بتا سکیں کہ پاکستان ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑتا رہے گا، اور اُس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کشمیر کی جنت نظیر وادیوں میں آزادی کا سورج طلوع نہ ہو جائے،
کشمیر کا مسئلہ ہے کیا اور اِس کا آغاز کہاں سے ہوا؟  یہ وہ سوال ہے جو ہم تہتر برسوں سے سنتے اور دیکھتے آئے ہیں لیکن کشمیر کا، مسئلہ حل کرنے کے لئے آجتک پیش رفت نہ ہو سکی، اقوامِ متحدہ بھی اِس معاملے میں ناکام رہی ہے اور پاکستان اور انڈیا بھی اِس مسئلے کے حل کے لئے خاطر خواہ پیش رفت نہ دکھا سکے ۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اگر تاریخ کا دھارا اُٹھا کر دیکھا جائے تو کشمیر بر صغیر کی سب سے بڑی ریاست تھی تقسمِ ہند کے وقت باقی ریاستوں کی طرح اِسے بھی یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت کسی ایک ملک میں شمولیت اختیار کر لے، کشمیر میں مسلمان اکثریت میں آباد تھے لیکن وہاں کا حکمران راجہ ہندو تھا تو اُس نے کشمیری عوام کی منشاء سے ہٹ کر بھارت کے ساتھ شمولیت کا اعلان کر دیا، عوام نے آزادی کے لئے ہتھیار اُٹھا لیے تو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے راجہ نے بھارتی فوج کو مدد کی دعوت دی ،اِس طرح بھارتی افواج نے حملہ کر کے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما لیا جو آجتک قائم ہے، پاکستان میں بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کا نام دیا جاتا ہے اور یہی کشمیر پاکستان میں آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔

پاکستان میں کئی حکمران رہے ،جنھوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے بلند وبالا دعووں کے پہاڑ کھڑے کر دیے اور انہی حکمرانوں نے کشمیر کو اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنا کر ووٹ بھی وصول کیے لیکن حصولِ اقتدار کے بعد یہ لوگ کشمیر کی آزادی میں کوئی پیش رفت نہ دکھا سکے اور مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی آج بھی ہندو جابرانہ حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں سے لہو لہان ہے۔


اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے 05 فروری کا دن منانا کشمیر کے پاکستان کے ساتھ جڑے گہرے تعلقات کی علامت ہے، چاہے یہ تعلقات مذہبی ہوں یا پھر ثقافتی، ہر لحاظ سے کشمیر پاکستان کے قریب ہے، ہر سال یہ دن منا کر دنیا کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کشمیر سے محبت اُسی طرح قائم ودائم ہے جس طرح کشمیری عوام پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں ، یومِ یکجہتی کشمیر کی اہمیت کے حوالے سے اپنی نوجوان نسل کو ضرور آگاہی دینی چاہیے کہ کس طرح کشمیری سات دہائیوں سے آزادی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں اور ظالم بھارتی افواج کے سامنے سرنڈر نہیں ہوئے ۔

مسئلہ کشمیر آج بھی حل طلب تنازعہ بنا ہوا ہے۔ اقوامِ عالم کو چاہیے کہ اِس مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں واقع دو ایٹمی قوتیں کسی بڑے سانحے سے محفوظ رہ سکیں اور اِس خطے میں امن وامان بھی برقرار رہ سکے ۔ بھارت کو یہ چاہیے کہ جلد از جلد اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے اور کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرے کیونکہ پاکستان کشمیریوں کو کبھی لاوارث نہیں چھوڑ سکتا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :