چند چھوٹی موٹی خبریں

اتوار 29 نومبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

1947 ء میں قیام پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے فرما دیا تھا کہ پاکستان اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا جب تک فلسطین میں موجود بیت المقدس کو اسرائیل کے جابرانہ تسلط سے آزادی نہیں ملتی۔اسی نظریہ کو سامنے رکھتے ہوئے آج بھی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان دنیا بھر کے فورمز اور انٹرویو ز میں اسی بات پر زور دے رہے ہیں کہ فلسطینی عوام کی رہائی سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنا میرے لئے نظریہ پاکستان سے غداری تصور کی جائیگی۔

اس بات کو عمران خان بار بار دھرا چکے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا میں گھسے اسرائیل نواز ٹی وی اینکرز اور صحافی ناجانے کیوں چند روز سے اس بات پر بحث کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ بس اب چند دنوں کی بات ہے ، اسرائیل کو پاکستان تسلیم کرنے والا ہے، اس بار بار سوا ل اور افواہ کو اٹھتے دیکھ کر پاکستانی عوام اور خود حکومت بھی پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ اسرائیل کو کئی سال پہلے یورپ اور امریکہ کا ناجائز بچہ قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی وجہ سے ابھی پچھلے دنوں پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں اس خبرکی سخت الفاظ میں تردید بھی کی۔ لیکن پاکستان ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے ایک اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی آنکھوں اور ضمیر سے ساری شرم اتارتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی تعریفوں کے وہ قلابے باندھے کہ ایک اندھے کو پتہ چل رہا تھا کہ اسے ان الفاظ کی ادائیگی کیلئے ڈھیر سارے ڈالر دیئے گئے ہیں۔

کیونکہ یہی مبشر لقمان کبھی ایک چینل کا سگا بن کر رہ ہی نہیں سکتا، جس کے باعث وہ سال میں چار بدلنے والے موسموں کی طرح سال میں چار مرتبہ ہی مختلف چینل پر اپنا ''کھرا سچ'' جھوٹے انداز میں بولتے نہیں تھکتا، اپنے ہر پروگرام میں ہر موضوع پر اپنے ہی قریبی دوستوں اور ٹی وی پر آ کر بولنے کے شوقین حضرات کو بلا کر آدھے سے زیادہ پروگرام میں خود ہی بولتا رہتا ہے، اور اگر کوئی سچ بولنے کی کوشش کرے تو '' ایک منٹ ، ایک منٹ'' کر کے چپ کرا دیتا ہے اور اگلے کو بولنے کا کوئی موقع فراہم نہیں کرتا۔

چند سال پہلے یہی مبشر لقمان اپنی ساتھی اینکر کے ساتھ ملک ریاض بحریہ ٹاؤن والے کے پے رول پر پروگرام کرتے ، اور اس کی ویڈیو یو ٹیوب پر وائرل ہوتے پوری دنیا نے دیکھا، مجھے نہیں معلوم آج کل موصوف کس چینل کے ساتھ ہے، لیکن یوٹیوب پر ہی دوسرے بہت سارے ٹی وی اینکرز کی طرح اپنا چینل بنا کر اپنی بھڑاس نکالتا دیکھا جا سکتا ہے۔حکومت ایسے خود ساختہ صحافیوں پر بھی کڑی نظر رکھے اور ان کو بھی لگام ڈال کر رکھیں جو پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔


جب سے کرونا وائرس کی دوسری لہر نے سر اٹھایا ہے ، اس دن سے حکومت کی جانب سے پورے پاکستان کی عوام کواحتیاطی تدابیر کو اپنانے کا سختی سے کہا جا رہا ہے۔ اس احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے پی ڈی ایم ) اپوزیشن ٹولے( کو بھی وارننگ جاری کی گئیں کہ اپنے جلسے جلسوں کو کرونا وباء کے اختتام کے بعد اٹھا رکھیں لیکن اس پر پوری پی ڈی ایم قیادت نے اپنے کان لپیٹ رکھے ہیں۔

ساری قیادت خود تو جلسے کے پنڈل میں سٹیج پر ماسک پہن کراور سینیٹائزیشن کے بعد بیٹھ جاتی ہے اور اپنی تقاریر ملک دشمن عناصر کوخوش کرنے میں لگی رہتی ہے لیکن بے چارے عوام جو ان جلسے جلسوں میں شرکت تو کر لیتے ہیں اور شائد پیٹ بھرنے کو بریانی کے مزے بھی اڑا لیتے ہیں لیکن جب ان جلسوں سے یہی عوام واپس اپنے گھروں کو جاتی ہے تو نا جانے کتنے کرونا وائرس اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور اپنے ہی گھر والوں، دوستوں، رشتہ داروں اور ہر اس شخص کو اس موذی مرض میں مبتلا کرتے ہیں جن کے بارے میں 2/4 روز بعد تب پتہ چلتا ہے جب علاقائی ہسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے باعث رش لگ جاتا ہے اور اس موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد کچھ تو صحت یاب ہو جاتے ہیں اور چند ناصرف موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں بلکہ موت کے منہ میں جاتے جاتے ناجانے کتنے لوگوں کو وہ موذی مرض منتقل کر چکے ہوتے ہیں۔

اسی موذی مرض میں بلور ہاؤس میں مریم نواز کو خوش آمدید کہنے والی خاتون ثمرہارون بھی کرونا کے لپیٹے میں آ چکی ہیں، اب تک اتنی حفاظتی تدابیر کے ہوتے ہوئے بلاول زرداری بھی اس مرض سے بچ نہیں سکے، اور کرونا زدہ مریضوں میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں۔ زرداری اور بلاول خاندان میں ایک لمبے عرصے کے بعد خوشی کے شادیانے بجے، اور خود بلاول زرداری اپنی ہی بہن کی منگنی جیسی اہم تقریب میں اسی وجہ سے شامل نا ہو سکے۔

یہ تقریب بھی اس بات سے بڑی اہم تھی کہ اس تقریب میں صرف فیملی کے چند افراد نے شرکت کی وہ ناصرف کرونا احتیاطی تدابیر پر عمل کریں بلکہ اس فنکشن میں شامل ہر فیملی ممبر کو کرونا فری ٹیسٹ اپنے ساتھ لانا تھا۔اور اپنی ہی سیاسی پارٹی کے جلسوں میں کسی سے کوئی پوچھ گچھ تک نہیں کی گئی کہ کون کون سا کارکن کرونا مثبت ہے اور وہ واپس جانے سے قبل کتنے ہی لوگ کو اپنا کرونا وائرس فیلو کر کے جائیگا۔

اس موقع پر ایک دو لفظی مشہور فقرہ بہت یاد آ رہا ہے کہ '' ہور چوپو''
مریض اعظم نواز شریف کی والدہ شمیم بیگم لندن میں انتقال کر گئیں، ایک مرتبہ پھرشریف فیملی کو ایک اور بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ نواز شریف نے اپنی والدہ کے تابوت کو گارگو میں بک کرایا اور پاکستان پارسل کر دیا۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کے چند کارکنوں اور دوستوں کے ہمراہ انہوں نے اپنی والدہ کی نماز جنازہ لندن کے ایک اسلامک سنٹر میں ہی ادا کی۔

ان کی میت ہفتے کی صبح لاہور پہنچے گی اور جب تک یہ سطریں آپ کی آنکھوں کے سامنے سے گزریں گی اس وقت تک ان کی تجہیز وتکفین ہو چکی ہو گی۔ دنیا بھر کے بحیثیت مسلمانوں نے اس ناگہانی وفات پر ان کے لواحقین سے اظہار افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔اس موقع پر مریض اعلٰی شہباز شریف اور ان کے سپوت حمزہ شہباز جو آج کل جیل میں ہیں ، کو پانچ روز کیلئے پیرول پر رہا کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی والدہ اور دادی کی نماز جنازہ پڑھ سکیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کے معروف قانون دان اعتزاز احسن نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس بات پر مخالفت کی کہ انہیں پانچ روز کیلئے پیرول ملا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سارے لیگی شرکاء اس بات پر بضد ہیں کہ انہیں کم از کم پندرہ روز کیلئے پیرول پر رہا کیا جائے، یہ بات بالکل غلط ہے، انہیں صرف اسی روز رہائی دی جانی چاہئے تھی جس روز جنازہ ہوتا، جیسے کلثوم نواز کی وفات پر نواز شریف کو صرف اسی وقت نماز جنازہ کے مقام پر لایا گیا اور جنازہ ادا کرکے واپس جیل بھیج دیا گیا تھا۔

انہی لوگوں نے جو سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے اظہار خیال میں نواز شریف سے سوال پوچھا ہے کہ کیسا بدقسمت خاندان ہے آپ کا کہ کلثوم نواز کی وفات پر بھی اس کی آخری رسومات میں بیٹوں نے شرکت نہیں کی اور اب خود نوازشریف بھی اپنی والدہ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں، خود تو پورے چارٹر جہاز کرا کر آتے جاتے تھے اور اپنی ہی والدہ کا جسد خاکی کارگو کرا دیا گیا۔

اس لئے توکہا جاتا ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔
پچھلے ہفتے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سیاست کی نانی مریم نواز نے ایک اور جھوٹ بول دیا، ان کا کہنا تھا کہ مجھے جیل میں چوہوں کا جھوٹا کھانا اور مدت معیاد پوری ہونے والی دوائیاں دی جاتی تھیں۔ اس کا وضاحتی جواب پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے مریم نواز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مکمل ثبوتوں کے ساتھ دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اور ان کے تمام خاندان کا کھانا ہمیشہ گھر سے بھیجا جاتا تھا، وہ تو فرانس کے پانی کی عادی ہیں وہ پاکستانی پانی پینا بھی پسند نہیں کرتی، انہوں نے ہمیشہ جیل کی روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے پاس موبائل سیٹ رکھااور اعتزاز احسن نے بھی ٹی وی ٹاک شو میں بتایا کہ جیل حکام کی اتنی جرات نہیں کہ وہ مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف کی بیٹی کو اچھا کھانا فراہم نا کرے۔

مریم نواز بھی ایک ہفتہ خالی جانے نہیں دیتیں اور کوئی نا کوئی ایسی بات کہہ جاتی ہیں جس کے باعث پورا ہفتہ سوشل میڈیا اور پاکستان کے ٹی وی اینکرز کو ایک موضوع مل جاتا ہے۔ ٹی وی اینکرز تو پھر بھی ہتھ ہولا رکھتے ہوئے اپنی تنقید کرتے ہوئے انہیں جھوٹا ثابت کرتے رہتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر تو ایسی ایسی باتیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔


پچھلے ہفتے ہی پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے یورپی یونین کے بہت اہم ملک نیدر لینڈ نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ ہالینڈ کی ایک بہت بڑی اورمعروف کمپنی AW TEC کے وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس دورے میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کی اور کراچی اور پاکستان بھر کے دوسرے بڑے شہروں میں دوسو آٹھ ارب روپیہ ) $1.3ارب ڈالر ( کی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

یہ سرمایہ کاری کوڑے سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی پاکستان میں منتقل کرنے کیلئے کرنا ہو گی۔ یہ ڈچ کمپنی ناصرف کراچی بلکہ پاکستان بھر کے بڑے بڑے شہروں میں اپنے پلانٹ لگائے گی جس سے لاتعداد بے روز گاروں کو روزگار ملے گا۔کراچی کے علاوہ ڈچ کمپنی مستقبل میں لاہور میں شروع ہونے والے راوی ریور منصوبے کے مختلف حصوں میں اپنی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہے۔

ان میں گندے پانی کو زیر استعمال بنانے والے پلانٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی شروعات ہے یورپ سمیت دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک سی بیک کے باعث پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہے ہیں، دو چائنیز کمپنیوں نے بھی پاکستان میں موبائل کے بے تحاشا استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں موبائل بنانے کا کارخانہ لگانے کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں،اس کارخانے کی بدولت پاکستان دنیا بھر میں موبائل سیٹ ایکسپورٹ بھی کر سکے گا اور اس کے بعد پاکستان کی ترقی کو کوئی نا روک سکے گا انشااللہ۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :