ملا نصیرالدین اور عدالتی جج

منگل 4 مئی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

ملاں نصیر الدین عالمی مسخرے اور نہایت شاطر، چالاک ذہن رکھنے والے شخص کے طور پر پوری دنیا میں جانے جاتے ہے۔ ملاں نصیر الدین نسلی طور پر ترک تھا اور ملاں کی بہت دلچسپ قصے کہانیاں آج بھی بہت مشہور ہیں۔ انہی قصوں میں سے ایک نہایت دلچسپ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ملاں نصیر الدین بازار میں مختلف رنگ برنگی دکانوں کی زیارت کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک نامعلوم شخص نے پیچھے سے انہیں زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔

تھپڑ کے بعد ملاں کا سر چکرا گیا، اسی بدحواسی میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی انجان شخص کھڑا مسکرا رہا تھا۔ کیونکہ ملاں نصیر الدین اس شخص کو نہیں جانتے تھے اس لئے غصہ اور حیرانگی کے ملے جلے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے اس سے پوچھا میاں کیا تکلیف ہے ، مجھے کیوں مارا؟ ملاں کے پیچھے مڑنے اور دیکھنے کے بعد اس انجان شخص کو بھی احساس ہو گیا کہ یہ میں نے غلطی کر دی، فوراً ہی بولا جناب والا میں سمجھا آپ میرے بچپن کے لنگوٹئے دوست ہیں، اس لئے غلطی سے آپ کو تھپڑ رسید کر دیا۔

(جاری ہے)

بازار میں آنے جانے والے لوگ اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تو ملاں نے اپنے حواس بحال کرنے پر اسے کہا ، غلطی تو آپ نے کر دی لیکن اسکے لئے آپ کو قاضی کی عدالت میں چلنا پڑے گا۔ چنانچہ ملاں اس انجان شخص کو لیکر قاضی کی عدالت میں چلے گئے۔ قاضی صاحب کو سارا واقعہ سنایا اور درخواست کی کہ جناب اس کا فیصلہ کر دیں۔قاضی صاحب نے سارا ماجرا سننے کے بعد اس انجان شخص سے سوال کیا کہ آپ تھپڑ کے بدلے میں تھپڑ چاہتے ہیں یا اس غلطی کا معاوضہ ادا کر یں گے؟ تو اس شخص نے کہا جناب والا بالکل ٹھیک ہے ، جیسا آپ کہیں میں اس غلطی کا معاوضہ جرمانہ کے طور پر اداکرنے کو تیار ہوں۔

لیکن اس کیلئے مجھے اپنے گھر جانا ہو گا جہاں میری بیوی کا کچھ زیور پڑا ہے ، اسے بیچ کر جو رقم مجھے ملے گی میں وہ جرمانہ کے طور پر اداکئے دیتا ہوں۔ تو وہ انجان شخص زیور لیکر بیچ کر آنے کا کہہ کر قاضی کی عدالت سے نکل گیا اور قاضی اور ملاں نصیر الدین اس کا انتظار کرنے لگے۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہونے کو آئی لیکن وہ انجان شخص ایسا غائب ہوا کہ نا اسے واپس آنا تھا اور نا آیا۔

جب انتظار کافی لمبا ہو گیا تو ملاں نصیر الدین اپنی جگہ سے اٹھے اور قاضی کے منہ پر زور دار تمانچہ رسید کر دیا،اور قاضی سے کہا اگر وہ انجان شخص اپنی بیوی کا زیور بیچ کر رقم لے آئے تو وہ رقم آپ رکھ لیجئے گا۔ہماری پاکستانی عدالتوں کے کچھ ججز کا حال بھی انہی قاضی صاحب کے جیسا ہے، جو بغیر کچھ جانے پہچانے ملک کے بااثر افراد کو صرف50 روپے کے اسٹام پیپر پر ملک سے باہر جانے کی اجازت اور حکمران جماعت سے ٹیلی فون پر کیس کے فیصلوں کے متعلق ہدایات لیتے اور پچھلے چند مہینوں سے جاری جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی طرح کے بے شمار کیسوں کا فیصلہ تو دے دیتے ہیں لیکن ملک بھر میں کسی کی مجال نہیں کہ ان فیصلوں کو کہیں چیلنج کیا جا سکے۔

اگر کیسوں اور ان پر آنے والے فیصلوں کا تعلق ہے تو وقتی طور پر ملک بھر کے تمام اخبارات کی شہ سرخیوں اور ٹی وی پروگراموں میں خوب لے دے ہوتی ہے لیکن ہر محکمہ ، ہر فرداور ہر پاکستانی توہین عدالت کے خوف میں پیچھے ہٹ جاتا ہے اور یہ فیصلہ بھی چند روز اخبارات کی شہ سرخیوں اور پھر سنگل کالمی خبروں تک محدود رہ کر ختم ہو جائیگا اور چند ماہ گزرنے کے بعد کسی کو بھی اس کیس کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہو گا۔

اس جیسے بے شمار کیس عدالتوں میں پاکستانی عدلیہ کے سسٹم کا منہ چڑا رہے ہیں۔ متعلقہ ارباب اختیار سے التماس ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں آئے روز ججز کی ایک عدالت سے دوسری عدالت ٹرانسفر ، کیسوں کی پیشیوں میں تاخیر اور اس اکھاڑ پچھاڑ کے سسٹم میں سختی کی بنیاد پراصلاحی فیصلے کرتے ہوئے تبدیلی لائی جائے ، کیونکہ ایسا نا ہو کہ پوری پاکستانی باشعور عوام ملاں نصیر الدین بن جائے۔

اسی موضوع سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑے مصنف کی کتاب کا فکر انگیزپیرا گراف ایسا ہے کہ '' طوائفوں کے کوٹھے ان منصفوں کے درباروں سے بہتر ہیں جہاں کسی کو انصاف نہ ملے، الٰہ آباد میں ایک تہذیب یافتہ طوائف نے اپنے کوٹھے کے باہر ایک تختی نصب کی جس پر اس نے لکھا '' عزت برائے فروخت'' ۔1۔آنے والے مہذب افراد اندر آنے سے پہلے اچھا غسل فرما لیں اور جیبوں میں اشرفیوں کو ڈال کر لانے کی بجائے دیدہ زیب کپڑے کی تھیلوں میں ڈال کر لایا کریں۔

2۔ اپنے لہجوں کو نرم اور جذبات کو گرم رکھیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جوتوں پر لگا کیچڑمکمل طور پر صاف کر کے اندر تشریف لائیں۔کیونکہ ہمارے کوٹھے کا فرش ہمیں رزق دیتا ہے، اس لئے ہمیں اپنے فرش کی بے حرمتی کسی صورت قبول نہیں۔3 ۔ کوٹھے پر کام کرنے والے تمام افراد کو ایک معقول اجرت ماہانہ طور پر ادا کی جا تی ہے اس لئے انہیں ایک پائی بھی مت دیں۔

البتہ باہر رکھے ہوئے چندے کے ڈبے میں آپ دل کھول کر عطیات دیں کیونکہ ان عطیات کونوجوان طوائفوں کی فلاح و بہبو د کیلئے بڑی ایمانداری سے خرچ کیا جاتا ہے۔4۔رات کے آخری پہرسے پہلے کوٹھے کو مکممل طور پر خالی کر دیا جائے کیونکہ اس کے بعد تمام کوٹھے کے فرش کو دھویا جاتا ہے اور تمام صفائی ستھرائی کے بعد یہاں تہجد اور فجر کی نماز ادا کی جاتی ہے'' الٰہ آبادکی اس طوائف کے کوٹھے کے باہر لکھی تختی اور ہماری عدالتوں کا موازنہ پڑھنے والے خود کر لیں۔


 دو روز قبل رات گئے پاکستان کے تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر پی ٹی آئی کے لیڈر اسد عمر کی پریس کانفرنس کے حوالے سے ایک خبر بریک کی گئی جس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان کو این آر او اوربلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں کام کرنے سے روکنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تو اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے سے بہتر ہے کہ وہ اسمبلیوں کو توڑ کر عوام کے پاس جانے کو ترجیح دیں گے۔

اس خبر کے آتے ہی پاکستانی سیاست میں بھونچال آ گیا۔ دراصل عمران خان ملک کی حکمرانی تو کر رہے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے پہلے ہی دن سے انہیں ایک واضح اکثریت نا ہونے کے باعث بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے اورپہلے حکومت نا کرنے کا تجربہ نا ہونے کے باعث اور سب سے بڑھ کر اپنے اردگرد سیاست کے بڑے بڑے مگرمچھوں کو نا چاہتے ہوئے ملکی اہم عہدوں پر تعینات کرنے کی غلطی کو خود عمران خان دو روز قبل اپنے ایک خطاب میں تسلیم کر چکے ہیں۔

مبینہ طور پر ایف آئی اے اور پاکستان کے دوسرے تحقیقاتی اداروں نے ملک بھر کے مختلف اداروں میں تعینات کرپٹ بیورو کریٹس کی لسٹ تیار کی ہے جس کے مطابق ان کالی بھیڑوں کے متعلق فیصلہ کیا چکا ہے اور بہت جلد ان تمام بیورو کریٹس کو گھر بھیجا جا رہا ہے۔ ان کی جگہ نئے بیورو کریٹس بھرتی کئے جائیں گے یا جونیئر بیورو کریٹس کو ترقی دے کر ان کی جگہ تعینات کیا جائیگا۔

ان سارے حالات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو عمران خان صحیح کہتے اور سوچتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اگر تین سالوں میں پی ٹی آئی یا عمران خان پاکستان کے غریب عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے اور باقی دو سال بعد بھی ایسے ہی حالات رہے تو وہ کس منہ سے اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے جائیں گے؟ ان کا خیال درست ہے کہ بجائے اس کے مزید دو سال کا وقت اسی طرح گزارنے کے بجائے فوراً ہی اسمبلیوں کو توڑ کر مڈٹرم الیکشن کی صورت میں عوام کے پاس جایا جائے تاکہ پاکستان پرحکومت کرنے کیلئے 2/3 اکثریت حاصل کر کے دوبارہ اپنا کام وہیں سے شروع کیا جائے جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹے۔

اس بات کو تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ عمران خان اپنے مختلف خطابات میں کئی بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ انہیں اپنے اقتدار کی نا کوئی خواہش ہے اور نا اقتدار کا شوق ۔ اگر انہیں اندرونی و بیرونی دباؤ کے ذریعے بلیک میل کیا گیا تو وہ اپنی کرسی چھوڑ سکتے ہیں لیکن کسی سے بھی بلیک میل نہیں ہونگے۔ ڈسکہ اور کراچی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے پی ٹی آئی میں کافی گھلبلی مچ گئی ہے۔

کراچی الیکشن کے نتائج تو ایسے آئے ہیں جیسے کسی نیشنل اسمبلی حلقہ نہیں بلکہ کسی وارڈ میں کونسلر الیکشن کے نتائج ہوں کیونکہ پورے حلقے میں صرف 21 فیصد ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ اب اس کی وجہ کیا ہوئی اس کو ہر پارٹی اپنے اپنے طور پر بیان بازی سے ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حسب سابق ہارنے والی پارٹی جیتنے والی پارٹی پر دندھالی کا الزام لگا رہی ہے اوراسی ک باعث پچھلے الیکشن میں نمبر ون آنے والی پارٹی پانچویں نمبر پر پہنچ گئی، کچھ نتائج تو غیرمعمولی طور آئے جس کو سامنے رکھتے ہوئے پارٹی اس کی وجہ رمضان کا مہینہ، گرمی کی شدت اور سب سے بڑی وجہ کرونا وباء اور ایس او پی پر کاربند رہنے کو قرار دے رہی ہے۔

پی ٹی آئی جو ابھی چند سال پہلے یہاں سے فیصل واڈا کی شکل میں کامیاب ہوئی تھی اس ضمنی الیکشن اس حلقہ میں کھڑی ہونیوالی تمام جماعتوں سے پیچھے 5 ویں نمبر پر رہی جو کہ صحیح معنوں میں پی ٹی آئی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔غیرحتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن صرف 583 ووٹوں کی کمی سے پیپلز پارٹی سے ہار گئی۔ ان تمام الزامات کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مسترد کر دیا کہ یہ ایک پری پول دھاندلی شدہ الیکشن تھا۔

ابھی کچھ مہینے پہلے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پی ڈی ایم کے تحت منعقدہ جلسے جلسوں میں ایک دوسرے کے حق میں بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس الیکشن کے نتائج کے آنے کے بعد مریم اعوان اور بلاول بھٹو کے درمیان بیانات کی جنگ شروع ہو چکی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ''اب سانپ گزر چکا، اس کے رینگے ہوئے نشانات کو پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں''۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :