حکایت رومی اور تارکین وطن

بدھ 19 مئی 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

داستان رومی میں مولانا جلال الدین رومی لکھتے ہیں کہ سمندر کے بیچ میں ایک بہت بڑا جزیرہ تھا، اس جزیرے میں وہاں کے رہائشیوں کے اپنے ہی سیاسی قانون و ضوابط تھے، ان میں سے ایک قانون یہ بھی تھا کہ وہ ہر سال کی آخری تاریخ کو اپنے جزیرے ساحل پر کھڑے ہو کر اپنے حاکم وقت کا انتخاب کرتے۔ جو بھی شخص ان کے جزیرے کے ساحل پر اپنا پہلا قدم رکھتا اسے وہ اپنے جزیرے کا ایک سال کیلئے حاکم متصور کرتے ہوئے اس کا انتخاب کرتے، اور ٹھیک ایک سال کے بعد اسی عمل کودوبارہ دہرایا جاتا اور پرانے حاکم وقت کو اسی جزیرے کے ایک حصہ میں جہاں خاردار جھاڑیاں، ان جھاڑیوں میں خطرناک زہریلے حشرات و الارض اور خونی جانوروں کا بسیرا تھا ، سال بھر وہ اقتدار کے مزے لوٹتا اور یہ بھول جاتا کہ سال کے بعد یہاں کی عوام اس کے ساتھ کیا کرنے والی ہے، جزیرے کی عوام ٹھیک ایک سال بعد اس کو معزول کر کے زنجیروں میں جھکڑ کرجزیرے کے اس حصہ میں ڈال آتے اور تھوڑی ہی دیر میں اسے وہ خونی خطرناک جانور اپنا نوالہ بنا لیتے اور دوسرے خطرناک حشرات الارض اسے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالتے، یہی دستور ایک لمبے عرصہ سے وہاں جاری و ساری تھا۔

(جاری ہے)

ایک مرتبہ سال کے آخری دنوں میں وہاں کے رہائشیوں نے ساحل سمندر پر اپنے نئے حاکم وقت کے انتظار میں نظریں جما رکھی تھیں کہ وہاں ایک بحری جہاز لنگر انداز ہوا اور اس میں سے ایک اللہ کا نیک، صالح اور داناء بندہ برآمد ہوا، جب اس نے اس جزیرے پر اپنا پہلا قدم رکھا تو اسے وہاں کی رہائشی عوام نے گھیرلیا اور پہلے اسے یہ خبر سنائی کہ آج کے بعدایک سال کیلئے آپ ہمارے جزیرے کے حاکم وقت مقرر ہو چکے ہیں، اور ٹھیک ایک سال کے بعد آپ کی جگہ کسی دوسرے کو اس منصب پر فائز کیا جائیگا اور اس کے بعد آپ کو اس جزیرے کے خطرناک ترین حصہ میں چھوڑ دیا جائیگا۔

پہلے تو اس مومن نیک شخص نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں، مسند اقتدار کے اصولوں کا تو مجھے کچھ بھی تجربہ نہیں۔ پیشہ کے لحاظ سے میں ایک تاجر ہوں اور میں آپ کے جزیرے میں تجارت کی غرض سے آیا ہوں لہٰذا مجھے اس سے معاف ہی رکھیں۔ لیکن اس عوامی جلوس کے گروپ لیڈر نے ان سے اسی بات پر اصرار کیا کہ یہی ہمارے جزیرے کا ضابطہ و قانون ہے، آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے، اگر آپ کو زبرستی جکڑ کر بھی تخت پر بیٹھنا پڑا تو ہم آپ کو بٹھائیں گے۔

آپ کو یہ حکمرانی کا عہدہ قبول کرنا ہی پڑے گا اور سال کے بعد جب ہم آپ کو اپنے جزیرے کے اس خطرناک حصہ میں چھوڑیں گے تو آپ کی قسمت آپ وہاں سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب ہوجائیں، چنانچہ نا چاہتے ہوئے بھی اسے تخت حکمرانی پر بیٹھنا پڑا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں اس سے پہلے اس مرد مومن نے ان سے پوچھا کہ تم سال بھر بحیثیت حکمران کے میرا ہر حکم مانو گے؟ تو انہوں نے کہا جیسا آپ کہو گے ویسا ہی ہو گا۔

عام طور جب بھی کوئی شخص مسند اقتدار پر بیٹھتا ہے تو اسے اپنے انجام کا علم نہیں ہوتا، پتہ تو اس وقت چلتا ہے جب اس کا مقررہ وقت پورا ہو جائے اور اس کا انجام اسے سامنے نظر آنا شروع ہو جائے تو وہ اس وقت کو واپس لوٹانے کی سکت کھو بیٹھتا ہے۔ اور پھر اسے پچھتانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس پر اس مرد مومن نے بھی بحیثیت حکمران تخت نشین ہونے کی حامی بھر لی۔

تخت پر براجمان ہوتے ہی اس نے جزیرے کے کرتا دھرتا افراد کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا سب سے پہلے تو فوجی کمانڈوز قسم کے لوگ پہلے جزیرے کے اس حصے میں بھیجے جائیں، جہاں آپ ہر سال اپنے پرانے حکمران کو پھینک آتے ہوئے، وہاں موجود تمام خونخوار اور خطرناک جانوروں کو مارنا شروع کر دو۔ محکمہ بلدیات کے سارے کام کرنے والوں کو حکم دیا کہ آپ لوگ جزیرے کے اس حصہ میں موجود تمام جھاڑیوں کو کاٹ دو اور صفائی ستھرائی کے بعد اس سارے حصے کو ایک خوبصورت باغ میں تبدیل کر دیا جائے، وہاں اچھے پھل دار، پھول داراور سایہ دار درختوں اور پودوں کو اگایا جائے۔

وہاں معماروں کا ایک گروہ بھیجا جائے تاکہ وہ معمار حضرات ایک خوبصورت محل تعمیر کریں۔ گویا اس مرد مومن نے سال بھر جزیرے کی پوری مشینری کو موذی اور خونخوار جانوروں کو مارنے، پھل دار، پھول دار اور سایہ دار درخت لگانے اور ایک زبردست محل تعمیر کروانے میں مصروف رکھا۔ کیونکہ اس صالح مومن کو اپنی سال کے بعد آنے والی زندگی کی فکر لاحق تھی اس لئے اس نے شروع دن سے جزیرے کے اس خطرناک حصہ کو ایسا خوبصورت باغ میں تبدیل کر دیا کہ نا وہاں کوئی خونخوار جانور رہا، نا کوئی کانٹے دار جھاڑیاں اور ناخوفناک حشرات الارض کا بسرا ۔

وہ جگہ تو جنت کے باغوں میں ایک باغ کی مانند ایک باغ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ماضی میں جب پچھلے حکمران کی آخری تاریخ قریب آتی تو وہ عیش و عشرت کی زندگی کا عادی ہونے کے بعد اورپھر اپنی معزولی پر پریشان ہو کرچیختا چلاتا کہ سال بھر کا وقت گزر بھی گیا؟ مجھے معزول کر کے کہاں لے جا رہے ہو، مجھے چھوڑ دو ، مجھے سال بھر کا مزید وقت دو، میں دوبارہ اس جزیرے پر حکمرانی کرتے ہوئے اسے جنت بنا دوں گا، لیکن کیونکہ اس کا سال بھر کا وقت پورا ہو چکا ہوتا اس لئے اسے اٹھا کر وہیں پھیک دیا جاتا جہاں اس کی اپنی زندگی کا چراغ ہی گل ہونے کو ہوتا۔

اب اس مرد مومن کا جب سال پورا ہوا تو اس جزیرے کے لوگ ایک جلوس کی شکل میں اس کے پاس آئے اور اسے کہا اب آپ کو زنجیروں میں جکڑ کر جزیرے کے اسی حصہ میں پھینکنے کا وقت آ پہنچا ہے لہٰذا آپ تیار ہو جائیں۔ لیکن اس نیک آدمی نے کہا کہ مجھے زنجیروں میں باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں تو خود ہی چل کر آپ کے ساتھ اس جگہ چلنے کو تیار ہوں۔مولانا رومی مزید لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ مرد مومن جب پہلے دن مسند اقتدار پر بیٹھا تو اس نے اسی فکر میں سارا سال گزار دیا کہ سال کے بعد یہ لوگ مجھے بھی اس خطرناک اور خوفناک جگہ پر پھینک آئے تو میں بھی ان خونخوار جانوروں اور موذی حشرات الارض کی خوراک بن جاؤں گا، کیوں نا میں اس جگہ کو ہی ایک خوشنماء گل و گلزار باغ بنا دوں اور سال بعد اگر مجھے وہاں جانا بھی پڑے تو میں اپنی بقایا زندگی وہاں موجود اللہ تعالٰی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں گزاروں گا۔

رومی فرماتے ہیں کہ صالح مرد مومن جب بھی تخت نشین ہو گا اسے اپنی آخرت کی زیادہ فکر ہو گی، اس خیال کو مدنظررکھتے ہوئے ایسے کام سرانجام دیتا ہے کہ اس کے قبر کے سانپ، بچھوؤں کو ختم کرتا ہے اور اپنی کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا لیتا ہے کیونکہ اس نے اپنی نا ختم ہونے والی زندگی وہاں گزارنی ہوتی ہے اور اس کے برعکس منافق، فاسق اور فاجر اقتدار پر بیٹھتے ہی یہ سب بھول جاتا ہے کہ اسے آخر کہاں جانا ہے، اس لئے اس کے کام اپنی رعایا کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے برخلاف اپنی ہی قبر میں سانپ، بچھوؤں اور حشرات الارض میں اضافہ کرتے ہوئے دوزخ کے گڑھوں میں ایک گڑھا بنانے میں صرف کر دیتا ہے۔

اس اوپر والی حکایت رومی کا لب لباب تو ہر باشعور مسلمان کو سمجھ ہی جانا چاہئے جس میں بڑے واضح انداز میں مسلمان مرد و خواتین کیلئے جو سبق چھوڑا ہے کہ دنیا میں نیک کام کرنے سے انہیں جنت کے باغ کی طرح کا ایک باغ قبر میں ہی نصیب کر دیا جائے گا اوروہ مسلمان جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی ایسے کام کئے جن سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے ، ان کاموں کے کرنے کے بعد ان کی قبر بھی جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بن جائیگا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس واقع پر دوسرا پیغام یہ بھی ہے کہ جو حکمران ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ، بے ایمانی، اقربا پروری، اور اپنی عیش و عشرت میں مگن ہو کر وہ وقت بھول جاتا ہے کہ اگر نئے انتخابات میں عوام نے انہیں اپنے ووٹوں سے منتخب نا کیا تو ان کی زندگی بھی ایسے ہی گزرے گی جیسے موجودہ دور میں ماضی کے کئی حکمرانوں کی گزر رہی ہے۔ '' مجھے کیوں نکالا'' ووٹ کو عزت دو'' زندہ ہے بھٹو زندہ ہے'' اور ایسے ہی کئی ایک نعروں کے خالق ابھی تک ملک و دیار غیر میں درختوں سے جھڑے پیلے پتوں کی مانند بھٹک رہے ہیں۔

دنیا ان کو اپنی اپنی زبان میں کرپشن کے مختلف ناموں سے یاد ضرور کرتی ہے لیکن میری نظر میں یہ صرف ذلالت نہیں بلکہ خدائی عذاب ہے جو ان پر قہر کی طرح نازل ہو چکا ہے۔ان کا انجام بھی بہت جلد دنیا دیکھے گی، اضافی دعوے یہ کرتے نہیں تھکتے کہ اب اگر عوام انہیں اقتدار میں لائے تو پورے ملک کو جنت میں تبدیل کر دیں گے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے ابھی چند ماہ قبل سٹیٹ بینک آف پاکستان کے زیر سایہ تارکین وطن پاکستانیوں کیلئے روشن پاکستان بینک اکاؤنٹ متعارف کرایا ہے جس کا بہت اچھا ریسپارنس بھی آ رہا ہے، ہزاروں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے آن لائن روشن پاکستان بینک اکاؤنٹ کھلوا لیا ہے اورکچھ کھلوا رہے ہیں اور دھڑا دھڑغیرملکی کرنسی رقوم اس میں منتقل بھی کر رہے ہیں۔

جس سے پاکستانی معیشت میں اچھا خاصا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس میں قطعی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی معیشت میں تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانیوالی رقوم ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اس بات کے معترف موجود وزیراعظم پاکستان عمران خان شروع دن سے ہیں۔ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تو پاکستان میں جنرل الیکشن ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہے ہیں، ہر الیکشن میں جوامیدوار جیسے تیسے کر کے جیت جاتا ہے وہ تو اپنی جیت کا جشن ضرور مناتا ہے اور منانا بھی چاہئے لیکن جو امیدوار ہار جاتا ہے تو الیکشن کے فوری بعد پہلے دن سے ہی وہ ہر طرف یہی شور مچاتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی اوردندھالی ہو گئی ہے۔

الیکشن میں اضافی ووٹر لسٹوں کے ذریعے جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کا الزام ، گنتی دوبارہ کی جائے، غلط اور جعلی ووٹوں کے ذریعے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کا الزام ، ووٹروں کو پیسے اور خوف کے ذریعے ان کی مرضی کے برعکس ووٹ ڈلوانے کا الزام، غرض وہ اپنا ہر طرح کا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے اپنی آخری حد تک جاتا ہے ، جس سے ملک میں موجود افراتفری ، بے چینی اور لوٹا کریسی کی سیاست کو ایک بام عروج حاصل ہوا ہے۔

ان الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میں آئندہ الیکٹوریل الیکشن کی طرف اپنا پہلا قدم بڑھادیا ہے۔ اس آرڈیننس کے نفاذ سے قبل پی ٹی آئی حکومت نے قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اس آرڈیننس کے نفاذ سے قبل ہمیں اچھی اور مثبت تجاویز سے نوازیں تاکہ آئندہ جب کبھی بھی الیکشن ہوں تو اس میں بے ایمانی اور دھونس دھاندلی کے امکان کو رد کیا جا سکے۔

لیکن سمجھ یہ نہیں آتا کہ ہماری باشعور اسمبلی میں ایسے ایسے ارکان بھی بیٹھے ہیں جنہیں پتہ بھی ہے کہ ہمیں گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنی ملکی سسٹم کو اپ گریڈ کرتے ہوئے ایسے قوانین بنانے میں ملکی سسٹم میں شامل کرنا چاہئے جس سے ہماری قوم دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے ہوئے ان کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل ہو سکے۔

لیکن افسوس صد افسوس ہماری قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کے اکثریتی ارکان ابوجہل کی مانندجس کو زمانہ جہالیت میں یہ پتہ بھی تھا کہ حضور ﷺ ایک سچے نبی اوررسول اللہ ہیں لیکن وہ صرف اپنی شیطانی انا کی خاطر اسی بات انہیں جھٹلاتا رہا کیونکہ وہ ایک قریش قبیلے کا جھوٹا سردار تھا، وہ کیسے انہیں سچا نبی تسلیم کرے، اسی لئے ایسے تمام ارکان اسمبلی جو اس آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ ایسے اقدامات کرنے کے بعد ان کے فرضی ناموں سے اندراج شدہ سینکڑوں ہزاروں ووٹرز کی چوری پکڑی جائیگی۔

اور ایسے حلقے جہاں سے انہیں کسی صورت کوئی نہیں ہرا سکتا ، وہ ان کے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسل جائیں گے۔اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے تحت الیکٹوریل الیکشن میں بیرون ملک مقیم تقریباً 90 لاکھ پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق حاصل ہو جائیگا جس کا فائدہ اس پارٹی کو زیادہ ہو گا جو بیرون ملک مقیم پاکستان کے لئے ایسے کام کریگی جس سے ان کے تحفظات دور ہونگے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مشکلات میں ہرچڑھتے دن اضافہ کو کم کیا جا سکے گا۔ کہ وہ اپنے ملک چھٹی پر یا غمی خوشی کے موقع آئیں تو ان کو بھی اپنے ملک میں وہی عزت و وقار مل سکے جس کے وہ حق دار ہیں۔روشن پاکستان بینک اکاؤنٹ ہولڈرز کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ایک اور یہ سہولت کی خبر بھی آئی ہے کہ ہر اکاؤنٹ ہولڈر پاکستان میں موجود اپنے عزیزو اقارب اور رشتہ داروں کیلئے ایک عدد گاڑی کنٹرول ریٹ پر اور ٹائم ضائع کئے بغیر بینک لیز پرحاصل کر سکیں گے۔

جس کا بحرحال سود ادا کرنا پڑے گا۔ لیکن اپنی اس گاڑی کو حاصل کرنے اور اپنے عزیز و رشتہ داروں کو تحفتاً دینے میں وقت کتنا لگے گا اور کونسی گاڑی وہ لے سکے گا اور کس گاڑی کیلئے وہ اہل ہو گا اس کا فیصلہ غیرملکی تارک وطن جب ڈیلر یا بینک انتظامیہ کے نرغے میں آئیگا تو پتہ چلے گا کہ اس سارے عمل میں اسے کیا کیا اور کس کس مقام پر دھوکہ و فراڈ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہماری رائے میں حکومت وقت کو چاہئے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو گاڑی کیلئے بینک فنانس کی سہولت کی بجائے ہر ایک تارکین وطن کو یہ سہولت دی جائے کہ وہ اپنے رہائش پذیر ملک سے پاکستان اپنے عزیز و اقارب کیلئے گاڑی بھجوانے کی کم سے کم مدت تین سال کی بجائے 10 سال کی چھوٹ دیدی جائے۔ جو پاکستانی 5 سال سے بیرون ملک میں رہائش پذیر ہے ان کو 1300 سی سی اور جو 10 سے بیرون ملک مقیم ہے وہ 2000 سی سی گاڑی اپنے ساتھ پاکستان لے آئے اور اس پر کسٹم ڈیوٹی میں خاطر خواہ چھوٹ دیتے ہوئے انہیں یہ سہولت دی جائے کہ وہ اپنے رہائش پذیر ملک سے خود اپنی پسند کی گاڑی کو پاکستان بھجوا سکے ، جس پرمعمولی کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد وہ ان کے رشتہ داروں پر پہنچ جائے ، اس سے ایک تو تمام تارکین وطن کو پاکستانی بینکوں میں موجود بینکوں کی فنانس کرانے والے مافیا سے نجات حاصل ہو گی دوسرا یہ کہ کوئی بھی اوورسیز پاکستانی بینک کا مقروض نہیں ہو گا، اس کے علاوہ موجود دور میں پاکستانی مارکیٹ میں موجود گاڑی کی باڈی اور انجن کا اندازہ کیا جائے تو وہ گاڑیاں جو پاکستان میں اسمبل ہو رہی ہیں کسی بھی طرح بیرون ملک اسمبل ہونیوالی کسی بھی گاڑی کے معیار کے مطابق نہیں۔

بیرون ملک بنائی جانیوالی گاڑیوں کا معیاری میٹریل آئندہ آنے والے 10 سال کے بعد بھی پاکستان میں بنائی جانیوالی گاڑیوں تک نہیں پہنچے گا، اس کے علاوہ پاکستان میں موجود گاڑیوں کی قیمتوں میں آئے روز ہوشربا اضافہ کو بھی کنٹرول کیا جا سکے گا۔کیونکہ ایسی بہت سی امپورٹڈ گاڑیوں کے پاکستانی سڑکوں پر آنے کے بعد وہاں موجود مختلف کمپنیوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اپنی بنائی جانیوالی گاڑی میں وہی سہولیات دیں جس سے تمام کارشائقین حضرات خوشی خوشی لاکھوں روپے خرچ کرکے معیاری گاڑی خریدتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :