ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے

ہفتہ 5 جون 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

کسی گاؤں کا نائی پورے گاؤں میں خوشی سے دندناتا پھر رہا تھا اور اپنے خاص دوستوں میں مٹھائی بھی بانٹ رہا تھا۔ تو کسی نے اس سے اتنی خوشی اور مٹھائی بانٹنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ '' چودھری صاحب کا بیٹا پولیس انسپکٹر بھرتی ہو گیا ہے'' ۔ کسی نے اسے کہا کہ یار چودھری صاحب کے بیٹے کے بھرتی ہونے پر تمہیں اتنی خوشی کیوں ہو رہی ہے۔

تو کہنے لگا '' اس بھرتی ہونے والے بیٹے کے ختنے ) سنتیں( میں نے کیں تھیں'' ۔ اور ابھی چند روز قبل یوم تکبیر کے موقع پر ہر سال 28 مئی کے دن نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے سرکردہ لیڈرخواتین و حضرات بھی نائی کا کردار ادا کرتے ہوئے ساری دنیا میں یہی شور مچاتے پھرتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے نواز شریف اور مسلم لیگ ن نے کئے تھے۔ حالانکہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے سب کو پتہ ہے کہ نواز شریف اور اس کی پارٹی کے عہدیداران کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

اس وقت اگر مسلم لیگ ن اور نواز شریف پر پاکستان آرمی کا دباؤ نا ہوتا تو شاید ان دھماکوں کو نا کر کے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومت لاکھوں ڈالر کمیشن کے طور پر امریکہ سے وصول کر چکی ہوتی۔،اور آج تک نواز شریف پر بنائے گئے متعدد کیسوں کی طرح اس کیس کی فائل کسی عدالت کے جج کے پاس مٹی دھول میں اٹی ہو ئی پڑی ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کے دباؤ کا سامنا نا کرتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی ان دھماکوں کو کرنے کی دستاویزات پر دستخط کر دیئے۔

انہی دنوں سوشل میڈیا پر بھی کئی چھوٹے موٹے فنی کلپ وائرل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نہایت دلچسپ یہ ہے کہ یہ لڑکا 28 مئی یوم تکبیر کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان آرمی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و جوان تاش ، لڈو اور بارہ ٹینی کھیلتے رہے اور نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے تمام عہدیداران پہاڑوں میں سرنگیں کھودنے پر دن رات لگے رہے ہیں، اور جہاں ایٹم بم کے دھماکوں کا تجربہ کرنے کیلئے انتظامات کئے گئے تھے وہاں انہوں نے مقررہ وقت پر نواز شریف نے دھماکے کرنے کیلئے بٹن دبایا اور پھر دھماکے ہوئے اور پاکستان آرمی کے وہ افسر و جوان جو ان پہاڑوں کے اردگرد سیکورٹی کی مد میں تعینات تھے ، ان کو پتہ چلا کہ نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے ایٹمی دھماکے کر دیئے۔


پچھلے ہفتے سے لیکر آج تک سوشل میڈیا پر بہت سی خبروں کو وائرل ہونے میں بہت زیادہ عروج حاصل ہوا، انہی خبروں میں پاکستان کے مایہ ناز لیکن متنازعہ انداز میں معروف صحافی حامد میر کے فوج کے خلاف بیان اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والی عوامی نفرت کے نتیجے میں خبروں نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی اور ابھی تک سوشل میڈیا کے علاوہ پاکستان کے تمام چینلز پر حامد میر کے فوج کے خلاف نفرت آمیز بیان پر مختلف تجزیہ نگار، صحافی اور محب وطن پاکستانی اپنی ناپسندیدگی کا اظہاراپنے اپنے اندااز میں کر رہے ہیں۔

مبینہ طور پر حامد میر کے بیان کے بعد ان کا خیال تھا کہ پورا ملک اور پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیاں یا کم از کم پی ڈی ایم ان کا ساتھ دے گی اور وہ ان کیلئے کھڑے ہو جائیں گے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا، ان کے خیال میں اگر ایسا ہو گیا تو وہ ہیرو بن جائیں گے ، لیکن اس کا ردعمل بالکل ہی برعکس ہوا، بلکہ ان کے اپنے ادارے روزنامہ جنگ اور جیو نے انہیں غیرمعینہ مدت کیلئے آف ایئر کر دیا، جس کے نتیجے میں ان کا اپنا پروگرام '' کیپیٹل ٹاک'' بند کر دیا گیا ہے۔

اسی عوامی نفرت کے نتیجے میں انہیں ایک امریکی اخباروائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہنا پڑا کہ اگر آئی ایس آئی اسلام آباد کے یو ٹیوبر صحافی اسدطور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتی ہے تو وہ فوج کے خلاف بیان پر پوری قوم اور فوج سے معافی مانگنے کو بھی تیار ہیں۔لیکن اب یہ معاملہ معافی سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ پوری پاکستانی قوم اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی مختلف تنظیموں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ سننے میں آ رہا ہے کہ قومی فوج کو بدنام کرنے پر حامد میر کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا جائے جس سے ایسے بہت سے دوسرے لفافہ صحافیوں کو عبرت حاصل ہو جو آئے روز پاکستانی فوج اور حساس ادارہ کی خفیہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

جس کے باعث نا صرف ملکی سطح پر بلکہ پوری دنیا میں پاکستانی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ #
تہمت لگا کے ماں پے جو دشمن سے ڈرے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے
خود حامد میر بھی امریکی اخبار کو انٹرویو میں تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے جو کیا وہ غلط ہے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، فوج سے میں معافی بھی مانگوں گا،لیکن یہ کہہ کر انہوں نے شرط عائد کر دی کہ پہلے حملہ آوروں کو گرفتار کیا جائے، اس ضمن میں عوامی رائے بھی یہی ہے کہ کسی بھی صحافی کو سرعام یا ان کے گھر میں گھس کر اس پر تشدد کرنا بالکل درست نہیں اور اس عمل پر کوئی بھی باشعور انسان اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔

یہ عمل واقعی غلط ہے، غیرقانونی ہے،جرم ہے اور قابل مذمت ہے،لیکن کسی بھی جرم کرنے والے کو کسی دوسرے جرم کرنے پر جسٹیفائی نہیں کیا جا سکتا، ایک بندہ رائفل یا پستول سے فائرنگ کررہا ہے تو یہ ایک جرم ہے، اور اسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا اس جرم کو جسٹیفائی نہیں کر سکتا کہ وہ بندہ پستول یا رائفل سے فائرنگ کر رہا تھا اس لئے میں بھی فائرنگ کر کے کسی کو مار دونگا۔

اسدطور پر گھر میں گھس کر حملہ کیا گیا اس لئے اس پر حملہ آوروں کو پہلے گرفتار کیا جائے ورنہ میں اپنے جرم پر فوج سے معافی نہیں مانگوں گا،یہ ان کی منطق عجیب سی ہے۔اور اس کے جواب میں انہوں نے ملک کی فوج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر سنگین قسم کے الزامات لگاتے ہوئے فوج پر کیچڑ اچھالا اور حساس ادارے کی توہین کی، جن کے ان کے پاس کسی قسم کے ثبوت بھی موجود نہیں۔ لہٰذا انہیں ہوش وحواس کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے آپ کو جتنی جلدی ہو سکے فوج اور قومی سلامتی کے اداروں سے معافی تلافی کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کیس سے نکالا جائے اور اپنے دوست اور دشمن کو پہنچانتے ہوئے بے دریغ اور منصفانہ صحافتی کردار ادا کرتے ہوئے اپنی صحافتی کشتی کو آگے بڑھانا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :