کورونا کے عذاب کی چوتھی لہر

ہفتہ 7 اگست 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

آجکل پوری دنیا کے تمام ممالک کورونا وائرس کو خدائی عذاب کے طور پر جھیل رہے ہیں، اور اللہ تعالٰی سے اجتماعی دعاؤں کے ذریعے اس مسیحا کا انتظار کر رہی ہے جو اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ پہلی دوسری، تیسری اور اب چوتھی لہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بیک وقت پوری دنیا پر اپنے خطرناک اثرات چھوڑنے کیلئے تیار کھڑی ہے۔ اس کیلئے پوری دنیا کی دوا ساز کمپنیاں اور سائنسدان اس بیماری کے تریاق کو کھوجنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں پورے عالم میں بسنے والے انسانوں پر چھائی اس قدرتی آفت کے علاج کا ذریعہ بن سکے۔

اس سلسلے میں دنیا بھر کی کئی ڈرگ کمپنیاں اپنے اپنے طور پر دعوے کر چکی ہیں کہ ان کی بنائی گئی ویکسین زیادہ پر اثر ہے۔ لیکن یہ دعوے صرف دعوؤں کی حد تک ہی کارآمد ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ ایک کے بعد دوسری ویکسین لگوانے والے بھی پھر سے کسی نئے جدید وائرس یعنی انڈین وائرس اورساؤتھ افریقین نامی وائرس کی زد میں آ رہے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس ابھی تک اپنی نئی خطرناک شکل میں دنیا بھر میں موجود ہے۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود پچھلے دنوں برطانوی معروف ہفت روزہ دی اکنامسٹ نے دنیا بھر کے 50 ممالک کی Return to Normal نامی سروے کا ڈیٹا جاری کیا ہے، اس سروے کے مطابق دنیا کے ایسے50 ممالک کی لسٹ جاری کی ہے، جو اس موذی وباء کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے اپنی قوم کو نارمل زندگی کی طرف لائے۔ یہ لسٹ ان 50 ممالک کا تقابلی جائزہ ہے جس کے تحت دنیا کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس وباء کے خلاف جنگ میں کون سا ملک کہاں کہاں کھڑا ہے۔

اس ڈیٹا رپورٹ کے مطابق پہلے نمبر پر ہانگ کانگ ہے جس کو 96.3 نمبر دیئے گئے ہیں کہ ہانگ کانگ کی گورنمنٹ نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے سب سے کم وقت میں اپنی عوام کو اس مرض سے چھٹکارا دلایا۔ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ کو 87.8 پوائنٹ دیئے گئے ہیں جس کی خاتون وزیراعظم کی انتھک محنت اور عوام دوست پالیسیوں کے باعث عوامی زندگی نارمل ہو سکی۔ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جس نے 84.6 پوائنٹ لیکر اس لسٹ میں پہلے 5 ممالک میں اپنی جگہ بنائی، اسی طرح چوتھے نمبر پر نائجیریا 84.1 اورپانچواں نمبر یوکرائن کا ہے جو اس ترتیب میں 83.6 نمبر حاصل کر سکا۔

اسی لسٹ کے ساتھ دی اکنامسٹ نے ایک ایسی لسٹ بھی جاری کی ہے جس میں ان 50 ممالک میں آخری 5 ممالک کا ذکر بھی کیا ہے جو اس ترتیب میں شامل کئے گئے ہیں، ان میں 50 ویں نمبر پر ملائیشیا 27.3، 49 ویں نمبر پر تائیوان 43.7، 48واں نمبر بھارت 46.5، 47 ویں نمبر پر چلی اور 46 ویں نمبر پر ویت نام شامل ہے۔ خبر یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی کورونا پر لاگو پالیسیوں کو پوری دنیا مان رہی ہے، کم وسائل اور ملکی صورتحال کے پیش نظر پاکستانی گورنمنٹ کی سمجھ داری، شعور اور صبر و حوصلے کے نتیجے میں پاکستان نے دنیا بھر کے پہلے 5 ممالک میں شامل ہو کر یہ بتا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہے۔

لیکن پھر بھی پاکستان پر آج تک سخت سفری پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ ریڈ لسٹ سے ابھی تک پاکستان کا نام خارج نہیں کیا گیا جبکہ انڈیا کو نیچے سے پانچ ملکوں میں شامل ہونے کے باوجود ریڈلسٹ سے نکال کر امبر لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح کورونا وائرس نمبر4 بھرپور طریقے سے پوری طرح اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے، ہر آنے والے دن میں مریضوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

صوبہ سندھ نے تو پاکستان کے دوسرے صوبوں سے پہلے لاک ڈاؤن نہیں بلکہ منی کرفیو لگا تے ہوئے رینجرز کوبھی طلب کر لیا لیکن پھربھی وہاں عوام کی اکثریت اس خدائی عذاب کو مذاق سمجھ رہی ہے ، کچھ عرصہ پہلے فرانسیسی نوبل انعام یافتہ سائنسدان نے اپنے اخباری بیان میں یہ کہہ کر پوری دنیا میں ہلچل مچا دی کہ ''جو بھی اس ویکسین کو لگوائے گا وہ زیادہ سے زیادہ دوسال زندہ رہ سکے گا''۔

اس جھوٹے اور من گھڑت بیان کو دنیا کی کسی اور قوم نے اتنا سنجیدہ لیا ہو یا نا لیا ہو لیکن پاکستانی اور ہندوستانی عوام نے اتنا سنجیدہ لیا کہ اس اخباری خبر کے بعد ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہو رہی ہے جو اس اخباری جھوٹی خبر پر یقین رکھتے ہوئے ویکسین لگوانے سے کنی کتراتے نظر آ رہے ہیں، لیکن گزشتہ عید قربان کے موقع پر پپیاں اور جھپیاں ڈالنے کے بعد اس مرض کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں، اور اس کے بعد پورے پاکستان میں خاص کر صوبہ سندھ میں ایک مرتبہ پھر سے کورونا کے مریضوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ دیکھا جا سکتا ہے، اوپر سے قومی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے نوٹیفکشن جاری کر دیئے گئے ہیں کہ جو بھی کورونا کی ویکسین مکمل نہیں کرے گا اس کی موبائل سم بلاک کر دی جائیگی، اور جو کوئی ملازمت کر رہا ہے اس کی تنخواہ روک لی جائیگی، لیکن ایسے سخت اقدامات سے اثر ہوتا نظر تو آ رہا ہے کہ کورونا ویکسی نیشن سنٹر پر اپنے آپ کو وائرس سے بچاؤ کیلئے ویکسی نیشن کروانے کیلئے لوگوں کی تعداد میں ہزاروں نہیں لاکھوں کا اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن اس عمل میں بھی کافی بے ترتیبی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اس کیلئے عملے کی ساری چھٹیاں بھی ختم کرتے ہوئے پورے ہفتے کے7 روزویکسی نیشن کا کام اور مقررہ وقت بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً کراچی میں رات رات بھر محلوں میں سٹریٹ لائٹس کے نیچے کرکٹ وفٹ بال کے میچ، دن کے وقت پتنگ بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ جگہ جگہ ٹریفک جام بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک بھر کے بازاروں میں دکانوں کے کھلنے اور بند کرنے کا وقت مقرر کر دیا گیا ہے، لیکن بازاروں میں رش کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام ایسی کسی پابندی پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں۔

دوسرے صوبوں میں بھی لاک ڈاؤن توہے اوربڑے شہروں میں پھر بھی کچھ عوام اس بیماری کے نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو گھروں میں بندکئے ہوئے ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں کی عوام کے بھی وہی اطوار ہیں جو سندھ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس بگڑتی صورت کو قابو کرنے کیلئے صوبائی اور قومی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں موجود غریب لوگوں کو راشن یا کیش کی صورت میں امداد پہنچانے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو، ان حرکات کے بہت سے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی نامزد کردہ ٹائیگر فورس اپنا کام ایمانداری اور خوش اسلوبی سے کرتے ہوئے ایسے افراد کی لسٹ بنائے جو واقعی ایسی امداد کے حق دار ہوں، ایسا نا ہو کہ کورونا وائرس ختم ہونے کے بعد دوسرے قومی سکینڈلز کی طرح کورونا وائرس میں کرپشن کا ایک اور سکینڈل سامنے آجائے۔ کیونکہ اس سے پہلے بھی پاکستان پر زلزلہ اور سیلاب کی آفات کے بعد متاثرہ افراد میں بانٹی جانیوالی امداد میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے سکینڈل موجود ہیں جن کا ابھی تک کوئی سرا نہیں مل رہا۔


انڈیا میں کورونا کی چوتھی لہر اور اس لہر کے نیجے میں اٹھنے والے ایک خاص انڈین وائرس نے سر اٹھایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس انڈین وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ لندن کے معروف ہفت روزہ اکنامسٹ میں چھپنے والے سروے رپورٹ میں انڈین 47 ویں نمبر پر آنے کے باوجود برطانوی حکومت نے انڈیا کو تو ریڈ لسٹ میں سے نکال دیا لیکن پاکستان ان 50 ملکوں کی لسٹ میں تیسرے نمبر پر آنے کے باوجود ابھی تک ریڈلسٹ میں شامل ہے ۔

جس کے باعث پاکستانی نژاد برطانوی اور دوسرے یورپی شہریوں کو پاکستان جانے اور واپس آنے کیلئے ایئرپورٹس پر خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی پاکستانی اپنے ملک جانے کیلئے بے قرار بیٹھے ہیں اور کچھ ایسے بھی پاکستانی ہیں جو 5/6 ماہ سے پاکستان اپنے عزیزو اقارب سے ملنے گئے تھے اور ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ کچھ تو اس لئے پاکستان سے واپس برطانیہ نہیں آ سکتے کیونکہ انہیں یہاں آنے پر 10 روز کیلئے ہوٹل میں آئسولیٹ ہونا پڑے گا اور ان10 روز کا ہوٹل کا خرچ 1750 برٹش پاؤنڈ ادا کرنا پڑے گا جو کہ یکم اگست سے بڑھا کر 2300 برٹش پونڈ کر دیا گیا ہے۔

جس کے باعث وہ پاکستان میں ہی اس سفری پابندی کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ چند روز قبل پاکستان کے وزیراعظم نے بھی اس مسئلہ کے حل کیلئے اخباری بیان دیا تھا کہ وہ خود برطانوی وزیراعظم مسٹر بورس سے خود بات کریں گے لیکن آزاد کشمیر الیکشن اور دوسری مصروفیات میں وہ اس بات کو بھول گئے ۔ اگر خود وزیراعظم صاحب اپنے ہم عہدہ سے بات کریں گے تو شاید ان کی بات کرنے پر پاکستانیوں کی ان مشکلات میں کچھ افاقہ ہو۔

یہاں لندن میں لیبر پارٹی کی ایک پاکستانی نژادخاتون رکن پارلیمینٹ ناز شاہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی اپنی آواز بلند کی کہ ہندوستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اسے سفری پابندیوں سے آزاد ملک قرار کیوں دیا جا رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں کورونا مریضوں کی تعداد میں خاطرخواہ کمی کے باوجود ابھی تک پاکستان کو ریڈلسٹ سے کیوں نہیں نکالا جا رہا؟ بعض حکومتی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اگلے سال کے تعلیمی سیشن میں انڈیا سے ایک بہت بڑی تعداد میں طالب علموں کو انگلینڈ کی مختلف یونیورسٹیوں میں ان کی قابلیت کے مطابق سکالرشپ دیتے ہوئے داخلہ دیاجا رہا ہے، اور 2021-22 کے سیشن کا آغاز ستمبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے سے شروع ہو جائیگا۔

اس لئے ہندوستان کو ریڈ لسٹ سے نکالا گیا ہے، جبکہ پاکستان میں ابھی تک ویکسی نیشن کی شرح بھی پوری نہیں ہو سکی۔ اس لئے پاکستان میں کورونا بھی کنٹرول ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اسی وجہ سے پاکستان کو ابھی تک ریڈ لسٹ میں ہی رکھا گیا ہے۔ حالانکہ یہاں موجود بیشتر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ اس مسئلہ کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے ابھی تک صحیح معنوں میں اٹھایا ہی نہیں، اور ابھی تک پاکستان کی ایمبیسی کے عہدیدار بھی سو رہے ہیں، اگر پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے اس پر پہلے پہل ہی کوئی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہوتا اور ایسے موقع پر برطانوی حکومت پر خطوط لکھ کر دباؤ بڑھایا جاتا تو شاید انہیں اس بات کا احساس ہوتا کہ پورے برطانیہ میں رہائش پذیر لاکھوں پاکستانی کن مشکلات سے دوچار ہیں۔

اب بھی کچھ دیر نہیں ہوئی ، حکومت پاکستان کا کام ہے کہ حکومت سطح پر برطانوی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے ، اور ان سے مطالبہ کیا جائے کہ پاکستان میں کورونا کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے لہٰذا پاکستان کو ریڈلسٹ سے نکال کر امبر اور پھر گرین لسٹ میں لے آئے تاکہ برطانیہ ، پاکستان اور پوری دنیا میں پھنسے ہوئے ہزاروں پاکستانی اس ذہنی عذاب سے باہر آ سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :