نیا پاکستان۔نیا نقشہ

جمعرات 6 اگست 2020

Syed Hassnain Shah

سید حسنین شاہ

حکومت پاکستان نے چار اگست کو پاکستان کا ایک نیا نقشہ جاری کیا۔ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس نقشے کے اجراء کے بعد بہت سے لوگوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ اس نقشے سے کیا حاصل ہوگا۔اور حکومت پاکستان میدان میں کچھ کرنے کی بجائے ہوائی کام کر رہی ہے۔جس کا کوئی فائدہ نہیں اور اس سے کشمیر کی آزادی کی تحریک میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

لوگوں کے یہ سوالات ایک طرف حق بجانب لگتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے حکومتِ پاکستان نے آب تک کوئی اچھی سی پریزنٹیشن جاری نہیں کی۔اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اس نقشے کی تقریب رونمائی کے وقت اس نقشے کی اہمیت واضح نہ کر سکے۔
سبے پہلے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جموں و کمشیر کو اگر نقشے میں ڈال بھی دیا جائے تُو کیا فائدہ ہوگا۔

(جاری ہے)

آب بھی وہاں قبضہ تو بھارت کا ہی ہے۔ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ نقشہ کوئی انتظامی نقشِہ نہیں بلکہ ایک سیاسی نقشہ ہے۔جو کہ پاکستانی عوام کی سیاسی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ نقشہ پاکستان کا وہ نظریاتی نقشہ ہے کہ جو کہ ہر پاکستانی کی دل کی آواز ہے۔ ہر پاکستانی اس نقشے کے عین مطابق اپنی سرحدیں قائم کرنا چاہتا ہے۔
اس نقشے کے ضرورت اس لیے بھی موجود تھی کے پچھلے سال بھارتی حکومت نے اپنا نیا نقشہ جاری کیا تھا اور اس نقشے میں آزاد کشمیر سمیت گلگت بلتستان کو بھی اپنے نقشے میں شامل کر دیا تھا۔

یہ بھارتی نقشہ پاکستان کی خودمتاری پر حملہ تھا۔اور اس حملے کے جواب میں اس نقشے کا اجراء ضروری تھا۔ بھارت نے اس نقشے کے ذریعے اپنی سرحد افغانستان سے ملانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھارت نے عالمی دنیا میں یہ ظاہر کیا کے وہ افغانستان کا پڑوسی ہے۔اس لیے اسے بھی افغان امن میں رول دیا جائے۔ بھارت کی یہ خواہش تو پوری نہ ہو سکی۔کیوں کہ امریکہ نے بھی اسے گھاس نہیں ڈالی اور طالبان نے تو کشمیر پر بھارت کو سخت دھمکیاں تک دیں۔


اس نقشے کی افادیت یہ ہے کے اب دنیا میں پاکستان اس نقشے کو استعمال کرے گا۔ بھارت بھی اپنے نئے نقشے کو استعمال کر گا۔ اس سے دنیا میں یہ ظاہر ہوگا کہ اس علاقے میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور موجود ہے۔ مختلف قسم کے تحقیقی مواد کے لیے جب لوگ پاکستانی اور بھارتی ویب سائٹ سے نقشے اٹھائیں گے تو اُنہیں اس علاقے پر موجود لڑائی کا پتہ چلے گا اور یقیناً جب لوگ اپنی ریسرچ کے حل کے لیے اصل نقشے کی پہچان کے لیے اقوام متحدہ کے ویب سائٹ پر جا کر اس علاقے کے متعلق معلومات دیکھیں گے تُو انہیں اس مسئلے کی حقیقت کا اندازہ ہوگا۔

یوں اس نقشے کے اجراء سے یہ مسئلہ عالمی منظر نامے پر آجائے گا۔
مودی کا کشمیر والا اقدام بھارت کے لیے گلے کی ہڈی بنے گا۔ کیوں کہ کشمیر کا معاملہ شملہ معاہدے کے بعد سرد خانے کی نظر ہوگیا تھا۔ دونوں ممالک نے لائن آف کنٹرول تک خود کو محدود کر دیا تھا۔لیکن مودی کے اس اقدام کے وجہ سے یہ معاملہ ایک بار پھر عالمی منظر نامے پر آگیا۔
اس نقشے میں ریاست جونا گڑھ کو بھی پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

جونا گڑھ کی ریاست کراچی کے ساحل سے تقریباً 430 کلومیٹر دور واقع ہے۔ 1947 کے آزادی ہند قانون کے مطابق ریاستی مہاراجہ کو اختیار دیا گیا کہ کو پاکستان یا بھارت میں سے کیسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔ جونا گڑھ کے مہاراجہ نے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے 15 اگست 1947 کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کر لیا اور جونا گڑھ کی کئی عمارتوں پر پاکستانی پرچم تک لہرا دیا۔

بھارتی حکومت نے اس الحاق کو ماننے سے انکار کیا اور ریاست میں فوج کشی کر کے ریاست کو پہلے قبضہ کیا پھر یہاں کے مسلمانوں کو بیدخل کر کے ایک کٹھ پُتلی ریفرنڈم کے ذریعے اسے بھارت میں شامل کر دیا۔ پاکستان ابتداء میں جونا گڑھ کو اپنے نقشے میں دکھاتا تھا۔لیکن پھر یہ ریاست نقشے سے غائب ہوگئی۔ آب دوبارہ اس نئے نقشے میں ریاست جونا گڑھ کی پاکستانی نقشے میں واپسی ہوئی ہے۔


آب یہاں بھی بہت سے ساتھی یہ اعتراض کرینگے کے چلیں کشمیر تو ٹھیک ہے پر اس جونا گڑھ کو شامل کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے کاغذات پاکستان کے ساتھ موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان اس پر اپنی دعویداری کر سکتا ہے۔ یہ ریاست اس وقت بھارتی ریاست گجرات میں موجود ہے۔ اس دعویداری کا ایک بہت بڑا اسٹریٹیجک فائدہ ہوگا۔

سمندری قانون کے مطابق کوئی بھی ملک اپنا بحری بیڑہ دوسرے ملک کی زمین سے تقریباً 150 کلومیٹر دور رکھے گا۔ اگر پاکستان جونا گڑھ کو اپنا حصہ سمجھتا ہے تو پاکستان اس کے قریب جا سکے گا۔ بھارت اگر اس اقدام کو اقوام متحدہ میں اٹھائے گا تو پاکستان الحاق کے کاغذات پیش کر دیگا جو قانوناً درست ہیں۔اس قسم کے سمندری تنازعات جنوب ایشیائی سمندر میں موجود ہیں۔

تو پاکستان کے لیے ایسا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ اس دعویداری سے پاکستان کو بحر ہند میں ایک اچھی اسٹریٹیجک ڈیپتھ ملے گی۔
اس نقشے کا اجراء ملکی سطح پر موجود کنفیوژن کے حل کے لیے بھی ضروری تھا۔ خیبر پختون خواہ میں قبائلی علاقوں کے ضم ہونے کے بعد کوئی نقشہ جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس نقشے میں خیبر پختون خواہ کی حیثیت کو بھی واضح کر دیا گیا اور ڈیورنڈ لائن کو بھی واضح کر دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بہت ہی عجیب قسم کے پاکستانی نقشے موجود تھے۔ کورس کی کتابوں میں مختلف نقشے دیکھنے کو ملتے تھے۔ حال میں ایک نجی ٹی وی کے پروگرام اور سرکاری ٹی وی کی ایک ڈاکومنٹری میں جو نقشے دیکھئے گئے اُن میں کشمیر موجود ہی نہیں تھی۔جس پر کافی واویلا بھی مچا۔ اس نقشے کے بعد ملکی سطح پر بھی اس کنفیوژن کا خاتمہ ہوگا۔
اس نقشے کا اجراء یقیناً حکومت وقت کا ایک بہترین قدم ہے۔

لیکن یہ حکومت ہمیشہ سے اپنے مقصد کو بہتر انداز میں عوام کے سامنے نہیں رکھ پاتی۔جس کا نقصان ہمیشہ انہی کو ہوتا ہے۔ اچھا کام کرنے کے باوجود اپنے کام کو بہتر انداز سے پیش نہ کرنا اس حکومت کی بہت بڑی نااہلی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سرکری اور نجی چینلوں پر ایک ساتھ ایک بہترین پریزنٹیشن کا بندوبست کرے تاکہ عوام کو نقشے کی اہمیت سے آشنا کرایا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :