مسلم اُمہ، کیسی محبت، کیسی یاری؟

منگل 27 اگست 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سعودی عرب بھارت کے ساتھ 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی داغ بیل رکھ چکا ہے۔ اور مستقبل بعید میں یہ سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان بھی بہت حد تک واضح ہے۔ مودی نے 23 سے 24 اگست تک متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اور اس دورے کے دوران مودی کو متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ''زید میڈل'' بھی دیا گیا۔ شیخ محمد بن زاہد 2016 اور 2017 میں بھارت کے اہم دن کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کر چکے ہیں (سند کے طور پہ خلیجی اخبارات، رسائل، جرائد کا مطالعہ کیجیے کہ ہمیں مطالعہ پاکستان کے سوا آگے پڑھنے کی لگن ہی نہیں ہے)۔

اگلے مرحلے میں مودی 24-25 اگست کو ایک اور خلیجی ملک بحرین گئے۔ اور یہ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہء بحرین تھا۔ حاکمِ بحرین نے مودی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔

(جاری ہے)


 اس دورے سے ذرا ہٹ کے دیکھیں تو ایک اور اہم اسلامی ملک ایران کے ساتھ پچھلے کچھ عرصے میں بھارت نے مضبوط تعلقات استوار کیے۔ پابندیوں کے باوجود قدرتی وسائل کی خریداری اہم نقطہ ہے۔

اس کے علاوہ ایران میں انفراسٹکچر کی تعمیر کے حوالے سے بھی بھارتی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال چاہ بہار کی بندرگاہ ہے۔ ہم ہزار تاویلیں دیں، کوئی شک نہیں کہ چاہ بہار کو گوادر کے متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن ایسا کیا گیا۔ افغانستان خطے کا اہم ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی نقطہ نظر سے بھی اہم ملک ہے۔

امریکہ و طالبان میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں معائدے کے امکانات موجود ہیں۔ جس کے تحت امریکی فوجیوں کی واپسی کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں بھارت کا کردار افغانستان میں بڑھ جائے گا کیوں کہ بھارت افغانستان کی تعمیر نو کی آڑ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ قونصل خانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بلا وجہ نہیں ہے۔

جنوبی ایشیاء میں موجود ایک اور اہم اسلامی ملک بنگہ دیش کے ساتھ بھارت کے مضبوط تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور آنے والے دنوں میں ان تعلقات میں کمی آنے کی بھی کوئی امید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قطر، کویت، عمان، اردن اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ بھارت ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلقات مضبوط بنا رہا ہے۔
کشمیر کو متحدہ عرب امارات نے بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا۔

یاد رکھیے متحدہ عرب امارات کا تجارتی حجم بھارت کے ساتھ کم و بیش 50 ارب ڈالر تھا 2018 میں۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ بطور مجموعی اسلامی ممالک کا تجارتی حجم 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے۔ پاکستان کے دنیا میں سفیر یعنی شہزادہ محمد بن سلمان بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کی راہ پر ہیں۔ اور یقین رکھیے پوری مسلم اُمہ کے سعودی عرب کے لیے مسلم دنیا کے سربراہ ماننے سمجھنے کے بیانات آپ کو مل جائیں گے۔

لیکن کسی سعودی عہدیدار کا آپ کو مسلمان کشمیریوں کی حمایت میں بیان نہیں ملے گا۔ وجہ آرامکو کے امبانی گروپ کے ساتھ آئل ریفائنری معاملات اور پندرہ ارب ڈالر (بڑھتی ہوئی) کی سرمایہ کاری ہے۔ جس کے بارے میں پاکستان کے دنیا میں سفیر کہہ چکے ہیں کہ آنے والے سالوں میں یہ 100 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ کچھ ایسا ہی حال دیگر تمام اسلامی ممالک کا بھی ہے۔

ترکی نے بیانات پاکستان کے حق میں اس لیے دیے کہ اس کا بھارت سے تجارتی حجم کم و بیش 7 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایران نے بیانات کشمیر کے حق میں ضرور دیے ہیں لیکن یاد رکھیے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ ایک مثال ہے۔ افغانستان میں شراکت داری ایک اہم ترین نقطہ ہے۔ اور حکومتی سطح پہ پاکستان کے حق یا خلاف بیانات کی بہتات نہیں ہے بلکہ ایران کے مذہبی راہنماؤں کی جانب سے بیانات سننے میں آئے۔

انڈونیشیا، ملائیشیا اور چند دوسرے اسلامی ممالک نے ہلکے پھلکے انداز میں کشمیر کو یاد کیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھلا کیسے انکار ممکن ہو سکتاہے کہ بھارت اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک میں اتنی بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے کہ وہ مخالفت کھلے انداز میں نہیں کر سکتے۔ بھارتی اتنی بڑی تعداد میں مشرق وسطیٰ میں موجود ہیں کہ بھارت کی معیشت کا اہم جزو بن چکے ہیں۔

مسلمان ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی ویب سائیٹ پہ جائیے وہاں آپ کو کشمیر کے بارے میں اگست کے مہینے میں چار پریس ریلیز دکھائی دیں گی۔ آپ ان تمام کو پڑھیے اور آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کیا ان میں سے ایک پریس ریلیز بھی ایسا تاثر دے رہی ہے کہ یہ دنیا کی کل آبادی کے 25 فیصد کا ردعمل ہے؟ کیا جو کشمیر کے حوالے سے موقف اس وقت مسلمان ممالک کی سب سے بڑی تنظیم نے مسلمان اکثریت والے خطے جموں و کشمیر کے حوالے سے لیا ہے وہ حقیقی معنوں میں 57 اسلامی ممالک کا موقف ہے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں بطور اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی طاقت ملک کے اپنے مفادات کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔

ہم جن کی گاڑیاں چلاتے ہیں وہ اگر وقت پڑنے پہ ہمارے دشمن سے پیار کی جپھیاں ڈال رہے ہوں تو کیسا بھائی چارہ؟ کیسی یاری؟ ٹھیک ہے ہماری معیشت کمزور ہے۔ لیکن اس کو ترقی دینے کے انقلابی اقدامات ان ممالک کے ساتھ مل کے کیجیے جو برے وقت کے ساتھی ہوں۔ ہمارے لیے مذہبی مقامات محترم ہیں۔ لیکن ان ممالک کے وقت پہ ساتھ نہ دینے والے بادشاہوں کے ساتھ کیسا بھائی چارہ کہ ہم جب وہ پکاریں مدد کو دوڑے چلیں جائیں؟ اور اپنی فوج بھی بھیجیں؟ آخر کیوں ہم اپنے آپ کو اتنا ارزاں کیے ہوئے ہیں۔

یہ وقت مشکل ضرور ہے لیکن مشکلات سے نکلنا ہم نے نہیں سیکھنا تو پھر کون سی ترقی، کون سا دعویٰ؟
پوری ملکی سیاسی قیادت کو ایک دفعہ بٹھائیے۔ اور بات کیجیے۔ اور اگر سیاسی قیادت ان نازک حالات میں دوغلی پالیسی اپنائے تو عوام کو سب سچ کھل کے بتائیے تا کہ ایسے تمام سیاست دانوں کو ان کی اوقات دکھا دیں۔ لیکن اپنا قبلہ درست کیجیے۔ اپنے آپ کو اتنا ارزاں نہ کیجیے کہ دنیا آپ کو وسعت اللہ خان کے کالم کی طرح حقیقی بخشو سمجھ لے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :