جنوبی پنجاب اور محرومیاں

اتوار 7 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

میٹھی زبان,مخلصی, مہمان نواز,ریت کے ٹیلوں کی دن کی تپش اور رات کی ٹھنڈک,مور جیسے خوبصورت پرندے کی آماجگاہ, اولیاءکی  بستی, آموں کا گھر اور بنیادی سہولیات سے محرومی میرے جنوبی پنجاب کی پہچان ہے ۔ محبت کی بناء پر میرے اس دیس کو  "واسیب " بھی کہتے ہیں جہاں ایک شخص کا دکھ پورے گاؤں کے دکھ اور خوشی پورے گاؤں کی خوشی بن جاتی ہے ۔

تاریخی طور ہر, جنوبی پنجاب کے خدوخال اور حکمران دیکھے جائیں تو اس بات کو ہرگز جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ یہاں کے لوگ اسلام کے بام پہ بننے والی ریاست سے کتنا دلی لگاؤ رکھتے تھے ۔ بہاولپور کے نوابوں نے مشکل کے حالات میں نئ وجود میں آنے والے پاکستان کی مالی امداد بھی کی تھی ۔
سیاسی طور پر اگر دیکھا جاۓ تو یہا ں کے لوگ تعلیمی فقدان کی وجہ سے جاگیردارنہ نظام کے مفلوج ہیں ۔

(جاری ہے)

سماجی طور پر پرکھا جاۓ تو,یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے لی لیے ہمدرد ارو محبت کے جذبات رکھتے ہیں اور اجتماعیت پر یقین رکھتے ہیں ۔معاشی طور پر جانچا جاۓ تو وڈیروں کی زمینو ں میں اپنا خون پسینہ ایک کرکے سال بھر کی روزی کماتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ انتخابات میں وڈیروں سے  اپنی وفاداریاں نبھانے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ساتھ میں یہ بھی کہیں گے  "ووٹ وڈیرے دا تے جان رب دی " ۔


عقیدہ کے لحاظ سے, یہاں کے بیشتر لوگ روحانی شخصیت کے پیروکار ہوتے ہیں اور اپنے دینی معاملات انہی کے سپرد کر دیتے ہیں۔ یہ تھا میرے جنوبی پنجاب کا ایک مختصر تعارف۔ایئے اب آپ کو واسیب کےان مسائل  سے روشناس کرواتے ہیں جن کا اسلام آباد کی پرمسرت فضاؤں,لاہور کی زندہ دلیری کے ماحول,  کراچی میں مچھلیوں کی خوشبو اور پشاور کے چپلی کباب کے ذائقے کو چکھتے ہوۓ محسوس نہیں کر سکتا ۔

میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ اکر واسیب کے ناخواندہ باسی کو اسلام آباد کے سینٹورس,صفا مال کی سیر کروائ جاۓ تو اسے لگے گا اس نے جیتے جی جنت دیکھ لی ہے اور اسے واسیب دوزخ کا سب سے نچلہ حصہ ہے ۔
میرے ہی واسیب میں بنیادی سہولتوں کا یہ حال ہے کہ لوگ اور گدھے ایک ہی گندگی سے بھری ہوئ ندی سے پانی پیتے ہیں۔میرے ہی واسیب میں مریض کو گدھا گاڑی پر لادھ کر بیس بیس کلومیٹر دور ہسپتالوں میں جانا پڑتا ہے ۔

میرے ہی واسیب کے بچے چھوٹی سی عمر میں دہاڑی دار بن جاتے ہیں اور ان کے سکول اساتذہ کی کمی کی وجہ سے جانوروں کی آمجگاہ بن جاتی ہے ۔میرے ہی واسیب میں دباؤ ڈالنے کے لیے غریب کی چوری کروالی جاتی اور پھر وہی شخص وہ چیز واپس کرواکر اسے زندگی بھر کے لیے احسانات کے بوجھ تلے دبا لیتا ہے ۔
میرا واسیب ہی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں؟ میرے واسیب کے ہی سیاست دانوں کی وفاداریاں ہر سال حکمران جماعت کے ہاتھوں بک جاتی ہیں ؟ مجھے ہی ہر الیکشن میں میرے ہی حقوق کے نعرہ کا چورن کیوں بیچا جاتا ہے ؟
میرے نزدیک, جنوبی پنجاب کی لوگوں کی حالت کی وجہ ان لوگوں کی تعلیم سے دوری ہے ۔

واسیب کے لوگ سماجی اور معاشرتی طور پر وڈیروں اور جاگیرداروں کے نظام کے پسے ہوۓ ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ان سے آزادانہ راۓ تک کا حق چھین لیا جاتا ہے ۔ میرے دادا ابو ایک جاگیردار کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ انھیں اپنے علاقے کے لیے اسکول بنانے کی آفر ہوئ اور انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ اگر ان کے بچے پڑھ گۓ تو ہمارے ڈیرے پر مہمان نوازی اور چلم میں پانی کون ڈالے گا۔

ہمارے معصوم لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ایک علیحدہ صوبہ رہا ہے اور انتظامی بنیادوں پر اس حق کو حقدار تک پہنچانا, حاکمِ وقت کی ذمہ داری ہے ۔ اس دیرینہ مطالبہ کو میں اس لیے جائز سمجھتا ہوں کیونکہ پنجاب کے حکمرانوں کی نظرِکرم خواہ وہ ترقیاتی فنڈ ہو یا امدادی رقوم, پبلک سروس کمیشن ہو یا مقابلے کا پرچہ ہو, صرف اور صرف وسطی اور پنجاب کے دوسرے حصوں کی طرف ہوتی ہے ۔

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کےپی کے اور دوسرے صوبوں کے لیے ایک مختص مقابلے کا پرچہ لیا جا رہا ہے ۔مگر ایک نظر کرم جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لیے بھی, جن کی مائیں اپنے جہیز کے زیور بیچ کر اپنے بیٹے کو شہر تعلیم کے لیے بھیجتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر واسیب کے لوگوں کا آسرا بنے گا مگر ماں کو کیا معلوم کہ ہمارا حصے کی آئ ہوی سیٹیں لاہور یا راولپنڈی کے بیکن ہاؤس یا دی سٹی سکول کے  امیر زادوں کی دہلیز پر دستک دے رہی ہوتی ہیں۔


میر ے لحاظ سے علیحدہ صوبہ بنانے سے بھی ایک اشد ضروری ہے کہ جاگیردارانہ اور وڈیروں کے زیر اثر سماجی اور معاشی نظام کو بدلا جاۓاور اس سب کے لیے تعلیم کا ہونا شرطِ اول ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو بڑے سے بڑے بت خانوں کو توڑنے کی سکت رکھتا ہے۔
ایک مزدور اپنے بچے کو اسکول اسی وقت ہی بھیجے گا جب اس کو اس بات کی یقینی ہوگی کہ اسے دہاڑی اور بچے کو پڑھ لکھ کر ایک با عزت روزگا ر ملے ۔

اگر اسے, اس با ت کا یقین نہیں ہوگا تو وہ محض اپنے بچے کو ورکشاپ پر ہی بھیج سکتا ہے ۔اگر واسیب کے لوگ جنوبی پنجاب ایک علیحدہ صوبہ بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں, حقیقی معنی میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک وہ جاگیر دارانہ سماجی اور معاشی نظام کے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ لوگ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی کی زنجیروں میں پھنس جائیں گے ۔


میری راۓ کے مطابق اس کا حل اسی میں کہ پہلے ان لوگوں کا سماجی شعور اجاگر کیا جاۓ اور برابر کے معاشی مواقع دیے جائیں۔
لہذا,حاکم وقت کو چاہیے کہ لسانی تعصبات سے دور ہوکر, تمام صوبوں کو خواہ وہ بلوچستان کے دور دراز علاقے  ہو یا جنوبی پنجاب کا چولستان,ایک ہی نصاب پر مبنی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاۓ اور بنیادی حقوق خواہ آبائ صوبہ میں رہ کر یا انتظامی بنیاد پر نئے صوبے بناکر دیۓ جائیں۔
میڈا سائیں,آتیکو واسیب ڈی سیر کراوا۔ تیکوں پتہ لگے کہ اتھہاں دے لوگ کیو جئ زندگی پیہ گزریندے ۔
اللہ میڈے ملک پاکستان تے میڈے واسیب دے لوکاں دیاں تنگیاں دور فرماوے تے رل مل کے وسن دی تو فیق ڈیوے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :