کنٹینر والے عمران خان صاحب

منگل 21 جولائی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے دو دنوں سے پاکستانی میڈیا چینلز،اخبارات اور سوشل میڈیا میں جناب عمران خان صاحب کے سپیشل ایڈوائزرز سے متعلق خبریں چل رہی ہیں کہ اُنکے پانچ میں سے چار سپیشل ایڈوائیزرز کے پاس دوہری شہریت ہے ۔ جن میں ایڈوائیزپٹرولیم ندیم بابر (امریکہ)،اُورسیز پاکستانیز آفئیرزسید ذوالفقار بخاری(یوکے)، پاور ڈویژن آفئیرزشہزاد قاسم(امریکہ)اور سپیشل ایڈوائیزرڈیجیٹل پاکستان مسز تانیہ (کینیڈا)کی شہریت کے حامل ہیں جبکہ باقی سپیشل ایڈوائیزرزجناب شہباز گِل صاحب (امریکہ)، نیشنل سیکورٹی ایڈوائیزرمعید یوسف(امریکہ)، ندیم افضل گوندل( کینیڈا)اور ڈیجیٹل پاکستان ایڈوائیزرز ایدرس(سنگاپور)کی ریزیڈنسی(یا اقامہ )رکھتے ہیں۔

یہ تمام لوگ اور بہت سے دیگر ایڈوائیزرز اور مشیران کی فوج عمران خان صاحب کی کابینہ میں شا مل ہے جو بیرونِ ملک شہریت یا ریزیڈنسی (اقامہ ہولڈر)، بینک اکاؤنٹس اور جائیدادیں بنائے بیٹھی ہے۔

(جاری ہے)

یہ تمام لوگ پاکستان میں صرف مزے کرنے اور پیسہ سمیٹنے آئے ہیں جبکہ پچھلے دو سالوں میں اُنکی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ماضی میں عمران خان صاحب اپنے سیاسی کزن جناب قادری صاحب کیساتھ ملکر کنٹینر پر چڑھ کر تقریریں کیا کرتے تھے کہ حکومت کے معاملات میں صِر ف اُن لوگوں کا عمل دخل ہونا چاہیے جنکی شہریت صرف پاکستانی ہو، جنکے اثاثے اور جائیدادیں پاکستان میں ہوں ، جنکے بینک اکاؤنٹس پاکستان میں ہوں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جن کا جینا مرنا صرف پاکستان کیساتھ ہو، اپنے اِس موقف کی تشہیر کے دوران اُنہوں نے نواز شریف صاحب کی حکومت میں مشیرِہوابازی جناب شجاعت عظیم کی تعیناتی پر اعتراض اُٹھایا جس کے بعد انہیں عُہدے سے فارغ کردیا گیا۔

لیکن اُس کنٹینر والی سیاست کے آج چھ سال بعد اُنکی اپنی ایڈوائیزروں اور مشیروں کی فوج میں ایک بڑی تعداد دوہری شہریت والوں کی ہے جنکے بیرونِ ملک کڑوڑوں اور اربوں روپے کی جائیدادیں ، بینک اکاؤنٹس اور گاڑیاں ہیں۔ 2014ء کے دھرنوں کے دوران خان صاحب گلا پھاڑ پھاڑ کر ملک کی خدمت ، وفاداری، اور بیرونِ ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا درس دیا کرتے تھے۔

خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ن لیگ اور PPPکے لوگوں کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس تو باہر ہیں تو پھر عام پاکستانی کیونکر اپنی دولت اور سرمایہ کاری پاکستان لائے گا؟ آج پاکستان کی عوام نیازی صاحب سے یہی سوال پوچھ رہی ہے کہ جناب آپکے اپنے ایڈوائیزر اور مشیران کے بینک اکاؤنٹس اورجائیدایں ملک سے باہر ہیں اور اُن میں سے بیشتر نے اُن ممالک کی وفاداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے ، تو یہ لوگ کیونکر پاکستان کے وفادار ہوں گے؟ کیا ملک کے حالات خراب ہونے کی صورت میں یہ لوگ پاکستان میں رہیں گے یا ایک دم سے باہر فرار ہو جائیں گے؟اِس پر مذید یہ کہ اُنکی شہریت کا معاملہ تو ایک طرف ، کیا اُن ایڈوائیزرز اور مشیران کی کارکردگی تسلی بخش ہے ؟ کیا اِن لوگو ں کی expertiseاور قابلیت کیوجہ سے مُلکی خزانہ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہو، یا اِنہوں نے مُلکی خزانے میں بچت کا کوئی پلان دیا ہو،یا کسی قومی ادارے مثلاً ریلوے، پی آئی اے، سٹیل مِل، پی ٹی وی، سول ایویشن، ایگریکلچر، بینکنگ سیکٹر، سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز، ایکسپورٹ بڑھانے، بیرونی سرمایہ کاری لانے، نوجوانوں کی سِکل ڈویلپمنٹ بڑھانے اور نئی نوکریا ں پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ دیا ہو، پھر تو ٹھیک ہے کہ آپ اِن ایڈوائیزرز کی فوج اور شاہ خرچیاں برداشت کر سکتے ہیں اگر نہیں تو پھر آپکو اِن مشیران کی کارکردگی اور اُنکے اخراجات کا حساب عوام کو دینا ہو گا۔


پچھلے دو ، تین دن سے دوسری بڑی خبر پاکستان ٹیلی ویژن کی ماہانہ فیس میں 65روپے کا اضافہ ہے جسکے بعد پی ٹی وی کی ماہانہ فیس 35روپے سے بڑھ کر 100روپے ہوگئی ہے ۔ آپ کا دل چاہے پی ٹی وی دیکھنے کو کرے یا نہ کرے ، ہر پاکستانی صارف نے بجلی کے بِل کیساتھ پی ٹی وی کی فیس لازماً ادا کرنی ہی ہے۔ خان صاحب 2014ء کے دھرنوں کے دوران کنٹینر پر چڑھ کر پی ٹی وی کی فیس پر بھی اعتراض کیا کرتے تھے اور آئے روز پی ٹی وی کے ایم ڈی کی تذلیل بھی کیا کرتے تھے، لیکن حکومت میں آتے ہی اُنہوں نے ایسا پلٹا کھایا کہ سب کچھ ہی اُلٹا دکھائی دینے لگا ہے، پی ٹی وی کی فیس ختم یا کم کرنا تو ایک طرف خان صاحب کی حکومت نے اِس میں تین گُنا اضافے کی اجازت دے دی ہے یعنی اب عوام کی جیبوں سے لوٹ مار کا بازار خوب گرم ہے۔

خان صاحب حکومتی اداروں مثلاً پی ٹی وی، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر کی کارکردگی اور اُنکو نفع بخش طریقوں پر چلانے پر توجہ کیوں نہیں دے پاتے۔خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے پی ٹی وی سے کوئی بزنس پلان منگواتے، اِن پلانز کی assessmentکی جاتی اور اِسکی initializationکے لیے کچھ فنڈز جاری کیے جاتے، اگر یہ پلان نفع بخش ثابت ہوتا تو پھر اِس پلان کی توسیع کے لیے حکومت پی ٹی وی کی فیس بڑھانے کا اعلان کر سکتی تھی۔

لیکن کسی بزنس پلان اور بزنس آئیڈیا کے بغیر ہی صرف پی ٹی وی کے ملازمین کے نکمے پن اور نااہلی کے صِلے میں اُنہیں عوام کے پیسے سے تنخواہیں دینا سراسر ظُلم ہے، یہ کہاں کی ریاستِ مدینہ ہے؟حکومت پہلے ہی پٹرول پر تقریباً 47روپے اور ڈیزل پر کم وبیش 50روپے ٹیکس کی مد میں ڈیوٹی وصول کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مار رہی ہے ۔یہ تو اِس قدر نکمی ، کرپٹ اور نا اہل حکومت ہے کہ اِسکی بھوک تو وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کر بھی پوری نہیں ہوئی۔


پچھلے دنوں میری نظر سے گزرنے والی تیسری بڑی خبرپاکستان کرکٹ بورڈ میں بیرونی دوروں کی صورت میں ہونیوالی مبینہ بے ضابطگیاں اور شاہ خرچیاں ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پی سی بی کے چئیرمین احسا ن مانی صاحب نے گزشتہ اٹھارہ ماہ(جولائی2018سے اکتوبر2019)کے دوران سترہ بیرونِ ملک دورے کیے ہیں جن پر مجموعی طور پر 56لاکھ پچانوے ہزار روپے خرچ ہوئے۔

پی سی بی کے بیرونِ ملک دورے کرنیوالوں میں صرف احسان مانی صاحب ہی شامل نہیں بلکہ دوسرے بہت سے آفیشل بھی شامل ہیں جن کے دوروں پر مجموعی طورپرسات کڑوڑ بیاسی لاکھ روپے خرچ ہوئے۔پی سی بی میں بیرونِ ملک دوروں میں دوسرے نمبر پر جناب وسیم خان صاحب آتے ہیں جوپی سی بی کے ایم ڈی ہیں اور جنہوں نے اٹھارہ ماہ کے دوران گیارہ بیرونِ ملک دورے کیے جن پر 44لاکھ اسی ہزار روپے خرچ ہوئے۔

وسیم خان صاحب کے انٹرویو اور تعیناتی کے دوران ہونیوالی بے ضابطگیاں اپنی مثال آپ ہے۔ وسیم خان صاحب کو انٹرویو اور تعیناتی کیلئے ٹی اے ڈی اے کی مد میں چھ لاکھ سے زائد رقم پی سی بی نے ادا کی۔ وسیم خان صاحب کا تعلق برطانیہ سے ہے جب کہ اِن صاحب نے برطانیہ کے ہی چا ر دوروں پر تقریباً سترہ لاکھ چھہتر ھزارروپے خرچ کر ڈالے ہیں۔یہ صاحب یہ نوکری شروع کرنے سے پہلے برطانیہ میں مقیم تھے اور اُنکی فیملی بھی برطانیہ میں مقیم ہے یہ سب جانتے ہوئے بھی یہ صاحب یکے بعد دیگر پی سی بی کی جانب سے دھڑادھڑ برطانیہ کے دورے کر رہے ہیں۔

ابھی اِس وقت بھی یہ صاحب پاکستانی ٹیم کے آفیشیل کی حیثیت سے پاکستانی ٹیم کیساتھ برطانیہ کے دورے پر ہیں، جبکہ وہاں اُنکے قیام وطعام کے سارے اخراجات پاکستان کی غریب عوام برداشت کر رہی ہے۔ کیا یہ سب بِلاوجہ کے غیر ملکی دورے اور سیر سپاٹا کرپشن، معاشی بے ضابطگیوں اور conflict of interestکے زُمرے میں نہیں آتا اور کیا یہ پاکستانی عوام کیساتھ ظُلم نہیں ہے؟اِسکا جواب کون دے گا؟ اور کیا یہ سب کچھ خان صاحب کی ریاستِ مدینہ میں نہیں ہو پا رہا؟
میری اِس تحریر کا مقصد عوام کو یاد دلاناہے کہ خان صاحب اقتدار کی کرسی کے حصول کیلئے جو کچھ کہا کرتے تھے، کیا وہ صحیح تھا ؟ عوام کو فلاحی ریاست کے خواب دکھایا کرتے تھے ، کیا وہ صحیح تھے؟یا اب اُنکے اقتدار میں آنے کے بعد اُنکے اور اُنکے وزیروں ، مشیروں کے کام، اُنکے موجودہ بیانیے اور یہ گورننس، صحیح ہے؟میں تو اِس ساری کشمکش میں کنٹینر والے عمران خان صاحب کو تلاش کر رہا ہوں، نہ جانے کُرسی کے نشے اور اقتدار کی ہوس میں وہ کنٹینر والے عمران خان صاحب کہاں کھو گئے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :