نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کا خاتمہ اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے،

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

پیر 17 ستمبر 2018 19:16

نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کا ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 ستمبر2018ء) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے حکومت کے لئے رہنما اصول وضع کرتے ہوئے کرپشن کے خاتمے، سادگی کے فروغ، بدعنوانی سے پاک نظام، غیر ضروری پروٹوکول کے خاتمے، پسماندہ اور دور دراز علاقوں کی ترقی، پسماندہ علاقوں میں نظام تعلیم کو مضبوط کرنے، بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ اس کی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، اقوام عالم میں پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مثالی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں، توقع ہے کہ حکومت سی پیک منصوبے کو تیزی سے مکمل کرے گی، یکساں تعلیمی نظام اور دیگر سہولتوں کے ذریعے ہی انسانی وسائل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے اعلان کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں واضح پالیسیاں اور فیصلے کرنے پڑیں گے، کرپشن کے ناسور نے ملک کی اقتصادیات کو تباہ کر دیا ہے، احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا، پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومت وقت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے، توقع ہے کہ پاکستانی عوام ڈیم فنڈ کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا خطاب نئے پارلیمانی سال کا نکتہ ء آغاز ہے۔ الله تعالیٰ آنے والے دنوں کو ہمارے لئے باعث رحمت و برکت بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ان ایوانوں اور راہداریوں سے میری شناسائی اس ایوان کے رکن کی حیثیت سے کئی برس پرانی ہے۔ مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی رہی ہیں، ان کی ادائیگی کے لئے یہاں بیٹھ کر جو کچھ میں کر سکتا تھا میں نے پوری ایمانداری اور صلاحیت کے مطابق انجام دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اپنے رفقائے کار خصوصاً ارکان پارلیمان اور ممبران صوبائی اسمبلیوں کا مشکور ہوں کہ مجھے پاکستان کے سب سے بڑے آئینی عہدے کے قابل سمجھا۔ میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریاں سرانجام دوں گا۔ میں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں اس سلسلے میں بھی دعا گو ہوں کہ مجھے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ہمت، طاقت اور توفیق عطاء فرمائے۔

مجھے پوری امید ہے کہ اس سلسلے میں ساتھی اراکین پارلیمنٹ بھی میرا بھرپور ساتھ دیں گے تاکہ ہم سب الله تعالیٰ کی بارگاہ اور عوام کی عدالت میں سرخر و ہو سکیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام مختلف وجوہات کے باعث عدم استحکام کا شکار رہا ہے مگر یہ امر اطمینان بخش ہے کہ ہماری گزشتہ تین اسمبلیاں اپنی معیاد پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ ایک سیاسی کارکن اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی وجہ گروہی مفادات اور بے انتہاء کرپشن ہے۔ انتخابات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ عوام بے ایمانی سے تنگ آ چکے ہیں اور ایک پاک معاشرہ چاہتے ہیں۔ کرپشن کو قابو کرنے میں جہاں صاف اور شفاف نظام ضروری ہے وہیں احتساب کے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بلا خوف و امتیاز اپنا کام سرانجام دیں۔

میرا ایمان ہے کہ عوام کی خواہشات کے احترام میں ہی حکومتوں کی کامیابی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا عزم کیا ہے اور اسی نعرے پر وہ انتخابات کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں نئے پاکستان کی سب سے بڑی شناخت سادگی کا فروغ، غیر ضروری پروٹوکول کا خاتمہ اور بدعنوانیوں سے پاک نظام ہے۔

ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ہم ایک مقروض قوم ہیں اور ہمیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے بجائے قرض ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ معاشیات کے مروجہ اصولوں اور پاکستان کے قانون کے مطابق جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح کو 60 فیصد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم اپنے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

ہمارے اوپر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے پہاڑ خطرناک حد تک زیادہ ہو چکے ہیں جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں سادگی کو اپنانا ہوگا اور بے جا نمود و نمائش کے لئے اصراف سے گریز اور ضرورتوں کو محدود کرنا پڑے گا۔ ان اصولوں کو اپنا کر درست سمت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے حضور اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے۔

الله کے رسولﷺ نے اپنے آخری خطبے میں یہ ہدایت کی تھی کہ کسی انسان کو دوسرے انسان پر رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد مساوات، عدل اور باہمی بھائی چارے کی بنیاد پر ہی رکھی گئی ہے۔ اس بات کو مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے فلسفہ میں اجاگر کیا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے جس میں انصاف اور عدل کا نظام قائم ہو۔

عوام کو بنیادی ضروریات دستیاب ہوں اور ریاست عوام کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جن کی آئین پاکستان ضمانت دیتا ہے۔ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 38 (بی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مملکت تمام شہریوں کے لئے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیاء کرے۔ انہوں نے آرٹیکل 38 (ڈی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مملکت ان تمام شہریوں کیلئے جو کمزوری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہیں کما سکتے ہیں بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیاء کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پروگرام کے مطابق مختلف معاشی اور رہائشی منصوبوں پر کام شروع کر کے روزگار اور رہائش کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گئے تو یہی تبدیلی ہوگی اور یہی ’’نیا پاکستان‘‘ ہوگا جس میں ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے اور ہمارے بچے پورے اعتماد کے ساتھ ایک نئی پرامن اور خوبصورت دنیا کی تشکیل میں حصہ دار بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قومیں مسائل سے دوچار ہو جایا کرتی ہیں اور بعض اوقات مسائل اتنے زیادہ اور گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ترجیحات کا تعین ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے لیکن زندہ اور باہمت قومیں مشکلات سے گھبرایا نہیں کرتیں بلکہ جوانمردی اور حوصلے سے مقابلہ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ من حیث القوم ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے۔

ہمارے کھیتوں کا دہقان ہو یا ہماری عدلیہ کے افراد، ہماری فوج کا سپاہی، سول سروس کا نمائندہ یا ہمارے قلم کار، پاکستان کے دور دراز علاقے کا باسی ہو یا بیرون ملک رہنے والا ہمارا وطن، ہر ایک شخص اپنے تئیں حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہے۔ ہمارے سمندر پار پاکستانی جس شوق اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ بہت خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں حکومت وقت اور دیگر تمام جماعتوں کے رہنمائوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس موقع پر موجود عوام کے جذبات اور احساسات کو دیکھتے ہوئے بہت تیزی اور جانفشانی سے ملک کی سمت درست کر دیں۔ مجھے توقع ہے کہ حکومت ہر شعبے میں واضح روڈ میپ مرتب کرے گی اور صاف شفاف ٹرانسپیرنٹ گورننس کو یقینی بنائے گی۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شمار ہو چکا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

ہمارے ہاں پانی کی کمی کے باعث زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقے پانی کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر بھی انتہائی مضر اثرات رونما ہو رہے ہیں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ اور گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

فضائی اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی آب و ہوا متاثر ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں شجرکاری پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اور نئے ڈیم بھی بنانے ہوں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پانی کے ذخائر کی تعمیر حکومت وقت کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ہمارے عوام اور بیرون ملک پاکستانی، چیف جسٹس اور وزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دیں گے اور اس کے نتیجے میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے سرمایہ دستیاب ہو سکے گا اور زرمبادلہ کی کمی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کے ضیاع کو روکنے پر بھی توجہ دینا ہوگی، اس سلسلے میں دو اقدامات ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ آب پاشی کے نظام کو مزید موثر بنایا جائے اور نہروں و راج باہوں کے ذریعے پانی کے رسائو پر قابو پانے کے لئے بھرپور اور جامع حکمت عملی تیار کر کے اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے گا۔ فلڈ ایری گیشن کے بجائے ڈرپ ایری گیشن کو فروغ دیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلی لانا ہوگی اور پانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ہوگا۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے وضو کرنے میں بھی میانہ روی اختیار کرنے اور اصراف سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پانی اور اس سے متعلقہ مسائل سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ ناگزیر ہے کہ توانائی اور بجلی کے معاملات پر بھی فوری توجہ دی جائے۔

بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر بنایا جائے۔ لائن لاسز کم کئے جائیں اور بجلی کی چوری کا سدباب کیا جائے۔ الله تعالیٰ کے فضل و کرم سے شمالی علاقہ جات، آزاد کشمیر اور وطن عزیز کے بعض دیگر علاقے پانی کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان علاقوں کا ماحول بجلی کی تیاری کے سلسلے میں قدرتی طور پر سازگار ہے۔ متعلقہ وزارتوں اور حکام کو دریائوں کے بہائو پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو مزید بڑھانا چاہئے۔

ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا چاہئے تاکہ جہاں بھی بجلی پیدا ہو رہی ہو وہ نیشنل گرڈ سے منسلک ہو جائے تاکہ ملک بھر میں بجلی کی ترسیل کا نظام مربوط شکل اختیار کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری نصف سے زائد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبے کی ترقی بھی آبی ذخائر میں اضافے سے مشروط ہے۔

موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں قوم سے اس شعبے کی ترقی کا وعدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں زرعی ادویات، کھاد اور دیگر زرعی سازوسامان کی مناسب قیمت پر فراہمی کے لئے ایک موثر اور جامع پالیسی ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں ماہرین اور کاشتکاروں کے ساتھ ضروری صلاح مشورے کا نظام بھی قائم کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اراکین پارلیمان، تعلیم اور صحت کے معاملات میں بھی عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بعض دیگر حصوں میں اچھی اور حوصلہ افزاء مثالیں سامنے آئی ہیں لیکن آبادی کا دبائو بہت زیادہ ہے اور وسائل محدود ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا اور ملک میں تعداد کی بجائے تعلیمی معیار کو عام کرنا ہوگا۔ میں اپنے پارلیمنٹیرینز اور میڈیا سے چاہوں گا کہ وہ لوگوں میں زچہ و بچہ کی صحت اور چھوٹے کنبے کی افادیت کی اہمیت کو بھی اجاگر کریں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ان کے لئے تعلیم، روزگار اور اعلیٰ ترین سطح سے لے کر نچلی سطح تک انہیں بااختیار بنانے کی پالیسیاں وضع کی جائیں۔ خواتین کو بااختیار بنائے بغیر کسی بھی ملک کی ترقی کا خواب کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین بہت محنتی ہیں اور جو خواتین تعلیم حاصل کر چکی ہیں وہ ہر جگہ نمایاں نظر آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں اور قومی معاملات میں شامل کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ وہ ملک، معیشت اور معاشرے میں ہماری معاشرتی روایات کے مطابق بلاخوف و خطر اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ ہمارے مذہب اور ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی اسی بات کی تلقین کی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہماری تقریباً 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ہمیں ان کے لئے میرٹ، صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی روزی تلاش کر سکیں۔ ان کی فنی تربیت کرنا ہوگی تاکہ وہ مناسب ملازمت ڈھونڈ سکیں۔ کاروبار شروع کرنے کے لئے چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے عمل کو آسان اور یقینی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ذرا تصور کیجئے کہ ہم ان سکلڈ لیبر کی بجائے سکلڈ لیبر کو دوسرے ممالک میں ایکسپورٹ کریں تو جہاں وہ بہتر اور باعزت روزگار حاصل کرسکیں گے وہیں وہ پاکستان کے لئے بہتر شناخت کا باعث بھی بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لئے کھیلوں کے میدانوں کو بھی آباد کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ فنون لطیفہ کی طرف بھی رغبت دلانا ہوگی اور معاشرے کے دانشوروں کی آراء کو پالیسی سازی کے عمل میں شامل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں کی نشونما عالمی معیار سے کہیں کم ہے۔ ہمارے بچے خوراک کی کمی کے باعث ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہیں۔ ان بچوں اور ان کی مائوں کو مناسب غذا نہیں مل رہی اور ہمارے ذہنوں میں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہئے کہ سماجی ناہمواری اور غربت سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔

اس لئے علاقائی، معاشی اور سماجی ناہمواری کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے خاص طور پر ہمیں بلوچستان اور دیگر دور دراز علاقوں کی تعمیر اور ترقی پر توجہ دینا ہوگی۔ آئین پاکستان میں ایک اچھا سوشل کنٹریکٹ موجود ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اس پر عمل ہو ہی نہیں رہا۔ میں نئی حکومت سے امید رکھتا ہوں کہ اس سوشل کنٹریکٹ کو ملک میں لاگو کریں گے تاکہ ایک نیا پاکستان وجود میں آ سکے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہمیں اپنے ہیومن کیپیٹل میں انویسٹ کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔ یہ کام صرف اور صرف یکساں تعلیمی نظام اور دیگر سہولتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ملک کے طول و عرض اور خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں نظام تعلیم کو مضبوط بنایا جائے۔ تعلیم کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کے تجربے کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ صرف حکومت کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی تعلیم عام کی جا سکتی ہے اور اس کا معیار بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق تقریباً تیس لاکھ سے زائد بچے دینی مدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے طلباء کو مین سٹریم میں لا نے کے لئے جدید نصاب تعلیم کو دینی نصاب تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہئے تاکہ یہ بچے تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ زندگی میں اپنا مثبت اور جاندار کردار ادا کر سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت علمائے کرام کی مشاورت سے ایک متفقہ لائحہ عمل بنائے اور اس پر مستعدی سے عمل کرے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے اعلان کے بعد جلد از جلد اس قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے فاٹا کے عوام کی امیدوں اور توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں واضح پالیسیاں بنانی پڑیں گی اور فیصلے کرنے پڑیں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بعض مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج مسئلوں سے گھری ہوئی معیشت ہے۔

کرپشن کے ناسور نے ملک کی اقتصادیات کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ صنعتیں بند ہیں، بے روزگاری عروج پر ہے اور ملک اس وقت قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ قرضوں اور ان کے اوپر سود کی ادائیگی میں صرف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بیلنس آف ٹریڈ بھی دگر گوں ہے۔ ہمارے برآمدات اور درآمدات میں توازن نہیں ہے۔

ملک کی معیشت پر گردشی قرضوں کا بوجھ پچھلے سالوں میں بڑھ کر 100 ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستانی روپیہ کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مہنگائی اور افراط زر میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اثر عام آدمی خاص طور پر تنخوا دار طبقہ پر پڑا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی معیشت کی بحالی کے لئے تندہی سے کام کریں اور غربت کی نچلی سطح سے باہر نکلیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کی سمت کو درست کرنا اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہوں گا کہ حکومت مالیاتی خسارہ کم کرے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی کے ملکیتی اداروں کے مسائل کو حل کرے اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں بنائے اور سرمایہ کاری کرنے کے عمل کو آسان بنائے۔ اس میں مختلف محکموں کے کردار کو کم اور صوابدی اختیارات کو ختم کرے اور انہیں ایک محدود وقت میں اجازت نامہ دینے کا پابند کرے۔

ہمارے بینکوں اور سرمایہ کاروں کو اس سلسلے میں پرو ایکٹو ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنا ہوگا تاکہ ملک میں خودانحصاری کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں۔ ملک کے تمام ایوان ہائے تجارت اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں اور اپنی تجاویز سے حکومت کو آگاہ کریں تاکہ ضروری پیشرفت کی جا سکے۔

صدر مملکت نے کہا کہ الله کے فضل و کرم سے پاکستانی عوام کی استقامت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جہد مسلسل اور قربانیوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پایا جا چکا ہے اور انتہاء پسندی کے اثرات بھی سمٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں افواج پاکستان کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت انسداد دہشت گردی کے حوالے سے دنیا میں سب سے کامیاب اور تجربہ کار فوج ہماری ہے۔

دنیا کو ہم سے سیکھنا چاہئے۔ اس موقع پر میں اپنی جانب اور عوام کی جانب سے تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ شہداء نے عظیم ترین قربانیاں پیش کر کے ہمارے ملک کی آبیاری کی ہے۔ الله تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے خاندانوں کو صبر جمیل عطاء کرے۔ آمین۔ انہوں نے کہا کہ نظام انصاف کی جانب توجہ بھی لازم ہے تاکہ غریب عوام نسلوں تک مقدمات کے چنگل میں پھنس کر مسائل کا شکار نہ ہوتے رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک بالخصوص اور دیگر اقوام عالم کے ساتھ اچھے تعلقات کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خارجہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین، امریکہ، ایران اور ترکی کے وزرائے خارجہ اور سعودی عرب کے وزیر اطلاعات کے حالیہ دورہ پاکستان اور ہمارے وزیر خارجہ کا دورہ افغانستان سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی آئی ہے۔

انشاء الله العزیز بیرونی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں من حیث القوم اقوام عالم کے ساتھ بالعموم اور اسلامی دنیا کے ساتھ بالخصوص اچھے تعلقات مربوط کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین تعلقات مثالی دوستی اور باہمی اعتماد پر محیط ہیں۔ ہزار موسم، لاکھ امتحان آئے لیکن پاک چین تعلقات ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ہوتے گئے ہیں۔

موجودہ حکومت پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی بھرپور حمایت کرتی ہے جس سے خطے میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت سی پیک کے منصوبے تیزی سے مکمل کرے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور خطے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ اسی طرح وسط ایشیاء کے ساتھ مختلف تجارتی و توانائی کے منصوبوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے گا تاکہ معیشت کی ترقی کے اہداف کو یقینی بنایا جا سکے۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور ہمیں معیشت، دفاع، ثقافت اور دیگر تمام شعبوں میں باہمی تعاون میں مزید اضافہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات خصوصی نوعیت کے حامل ہیں جو نہ صرف ہمارے درمیان بلکہ اس پورے خطے میں استحکام کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔

ہمارے اس ہمسایہ ملک میں دیرپا امن سے ہمارے لئے اور خطے کے لئے تجارت کی نئی راہداریاں کھلیں گی اور ہم اس سلسلے میں ہمیشہ انتہائی خلوص سے کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ہر مثبت قدم کا خوش دلی سے خیرمقدم کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے تنازعے کا حل دونوں ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کے لئے لازم ہے۔ تصادم اور الزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام مقبوضہ کشمیر کی عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہر سطح پر کاوشیں جاری رکھے گا۔ کشمیری عوام نے اپنے حق خودارادیت کے لئے اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کی ہے۔

کشمیری عوام کو ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھنا قابل مذمت ہے۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی حالیہ رپورٹ ہمارے موقف کو تقویت دیتی ہے۔ عالمی برادری اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جارحیت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب کے آخر میں تمام ارکان پارلیمان کو اس ایوان کا حصہ بننے پر مبارکباد دی اور دعا کی کہ الله تعالیٰ انہیں پاکستانی عوام کی فلاح و ترقی کے لئے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام عالم میں پاکستان ایک ذمہ دار اور باوقار ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ f-zaa-msf-atr/mhs-mhn/yas/saj 1801 ;@ }خ*…ً$}خ*…ً }خ*…ً$}خ*…ً }خ*…ً})}$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی* `mخ*ی*S `mخ*ی*("`mخ*ی* `mخ*ی*$`mخ*ی*" `mخ*ی*H`mخ*ی* `mخ*ی*X`mخ*ی* `mخ*ی*R`mخ*ی* `mخ*ی*6+`mخ*ی* `mخ*ی*F`mخ*ی* `mخ*ی*ٌ%`mخ*ی*$ `mخ*ی*`mخ*ی* 222)~ؐ۵ل*2@~ؐ۵ل*2@~ؐ۵ل*2 %~ؐ۵ل*2~ؐ۵ل*2 ;ي۰L۸mؐ:;ًم/ ٹ*:م/wآ*(U…ًہ**ؐTUtؓ*ف*>Tؓ*،ْl! ٹ*(>،ْ>@(>/۶۹ ٹ*/0 �*چ*غو*ؐEF:ُ2Eُ2؛س*M؛س*ِ،ْٹ*ِj`,ی*{ؐ+,P۔Kj#+۔}Pjٹ*!#}P}P!}P۷|ٹ*۷غھ*8غھ*#j4ی*.{ؐٹ*41!!X ی*.{ؐٹ*