سوڈان کے بعد عمان اور بحرین اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار

عربوں کے ایران سے مسلح تصادم کی صورت میں علاقائی تنازع کے تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے . ایڈیٹراردوپوائنٹ میاں محمد ندیم کی چشم کشا تحقیقاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 19 اگست 2020 20:32

سوڈان کے بعد عمان اور بحرین اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔19 اگست ۔2020ء) متحدہ عرب امارات اور سوڈان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہونے کے بعد دو عرب ملک عمان اوربحرین آنے والے چند دنوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اعلان کرسکتے ہیں یہ دونوں عرب ممالک بھی متحدہ عرب امارات کی طرح سعودی عرب کے زیر اثر ہیں . متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اعلان اور سعودی عرب کے بدلے رویئے سے پاکستان کی پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے سعودی‘اماراتی اور کویت سمیت ریاض کے زیراثر عرب ممالک میں بڑی تعداد میں پاکستانی لیبر موجود ہے اور یہ اسلام آباد کی بڑی کمزوری ہے .

(جاری ہے)

پاکستان نے کبھی بھی ایسی پالیسی پر توجہ نہیں دی کہ بھارت کی طرزپر منظم ادارے بنائے جائیں جو مختلف شعبوں میں شہریوں کو ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ انگریزی‘عربی اور دیگر زبانیں سکھائی جائیں اس کے ساتھ ساتھ عربوں پر انحصار کی بجائے نئی جاب مارکیٹس تلاش کی جائیں دنیا میں کامن لیبر کی مانگ کم ہورہی ہے جبکہ ہنرمندوں کی مانگ ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے.

سعودی عرب کی جانب سے حال ہی ”ناراضگی“ کا اظہار اور معاشی دباﺅ بڑھانے کے لیے وقت سے پہلے قرض کی رقم واپس مانگنا اور موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی بند کرنے کے پیچھے سالوں سے عربوں اور اسرائیل کی بیک ڈور ڈپلومیسی کارفرماہے اسلامی دنیا میں چونکہ فوجی طاقت کے لحاظ سے پاکستان سب سے طاقتور ملک ہے اور دنیا اسلام کی واحد ایٹمی سپرپاور ہے لہذا اسرائیل ہمیشہ اس سے خائف رہا ہے .

دنیا میں اپنا وجود برقراررکھنے کے لیے فوجی طاقت کے ساتھ معاشی طور پر مظبوط ہونا بھی ضروری ہے یہ افغان سوویت وار میں ثابت ہوچکا ہے اسلام آباد کے لیے لازم ہے کہ وہ عربوں کی بلیک میلنگ سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے تو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کالونیل بیوروکریٹک سسٹم کو ختم کرئے اور ملک کو چلانے کے لیے فوری طور پر ایک نیا نظام مرتب کیا جائے جوکہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے بس کی بات نظر نہیں آرہا.

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ‘بیوروکریسی اور اشرافیہ دو سو سال پرانے اس فرسودہ نظام کو اس لیے تحفظ فراہم کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے سود مند ہے لہذا تمام تر وسائل ہوتے ہوئے بھی معاشی خودمختاری کا خواب ابھی شرمند تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا پاکستان میں ریکوڈیک منصوبہ ہویاتیل وگیس نکالنے کے پراجیکٹس 72سالوں میںملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے والے منصوبے ہمیشہ بیوروکریسی کے سرخ فیتے کی نظر ہوتے نظر آئے ہیں .

سیاست‘بیوروکریسی ‘اعلی عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں چند خاندانوں کا ”راج“چلا آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مایوسی کا کار ہوکر ملک سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جس کا تقریبا ہر دوسرا شہری بیرون ملک جاکر بسنے کے خواب دیکھتا ہے جس کی بنیادی وجہ کرپشن‘اقربہ پروری‘اشرافیہ کا راج اور غیرمستحکم پالیسیاں ہیں ‘حال ہی میں عالمی غنڈوں کے بلیک میلنگ کے لیے بنائے گئے اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے جو پالیسیاں اپنائی ہیں ان سے تحریک انصاف کے منشور کے تحت بیرون ملک سے سرمایہ کاری کیا آنی تھی پاکستانی سرمایہ کار بیرون ممالک بھاگ گئے ہیں .

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری آج بنگلہ دیش‘چین‘سری لنکااور برما منتقل ہوچکی ہے کیونکہ مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے لے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے معاشی منیجر مختلف امیرکی شہریت رکھنے والوں اور غریب ممالک کوقرضوں کی دلدل میں پھنسانے والے اداروں کے ایجنٹ ”درآمد“کرکے ملکی معاشیات ان کے حوالے کردیں جنہوں نے ایسی معاشی پالیسیاں بنائیں جس سے آج پاکستانی شہری کے لیے معمولی بنک اکاﺅنٹ تک کھلوانا تقریبا ناممکن ہوچکا ہے‘انہی پالیسیوں کی وجہ سے بجلی اور گیس سمیت دیگر یوٹیلٹی کی قیمتیں آج پورے براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ ہیں .

ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ کار اپنی انڈسٹری اور سرمایہ اٹھاکرپاکستان سے بھاگ گیا موجودہ حکمرانوں کا مکمل انحصار بھی ان ”درآمد شدہ“معاشی منیجروں اور وزیروں ‘مشیروں پر ہے پاکستان کے لیے فوری طور پر آزدانہ پالیسیاں بنانا ممکن نہیں اس لیے ہم سعودی عرب اور امارات سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے بلیک میلنگ اور دباﺅ کا شکار ہیں ہمارے پاس آپشن محدود ہیں ایک آپشن تو یہ ہے کہ ہم ریاض‘ابوظہی کی خواہش پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ایبل نارمل سے نارمل پر لے آئیں یا پھر اپنی لیبر اور ہنر مندوں کے لیے افریقہ یا کوئی دوسری مارکیٹ تلاش کریں اس کے ساتھ ساتھ تیل کے لیے عربوں پر انحصار کرنے کی بجائے ایران سے تیل درآمد کریں مگر اس کے لیے ہمیں عربوں کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت بھی مول لینا ہوگی جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے .

چین ‘ترکی‘روس ‘ایران اور پاکستان کا بلاک ابھی بہت دور کی باتیں ہیں فوری طور پر ہمارے پاس تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عربوں کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے لہذا یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ چاہے سفارتی تعلقات قائم نہ کرئے مگر اندورن خانہ مشرف دور کے دور حکومت کے دوران ترکی میں شروع ہونے والے پاک اسرائیل مذکرات کو بحال کردیا جائے جوکہ 2008میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی حکومت اور 2013میں قائم ہونے والی مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں بھی کسی نہ کسی سطح پر جاری رہے .

عرب ملک جن خدشات کی بنا پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں ان میں ایک بھی عنصر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کے طے کردہ مسلمہ اصولی موقف سے انحراف کا جوازتو نہیں بن سکتا مگر” زمینی حقائق“ اسلام آباد کو مجبور کرسکتے ہیں . ملکوں کے تعلقات کو جذباتی انداز سے دیکھنا اور سمجھنا بنیادی غلطی ہے اﺅل تو پاکستان اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے تعلقات پہلی بار تناﺅکا شکار نہیں ہوئے اور اس تناﺅکو باقی دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور پیشرفت سے الگ رکھ کر دیکھنا ناسمجھی ہوگی جہاں تک پہلی آزاد خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو پالیسیاں وقت کے ساتھ تشکیل پاتی ہیں اور اسی اعتبار سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں کبھی بھی حکومتوں کی تبدیلی مستقل ریاستی پالیسی پر اثرانداز نہیں ہوتی .

2010ءمیں وکی لیکس نے امریکی سفارتی مراسلے شائع کیے تھے اور انکشاف ہوا تھا کہ اس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ پاکستان کے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور ان کے لیے کرپٹ کا لقب استعمال کیا کرتے تھے سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں ایران سے قربت سعودی شاہوں کے مزاج کو ناگوار تھی تب بھی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گرم جوشی پہلے جیسی نہیں تھی‘صورتحال اس حد تک خراب ہوچکی تھی کہ شاہ عبداللہ نے پاکستان میں فوجی حکومت کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا درحقیقت یہ ناپسندیدگی دو حکمرانوں کے درمیان معاملہ تھا اور ریاستوں کی پالیسی نہیں بدلی تھی .

پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی حکمرانوں کے درمیان معاملات پرانی ڈگر پر آگئے تھے اور سعودی عرب نے قرض کے بجائے ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ یا گرانٹ دی تھی تحریک انصاف کی حکومت بنی تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان کے سعودی روابط کمزور ہیں اور شاید انہیں کچھ مدد نہ مل پائے لیکن 3 ارب ڈالر قرض کے ساتھ 3 ارب ڈالر ادھار تیل مل گیا تھا دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تناﺅ کی بڑی وجہ پاک ایران تعلقات میں گرمجوشی بھی ہے‘اس کے علاوہ دسمبر 2019ءمیں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشمکش کی کہانی سامنے آئی جب کوالالمپور میں ہونے والی 5 ملکی سربراہ کانفرنس سے پاکستان سعودی دباﺅ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا کوالالمپور میں پاکستان، ترکی، قطر اور ایران کے سربراہان کو بلایا گیا تھا اور اس اجلاس کو او آئی سی کے متبادل پلیٹ فارم کی تشکیل کی جانب پیشرفت سمجھا جارہا تھا پاکستانی وزیراعظم نے کوالمپور سربراہ کانفرنس میں عدم شرکت پر سعودی دباﺅ کو ترک صدر طیب اردگان کے ذریعے بیان کردیا جس پر ریاض نے سخت ناپسندیدگی کا اظہارکیایہی وجہ ہے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان اور بھارت کے دوران اعلان کردہ سعودی سرمایہ کاری کے منصوبوں میں سے بھارت کے لیے اعلان کردہ کئی منصوبوں پر عمل شروع ہوچکا ہے اور متحدہ امارات نے بھی بھارت کے لیے سعودی عرب سرمایہ کاری میں بھاری حصہ ڈالنے کا فوری اعلان کیا تھا مگر پاکستان میں یہ منصوبے ابھی تک کاغذوں پر موجود معاہدوں کی حد تک محدود ہیں .

پاکستان پر سعودی دباﺅ کی کہانی ترک صدر رجب طیب اردگان کی زبانی سامنے آئی تھی اور پھر تفصیل نکلتی چلی گئی اس ممکنہ اتحاد کو واشنگٹن میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا تھا اور مالی مسائل کے شکار پاکستان کو سعودی عرب کا دباﺅسہنا پڑا عرب خلیجی ریاستیں قدامت پسند شاہی نظام پر کھڑی ہیں جبکہ گیس کی دولت سے مالا مال قطر، مسلم آبادی والا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا، یورپی یونین میں شمولیت سے بیزار جدید ترکی اور مسلم دنیا کی واحد جوہری طاقت پاکستان خود کو مسلم دنیا میں قائدانہ کردار کے ساتھ دیکھتے ہیںترکی اور قطر کا اتحاد نیا نہیں لیکن عرب دنیا نے جب قطر کا مقاطعہ کیا تو ترکی کھل کر قطر کے ساتھ کھڑا ہوا اور اس اتحاد کو زیادہ موثر انداز سے دیکھا اور سمجھا گیاقطر اور ایران کے گیس ذخائر سانجھے ہیں اور ان کا تعلق بھی اٹوٹ سمجھا جاتا ہے .

عرب دنیا کی طرف سے مقاطعہ کے اعلان سے پہلے بھی قطر اور ایران کے تعلقات پرجوش رہے ہیں قطر عرب بادشاہتوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہے، جبکہ ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے ہی اچھے نہیں اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ترکی نے سی آئی اے سمیت کئی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سعودی قونصل خانے کی ٹیپس تک رسائی دے کر جو زک پہنچائی تھی وہ بھی ابھی تک سعودی یادداشت سے محو نہیں ہوئی .

مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات میں ترکی کا اپنا ایک کردار رہا ہے شام اور لیبیا میں ترکی اب بھی متحرک کھلاڑی ہے اور عرب بادشاہتوں کے مقابل کھڑا ہے شام میں ترکی اگرچہ روس کے مقابل ہے لیکن روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم خرید چکا ہے آنے والے دنوں میں ترکی روس سے جدید لڑاکا طیارے سخوئی ففٹی سیون بھی خرید سکتا ہے، جس کے لیے اسے امریکا ایک طرح سے خود مجبور کر رہا ہے اور ترکی کو روس کی طرف دھکیل رہا ہے کشمیر اور فلسطین پر ترکی کا موقف ڈھکا چھپا یا معذرت خواہانہ نہیں اسی وجہ سے وہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تقریباً تمام روابط توڑ چکا ہے اور امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ایک ڈھکوسلا ثابت ہوچکی ہے .

لداخ میں چین بھارت تصادم کے بعد امریکا کھل کر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور چین کے مقابلے میں اسے خطے میں بھارت کی زیادہ ضرورت ہے، یوں برسوں سے اتار چڑھاﺅکے شکار اتحادی اسلام آباد اور واشنگٹن میں پہلے جیسی قربت نہیں رہی اور امریکا افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کی جس قدر مدد چاہتا تھا وہ پوری ہوچکی ہے‘امریکا جلد سے جلد افغانستان سے پیچھا چھڑانے کے چکر میں ہے اور اسلام آباد کی طرف سے روس افغان جنگ کے بعد تنہا چھوڑ دیے جانے کے شکوﺅں کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں .

ایک امریکی جریدے کے مطابق پاک امریکا تعلقات میں سعودی عرب ایک اہم عنصر تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ذاتی دوستی اور قربت کے باوجود واشنگٹن کے تعلقات ریاض کے ساتھ زیادہ گرم جوش نہیں امریکی عدالت سعودی ولی عہد کو سابق سعودی انٹیلی جنس عہدیدار سعد الجبری کے مبینہ قتل منصوبے پر سمن جاری کرچکی ہے اس سے پہلے امریکا سعودی عرب سے پیٹریاٹ میزائل بھی واپس منگوا چکا ہے‘امریکی سی آئی اے کی سربراہ، جو ترکی میں امریکی سفیر بھی رہ چکی ہیں اور ترک زبان بھی جانتی ہیں، وہ سعودی ولی عہد کی بجائے سعد الجبری کی طرف دار ہیں .

جریدے کا کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں تو امریکا سعودی عرب تعلقات مزید بگاڑ کی طرف جائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن جمال خاشقجی کیس میں سعودی حکام کو سبق سکھانے کے بیانات دے چکے ہیں . ادھرحال ہی میں چین ایران اسٹریٹجک معاہدے اور 400 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی خبریں شائع ہوئی ہیں جو خطے میں ایک اور بڑی تبدیلی ہے ایران امریکی دباﺅ اور پابندیوں کا شکار ہے ایسے حالات میں اگر چین پورے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہ بھی کرے تو چین کی طرف سے رقم کا سہارا اور ڈالر سے ہٹ کر تیل کی خریداری کا معاہدہ پابندیوں میں جکڑے تہران کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں اس معاہدے کی خاطر ایران اپنے پرانے دوست نئی دہلی کو بھی بھلا کر آگے بڑھ رہا ہے، یہ بھی ایک بڑی تبدیلی ہے .

امریکا چین کشیدگی اور دو کیمپوں میں تقسیم ہوتی دنیا بھی نئے امکانات کے در وا کر رہی ہے چین مشرق وسطیٰ میں بیک بنچر کا کردار چھوڑ کر متحرک ہونے کا اشارہ دے چکا ہے شام کے ساتھ اس سال مارچ میں ہونے والا اقتصادی تعاون کا معاہدہ اس کا ثبوت ہے امریکا خطے میں سیکیورٹی کا ضامن ہونے کے کردار سے خود دستبردار ہو رہا ہے اور سعودی عرب سے سیکیورٹی کے بدلے مزید رقوم کا تقاضا کرتا آرہا ہے .

کورونا وائرس کی وبا اور تیل قیمتوں میں کمی کے سبب دباﺅ کے شکار خلیجی ممالک تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں، وہ موجودہ معاشی حالات میں ایران کے ساتھ تصادم کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور ناقابل اعتماد امریکا کی خاطر اپنی معیشت کو داﺅ پر نہیں لگا سکتے جبکہ اسرائیل اور امریکا سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ایران کے ساتھ مسلح تصادم ان کے حق میں جاتا ہے اس لیے وہ عربوں کو بھی ایران کے خلاف بھڑکا رہے ہیں امریکا حسب سابق خواہش مند ہے اس جنگ پر عرب پیسہ خرچ کریں اور فائدہ واشنگٹن اٹھائے تاہم تیل کی قیمتوں کے اتارچڑھاﺅ اور عالمی اقتصادی بحران نے عربوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے وہ اس جنگ کو ٹالنا کی کوشش کررہے ہیں.

اس جنگ کے شروع ہونے سے چین ‘روس اور ترکی بھی خاموش نہیں رہیں گے لہذا اس علاقائی تنازع کے تیسری جنگ عظیم میں تبدیل ہونے کے قومی امکانات ہیں کئی خلیجی ملک چین کی طرف سے ایران کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدوں اور ضمانت کو قبول کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں عدم جارحیت کے معاہدوں اور مشرق وسطیٰ کی سیکورٹی کے نئے ڈیزائن پر چین اور روس ہم خیال ہیں خطے میں بنتے نئے اتحاد موجودہ پاک سعودی کشمکش کی وجہ بن رہے ہیں پاکستان کی اپنی معاشی اور سیکورٹی ضروریات ہیں، اور سعودی عرب اس وقت کئی طرح کے مسائل سے نمٹ رہا ہے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے .

خراب صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کبھی ٹیکس فری کہلانے والا ملک اس وقت ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرچکا ہے محصولات کی مد میں اس کی آمدن 22 فیصد کم ہوئی ہے پھر سعودی عرب تیل کی دولت پر مستقل انحصار ختم کرکے نئے شعبوں کی تلاش میں ہے اور کبھی ملازمتیں نہ کرنے والے سعودی شہریوں کو ملازمت کے لیے مواقع فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں.

پاک سعودی بھائی چارہ ختم ہونے اور انقلابی خارجہ پالیسی کے دعوے کرنے والے ابھی محتاط رہیں، کیونکہ مستقل طور پر امریکی کیمپ میں رہنے والوں کو کیمپ چھوڑنا پڑسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ امریکی گرفت سے چھٹکارا ناممکن ہوجائے یاد رہے کہ دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی میں ابھی کئی مہرے بڑھائے جائیں گے اور کئی بڑھا کر واپس کھینچ لئے جائیں گے .

اسرائیل اور عرب ممالک ان دنوں تعلقات میں گرم جوشی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں پہلا مرحلہ تعلقات کا قیام، پھر ان کو معمول پر رکھنے اور بعد میں گرم جوشی لانے کا ہوتا ہے لیکن خطے میں ہونے والی حالیہ پیش رفت دیکھ کر لگتا ہے کہ سب سے آخری مرحلہ پہلے طے ہو گیا ہے . اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران تقاریر، بیانات اور کانفرنسوں میں کئے جانے والے اظہار خیال پر معمولی سا غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس حوالے سے خاصے پرجوش تھے ان کی خوشی دیدنی تھی، جو چھپائے نہیں، چھپتی تھی‘ان کے بیانات میں ایک دعویٰ جھلک رہا تھا وہ دعویٰ اور اقرار نامہ یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ ان کی حکومت نظریاتی انتہا پسند ہے، اس حکومت نے غیرمعمولی طور پر مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں میں توسیع بھی کی ہے، وہ مقبوضہ عرب علاقوں کو یہودیانے کے عمل کے بھی ذمہ دار ہیں، وہ فلسطینی ریاست کے مجوزہ قیام کے بھی سخت ترین مخالف سہی، ان سب کے باوجود اسرائیل اس خطے میں سفارتی اور سیاسی تنہائی سے دوچار ہے .