Live Updates

ئ*ملک بہترین مقام حاصل کر چکا تھا ،دکھ ہے ہم دنیا میں بہت پیچھے رہے گئے ، نواز شریف

O اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دیتا ہے تو ہم وہی کریں گے جو ہمارے منشور میں لکھا ہوگا ،اگر ہم اپوزیشن میں آتے ہیں تو وہ کام نہیں کریں گے جو کام ایک جماعت نے کیا ،سربراہ ن لیگ g16ماہ کی حکومت چھوڑنے کے لئے شہباز شریف کی تقریر تیار تھی لیکن جب انہوںنے الٹی میٹم دیا تو پھر میںنے کہا ہم اس کے الٹی میٹم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے،اس ملک کیلئے ہم نے اپنا سیاسی کیپٹل اپنے ہاتھوں سے جلایا ، یہ ملک کا معاملہ تھا، اللہ نہ کرے دوبارہ کبھی کوئی ایسا وقت آیا تو پھر کریں گے، منشور تقریب سے خطاب

ہفتہ 27 جنوری 2024 20:35

یMلاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 جنوری2024ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے آئندہ عام انتخابات کے لئے پارٹی کا منشور پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دیتا ہے تو ہم وہی کریں گے جو ہمارے منشور میں لکھا ہوگا ،اگر ہم اپوزیشن میں آتے ہیں تو وہ کام نہیں کریں گے جو کام ایک جماعت نے کیا ، ہم نے 90کی دہائی میں جس انداز سے کام شروع کیا تھا اگر بغیر تعطل کے ہمیں کام کرنے دیا جاتا تو ملک کی شکل آج کچھ اور ہوتی، یہ ملک ایک بہترین مقام حاصل کر چکا ہوتا، دکھ کی بات ہے کہ ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں،16ماہ کی حکومت چھوڑنے کے لئے شہباز شریف کی تقریر تیار تھی لیکن جب انہوںنے الٹی میٹم دیا تو پھر میںنے کہا ہم اس کے الٹی میٹم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے،ہم نے اپنا سیاسی کیپٹل اپنے ہاتھوں سے جلایا لیکن ہم نے یہ ملک کے لئے جلایا ، یہ ملک کا معاملہ تھا ہم نے کیا اور اللہ نہ کرے دوبارہ کبھی کوئی ایسا وقت آیا تو پھر کریں گے،جیلیں اور جلا وطنی کاٹنے کے باوجود کریںگے، ملک کے لئے کھڑے رہیں گے، میں آج سوچتا ہوں مجھے مولانا فضل الرحمن کی خیبر پختوانخواہ میں حکومت بنانے کی تجویز پر معذرت نہیں کرنی چاہیے تھی ، اس جماعت کو آنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوںنے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پارٹی منشور پیش کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر شہباز شریف ،مریم نواز، اسحاق ڈار،احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، عرفان صدیقی، مریم اورنگزیب اور دیگر بھی موجود تھے۔ نواز شریف نے کہاکہ بڑا عجیب لگ رہا ہے کہ حکومت سے گرائے جانے کے بعد ،سپریم کورٹ کے پانچ ججوںکے اس فیصلے کے بعد جس فیصلے کو آپ بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں ، جیلیں بھگتنے کے بعد اورہر طرح کی انتقامی کارروائی کے بعد ،نواز شریف ،شہباز شریف ،مریم نواز ،احسن اقبال ،سعد رفیق دیگر کے جیلوں میں رہنے کے بعد آج ہم پھر اپنا منشور پیش کرنے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں اورانتخابات لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں یہ کیا عجیب اتفاق ہے ۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں غلطی کہاں ہوئی جوآناًفاناً حکومت سے نکال دیا گیا ،یہ کس لئے اور کیوں کیا گیا ۔میرا اس پر کسی سے کوئی گلہ شکویٰ نہیں کرنا چاہتا میں آج مستقبل کی بات کرنے آیا ہوں۔ نواز شریف نے کہا کہ پچھلی حکومت میں جس شخص کو آپ نے دیکھا ہے اگر میں ہوتا تو کبھی وہ نہ کرتا جو اس نے کیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے دور سے پہلے 2008سے 2013تک پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ، انہوںنے ہمارے ساتھ میثاق معیشت کیا ، ہمارے ان کے ساتھ بہت ایشوز تھے ،اس پر اس شخص نے بھی دستخط کئے ۔

ہمارے ساتھ ججوں کی بحالی کا وعدہ تھا جو پورا نہیں کیا گیا تو ہمیں لانگ مارچ کرنا پڑا لیکن لانگ مارچ جیسے ہی گوجرانوالہ پہنچا تو ججوں کی بحالی کی خبر آ گئی ، پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے شہباز شریف کی پنجاب حکومت ختم کر دی تھی یہاںپر گورنر راج تھا ۔جب ججوں کی بحالی کی خبر ملی تو ہم نے کہاکہ ہمار امقصد پورا ہوگیا ہے ہم واپس جارہے ہیں لیکن مجھے اس وقت کچھ لوگوںنے کہا کہ لانگ مارچ کو اسلام آباد لے کر جائیں کیا آپ نے شہباز شریف کی حکومت بحال نہیں کرانی ، جس میں نے انہیں واضح کہا میرا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا وہ اپنا الگ ایشو ہے اس کے لئے ہم جدوجہد کریں گے اس کے لئے ہم اسلام آباد نہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے اصول پرعمل کیا ۔

میثاق جمہوریت کی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں لیکن ہم نے انہیں برداشت کیا ۔مجھے اس دوران ایک صحافی نے سوال کیا آپ کب حکومت کو ختم کرنے کے لئے لانگ مارچ کو اسلام آباد لے کر جارہے ہیں، میں اس وقت قائد حزب اختلاف تھا ، لیکن میں کہا تھاکہ میں حکومت کو ختم کرنے کے لئے لانگ مارچ نہیں کروںگا،کیوں لانگ مارچ کروں ۔ ہم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو پورا موقع دیا اور حکومت نے اپنی مدت پوری کی ، جب انتخابات میں ہم کامیاب ہوئے تو آصف زرداری کے پاس گیا ان کی صدارت کی مدت ختم ہونے میں چھ ماہ تھے لیکن میں نے عزت و احترام سے کہا کہ آپ ہمارے صدر ہیں، آپ کی اسی طرح سے عزت کریں گے جس طرح ریاست کے سربراہ کی جاتی ہے اورہم نے اچھی روایت ڈالی ،ہم نے اس حکومت میں مل کر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کا مقابلہ کیا ، پارلیمنٹ یکجان ہو کر کھڑی ہو گئی ۔

یہ کہاں کی جمہوریت یا سیاست ہے کہ ایک حکومت مینڈیٹ لے کر آتی ہے تو آپ دھرنے شروع کردیں، اس طرح کی زبان کا استعمال کیا گیا کہ وزیر اعظم ہائوس سے وزیر اعظم کی گردن میں رسا ڈال کر باہر لائیںگے ، یہ کہا گیا کہ ہم طاہر القادری کے ساتھ اشتراک کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کریں گے،طاہر القادری کا پاکستان کے ساتھ کیا تعلق واسطہ تھااور بھی عناصر اورافراد ملے ہوئے تھے،ابھی حکومت بنتی ہے تو35پنکچروں کی بات کرتے ہیں، اس وقت چیف جسٹس ناصر الملک بہترین بہترین چیف جسٹس تھے انہوں نے فیصلہ سنایا کہ 35پنکچر والی کوئی بات نہیں ۔

میں اس وقت بطور وزیر اعظم آپ کے پاس بنی گالہ جارہا ہوں ، اگر میں کہتا میںنہیںجاتا آپ آئیں لیکن میں اپنے ملک کی خاطر بطور وزیر اعظم آپ کے پاس گیا ،اس وقت کہا کچھ بھی نہیں چاہتے صرف اسلام آباد سے بنی گالہ تک سڑک بنا دیں جو ہم نے بنا دی ، یہی بات تھی تو پہلے کہہ دیتے ،انتظار کرنے اور کرانے کی کیا ضرور ت تھی ، بلانے کی کیا ضرورت تھی یہ کام پہلے بھی ہو سکتا تھا۔

نواز شریف نے کہا کہ کچھ لوگوں کا عمل کرنا تو دور کی بات ان کے پاس منشور ہی نہیں ہے ،ان کا کام دھرنے کرنا اوراحتجاج کرنا ہے ۔چین کے صدر پاکستان آرہے تھے انہوںنے دھرنوں کی وجہ سے دو مرتبہ اپناپروگرام ملتوی کیا ۔کل اگر اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دیتا ہے ہم وہی کریں گے جو ہمارے منشور میں لکھا ہوگا جو ایک جمہوری ملک میں ہونا چاہے جو پاکستان کے عوام کی خوشحالی کا ایجنڈا ہے اگر ہم اپوزیشن میں آتے ہیں تو وہ کام نہیں کریں گے جو کام انہوں نے کیا ۔

انہوںنے کہا کہ 2013میں مولانا فضل الرحمن میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم مل کر خیبر پختوانخواہ میں حکومت بنا سکتے ہیں اور ہمیں بنانی چاہیے ،لیکن میں نے انہیں کہا کہ عددی اعتبار سے ان کے ووٹ زیادہ ہے لہٰذا ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے تاکہ کل یہ نہ کہا جائے ان کی حکومت نہیں بننے دی ، انہوںنے بات مان لی لیکن 2018میں پنجاب کے اندر مکمل طور پر مسلم لیگ(ن) نمبر ون پارٹی تھی ،مرکز میں آرٹی ایس بند ہوا ، اگر مرکز میں ایسا نہ ہوتا تو یقینا پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنتی تھی۔

پنجاب میںہیلی کاپٹر اڑے جہازاڑائے گئے اور ہمارے بندوںکو پکڑ کر لایا گیا اور مصنوعی اکثریت بنا کر پنجاب میںدھکے سے اپنی حکومت قائم کر لی گئی ، لیکن یہ ہمارا منشور نہیں ہے یہ کسی او ر کا ہو سکتا ہے ۔ آج ملک بہت زیادہ مسائل میں گھرا ہوا ہے ، ہم ملک کو ان تمام سائل سے باہر نکالنا چاہتے ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ نے ذمہ داری تو سب سے زیادہ ہم معیشت پر توجہ دیں گے جس کی وجہ سے مہنگائی ہے ۔

نواز شریف نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی جب وزیر اعظم تھے تو ہزارہ برادری کے درجنوں افراد شہید ہو گئے ، وہاں پر خواتین ،بچے بچیاں اور بزرگ لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، میںجیل میںدیکھ رہا تھا ایک بچی کہہ رہی تھی وزیر اعظم صاحب ہمارے پاس آ جائیں ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں، اس بچی کو روتے دیکھ کر دیکھنے والوں کو رونا آرہا تھا لیکن بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا بیان آتا ہے کہ یہ سب بلیک میلنگ ہے ،میں کسی بلیک میں نہیں آئوں گا ، کیا ان شہیدوں کی بچیاں آپ کوبلیک میل کر رہی تھیں،اگر کسی سیاستدان کے سینے میں ایسا دل ہوگا اس کو پاکستان اور اس کی ترقی سے کیا غرض ہو گی ۔

نواز شریف نے کہا کہ میں مارشل لاء کی بات نہیں کر رہا ، میں اپنے اوپر ضبط کر رہاہوں ،صبر سے کام لے رہا ہوں ۔ ہم نے 90کی دہائی میں جس انداز سے کام شروع کیا تھا اگر بغیر تعطل کے ہمیں کام کرنے دیا جاتا تو ملک کی شکل آج کچھ اور ہوتی ، یہ ملک ایک بہترین مقام حاصل کر چکا ہوتا، دکھ کی بات ہے کہ ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ 2013میں جب میں وزیر اعظم تھا تو کہتے تھے کہ نوازشریف وزیر اعظم بن گیا ہے لیکن اس کے چہرے پر خوشی نہیں ، جب آپ کا ملک معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہو ،لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ ہوں ، ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے ،فیٹف میں گرے لسٹ میں ہوں اور بلیک لسٹ جانے کا خدشہ ہو جسے بعد میں ہم وائٹ میں لے کر آئے ایسے میں کون سا وزیر اعظم ہنسے گا اور مسکرائے گا ۔

میں کہتا نہیں کہ اگر ہنسی نہیں ہے تو اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں،2017میں میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی کیونکہ لوڈ شیڈگ ختم ہو گئی تھی اور سستی بجلی آ گئی تھی ،لوگوں کو روزگار مل رہا تھا ،ڈالر 104 روپے پر رہااور چار سال نہیںتک ہلا ۔انہوںنے کہا کہ جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت ہٹائی گئی تو ہم سب لندن میں بیٹھے تھے اور میںنے کہا کہ حکومت نہ لو اور لے لی ہے تو چھوڑ دو ، شہباز شریف کی تقریر تیار تھی چار گھنٹے رہ گئے تھے اور وہ اس کا اعلان کرنے والے تھے لیکن ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ ہمیں اس شخص کی جانب سے دھمکی سے الٹی میٹم دے دیا گیا جس پر میںنے کہا کہ ہم اس کے الٹی میٹم کے آگے سر نہیں جھکائیںگے ،میں نے کہا کہ اب حکومت نہیں چھوڑنا اب آپ رہیں اورمقابلہ کریں ۔

اس وقت ملک واقعی ڈیفالٹ کی سطح پر آ گیا تھا لیکن ہم نے کہا کہ اب اس کو الٹی میٹم کی قیمت کا پتہ چل جائے اس کے بعد اگلا کام کریں گے، اس کے بعد سولہ ماہ کی حکومت میں بڑے مسائل آ گئے لیکن شہباز شریف اور ان کی ٹیم کو شاباش ہے جنہوںنے جانفشانی کے ساتھ پاکسان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور ان حالات میں بھی کھڑا کیا ،ہم نے اس کی قیمت ادا کی ہے ، اپنا سیاسی کیپٹل اپنے ہاتھوں سے جلایا لیکن ہم نے یہ ملک کے لئے جلایا ، یہ ملک کا معاملہ تھا ہم نے کیا اور اللہ نہ کرے دوبارہ کبھی کوئی ایسا وقت آیا تو پھر کریں گے،جیلیں اور جلا وطنی کاٹنے کے باوجود کریںگے، ملک کے لئے کھڑے رہیں گے، میں آپ لوگوں سے دل کی بات کر رہا ہوں۔

نواز شریف نے کہا کہ یہاں بڑی حکومتیں آئی ہیں ، اس شخص کی بھی حکومت آئی ہے اس کو پوچھیں چار سالوںمیں کیا کیا ہے ایک منصوبہ بتا دو اس پر انگلی رکھو یہ ہمار امنصوبہ ہے ،آپ نے مہنگائی کر کے غریب کی کمر توڑ دی ، بجلی مہنگی کر دی ،2017میں کوئی مہنگائی نہیں تھی ،ان کے چار سالوںمیں مہنگائی ہوئی ہے،اس بات کو سب کو سمجھنا چاہیے ۔ آج کتنے لوگ گاڑی خرید سکتے ہیں،اگر 1990سے آگے ہم رہتے خلل نہ آتا ،2017والاحادثہ نہ ہوتا تو ان لوگوںکے پاس موٹر سائیکلوں کی بجایء گاڑیاں ہوتیں،روزگار ہوتا بجلی مہنگی نہ ہوتی ، فیکٹریاںبھی چل رہی ہوتیںاورگھروںمیں کھانا بھی پک رہاہوتا، موٹر وے پرصرف کاریں نہیں چلتی بلکہ ائیر فور س کے جہاز اترتے اور ٹیک آف کرتے ہیں۔

کچھ لوگوںنے بیکار کا بیوقوف بنایا ہوا ہے اورچند لوگ بیوقو ف بن جاتے ہیں ،سب سے زیادہ خیبرپختوانخواہ کے لوگ بنتے ہیں یہ بیماری ادھر سے آئی ہے ان کو سمجھنا چاہے انہوںنے کس طرح کے بندے کو موقع دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اب میں سوچتا ہوں جب مولانا فضل الرحمن میرے پاس آئے تھے انہیںخیبر پختوانخواہ میں مل کر حکومت بنانے سے معذرت کا شاید غلط فیصلہ کیا ،ان کو آنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا ، نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری ۔

نواز شریف نے کہا کہ اللہ موقع دے گا تو نوجوانوںکی خدمت کریںگے ،خواتین بچیوںکی خدمت کریں گے ،تعلیم اور صحت میں خدمت کریںگے ۔ منشور میں بڑے دعوے ہیںلیکن میں کہتا ہوں پاکستان کی سمت کو درست کرنے کے لئے پوری کوشش کریں گے ۔ شہباز شریف بڑا اچھا بھائی ہے اس نے بڑا عمدہ کام کیے ہیں اس نے لاہور، ملتان راولپنڈی میں میٹرو بسیں بنائیںہمارے مخالفین سے ایک نہیں بن سکی ، یہاں اورنج لائن ہے، اگر خلل نہ آتا تو اورنج لائن پرپاکستان کے ہر شہر میں چلتی ۔

ہم نے اپنے پائوں پرکود کلہاڑی ماری ہے ۔ منشور محنت سے تیا ہوا ہے جس کے لئے عرفان صدیقی ،مریم اورنگزیب اور جن جن لوگوںنے اپناحصہ ڈالا ہے دل کی گہرائیوںسے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بہت محنت سے منشور بنایا گیا ہے ہمارا پورا اردہ ہے اس پر پوری طرح سے عمل کریںگے۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات