کوالالمپور /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان ایک مستحکم اور تعاون پر مبنی ایشیا پیسفک کی تشکیل میں آسیان کے مرکزی کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پاکستان ایک سیکٹرل ڈائیلاگ پارٹنر اور اے آر ایف کے رکن کے طور پر آسیان کے انضمام، پائیداری اور امن کے تزویراتی اہداف کے لئے اپنی مکمل حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کوالالمپور میں آسیان ریجنل فورم کے 32 ویں وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اے آر ایف اعتماد سازی اور علاقائی مکالمے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے، پاکستان 2025 کے بعد کا ایکشن پلان تیار کرنے کے لئے آسیان کے اقدام کا خیر مقدم کرتا ہے، امید کرتے ہیں کہ نیا منصوبہ غیر روایتی سلامتی کے خطرات جیسے موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، سائبر خطرات، میری ٹائم سیکورٹی اور آفات کے ردعمل کو ترجیح دے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ 46 ویں آسیان سربراہی اجلاس کی کامیابی کے ساتھ میزبانی کرنے پر ملائیشیا کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا اپنا خطہ جنوبی ایشیا غیر حل شدہ تنازعات سے منسلک سیکورٹی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، ان میں جموں و کشمیر کا تنازعہ سرفہرست ہے جو علاقائی عدم استحکام کا مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مسلسل جموں و کشمیر کے تنازعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق منصفانہ اور پرامن حل کرنے کی وکالت کی ہے۔
سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ 22 اپریل 2025 کو بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں پہلگام میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد بھارت نے بغیر کسی مصدقہ ثبوت یا تحقیقات کے پاکستان پر الزام لگایا، 26 اپریل کو پاکستان نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی تجویز پیش کی، بھارت نے اس کے بجائے جارحیت کا انتخاب کیا اور 7 مئی کو بلا اشتعال حملہ کیا جس میں عام شہری مارے گئے اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جواب میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کیا، 7 اور 10 مئی کو ہماری ایئر فورس اور فوجی ردعمل نے تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف فضائیہ اور فوجی اثاثوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ردعمل کی رہنمائی اس کی خودمختاری کو برقرار رکھنے اور جارحیت کو روکنے کے لئے ضروری تھی، ایک نام نہاد "نئے معمول" کا غیر قانونی تصور جس کی بنیاد استثنیٰ، یکطرفہ پسندی اور طاقت کے استعمال پر رکھی گئی ہے، نہ تو قابل اعتبار اور نہ ہی قابل قبول ہے ۔
انہوں نے کہا کہ واحد جائز اصول وہ ہے جس کی جڑیں باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کے حق کے مطابق عزم اور ذمہ داری کے ساتھ مستقبل کی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا سندھ آبی معاہدے کو یکطرفہ طور پر روکنے کا حالیہ فیصلہ اس کی بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی کو مزید واضح کرتا ہے، معاہدے میں کسی بھی یکطرفہ کارروائی کی کوئی شق نہیں ہے، بھارت کے اقدامات سے سندھ طاس پر انحصار کرنے والے لاکھوں افراد کو خطرہ ہے اور یہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، عالمی برادری کو ایسے رویے کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے جو عالمی قانونی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کو برقرار رکھے ہوئے ہے، ہم اس کے نفاذ کے لئے پرعزم ہیں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے کردار کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے جنگ بندی کے اختتام میں سہولت فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تنازعہ جموں و کشمیرکے پرامن حل میں مدد کے لئے ان کی پیشکش کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں، پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پرامن حل اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے حصول کی حمایت کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اس جدوجہد میں ہم نے 80,000 سے زیادہ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا اقتصادی نقصان برداشت کیا۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے سرحدی کنٹرول، سائبر نگرانی اور انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کو بہتر بنایا ہے، دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جن میں غربت، ناانصافی، قبضے اور خود ارادیت سے انکار شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے، ہم نے پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروپوں کی بیرونی حمایت کے تفصیلی شواہد کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک ڈوزیئر پیش کیا ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے بیانیے کو پوری کمیونٹیز بالخصوص مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ایک پریشان کن رجحان ہے، جب اس طرح کے بیانیے کو ریاستی اسلام فوبک پالیسیوں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ بنیادی حقوق کی پامالی اور بیگانگی اور بنیاد پرستی میں اضافہ ہوتا ہے، اس طرز عمل کی بلاشبہ سب کو مذمت کرنی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں میرا 19 اپریل کا دورہ کابل اور 20 مئی کو بیجنگ میں چین۔پاکستان۔افغانستان کا سہ فریقی اجلاس شامل ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پرامن، مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان ہمارے اہم مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری جائز توقع ہے کہ افغان عبوری حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے گی کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ریاست بالخصوص پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کرتا ہے، وسیع تر تنازعات سے بچنے کے لئے ایران کی کوششیں قابل تعریف ہیں، 13 جون کو اس بحران کے آغاز کے بعد سے پاکستان نے اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اپنے دفاع کے ایران کے حق کی وکالت کی ہے، ہمیں امید ہے کہ ایران کے جوہری مسئلے کو جبر کے بجائے سفارتکاری اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر جاری اسرائیلی جارحیت ہمارے لیے بڑی پریشانی کا باعث ہے، مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی بنیادی وجہ فلسطینی علاقوں پر مسلسل قبضہ ہے، اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنے، انسانی ہمدردی کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنانے اور غیر قانونی طور پر قابض طاقت کو اس کے مظالم کے لیے جوابدہ بنانے کے لیے فوری بین الاقوامی کارروائی ناگزیر ہے۔
سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے ناقابل تنسیخ حق اور ایک آزاد، قابل عمل اور متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنی غیر متزلزل اور اصولی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بحیرہ جنوبی چین پر علاقائی امن اور مذاکرات کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے، ہم ایشیا پیسیفک کی تمام ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تنازعات کو سفارتکاری کے ذریعے باہمی احترام کے ساتھ حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس اہم خطے میں امن کے لئے عدم مداخلت، تحمل اور مشغولیت کی ضرورت ہے، پاکستان عوامی جمہوریہ چین کو تائیوان پر واحد قانونی اختیار تسلیم کرتے ہوئے "ون چائنہ پالیسی" کے لئے اپنی مضبوط حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ترقی پذیر ریاستوں کی طرح پاکستان کو بھی یوکرین کے تنازعے کے نتیجے میں بالواسطہ نتائج، بڑھتی ہوئی خوراک اور توانائی کے عدم تحفظ کا سامنا ہے، ہم اقوام متحدہ کے چارٹر اور بات چیت کی بنیاد پر اس تنازعہ کے فوری طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کی امید رکھتے ہیں۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک وجودی خطرہ ہے جو پاکستان جیسی ترقی پذیر قوموں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہی ہے، سیلاب سے خشک سالی تک ہمیں محدود وسائل کے ساتھ بار بار آنے والی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی قومی سطح پر طے شدہ شراکت کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور مضبوط تخفیف اور موافقت کی حکمت عملی اپنائی ہے لیکن موسمیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی مالیات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور صلاحیت سازی کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف عالمی یکجہتی کے ذریعے ہی موسمیاتی تباہی کو روک سکتے ہیں۔