اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل اور ابراہیمی معاہدہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان ہر دو مسائل پر اپنا موقف کو واضحکرے جبکہ کونسل نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے، غیر سودی نظام کے نفاذ بڑھتی ہوئی مہنگائی، سماجی نا انصافی، نکاح اور توہین رسالت کے مسائل کو زمینی حقائق کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس امر اظہار ملی یکجہتی کونسل پاکستان مجلس قائدین اجلاس و قومی مشاورت میں کیا گیاجس کی میزبانی کے فرائض اسلامی تحریک پاکستان نے انجام دئیے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اجلاس کے مہمان خصوصی سربراہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ علمائے کرام نے پاکستان میں ہمیشہ مسلح جدو جہد کو یکسر مسترد کیا ہے، بیرونی دباو کے تحت دینی مدارس پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔
(جاری ہے)
انہوںنے کہاکہ بلوچستان اور کے پی کے میں فوجی آپریشنز کے باوجود حکومتی رٹ موجود نہیں ہے،مسلح گروہ دن رات سڑکوں پر نکل آتے ہیں،یہ سب بدامنی اور ناکامی ہماری حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان مسئلہ کشمیر سے تدریجی طور پر پیچھے ہٹتا رہا ہے، فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے کیا امریکہ کو اجازت ہے کہ وہ مقبوضہ سرزمین پر اپنا سفارت خانہ کھولے۔
صاحبزادہ ابو الخیر محمد زیبر صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت فلسطین کے مسئلیپر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے ،الٹا نیتن یاہو کی طرح ہمارے حکمران بھی ٹرمپ کو نوبل پرائز دینا چاہتے ہیں اس حوالہ سے ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات قابل مذمت ہیں، اسرائیل بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر فلسطینی عوام کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ اسلامی تحریک پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ہمیں فلسطین کے حوالہ سے ایسا لائحہ عمل اپنا چاہیے جس سے سامراجی قوتوں تک پیغام پہنچے کہ یہ جنگ بند ہو کیونکہ یہ جنگ انہی سامراجی قوتوں کی ایما ء پر ہو رہی ہے، ملک میں ریلیاں بھی ہوئیں احتجاج بھی لیکن ہمارے ملک کی جانب سے سفارتی سطح پر کوئی بڑا پیغام نہیں گیا۔
انہوںنے کہاکہ پاکستانی عوام نے فلسطینیوں کے 21 ماہ سے جاری قتل عام پر شدید احتجاج کیا، ابراہمی معاہدہ مسترد کرتے ہیں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ غزہ والوں کی مزاحمت اور مقاومت کو اسرائیل ختم نہیں کر سکا الٹا اسرائیل کا خوف اور دبدبہ ختم ہو چکا ہے،ایران کی طرف اسرائیل پر پلٹ کر وار کرنا لائق تحسین ہے اور ہم ایران کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،توہین رسالت کے حوالہ سے چلنے والے کیس میں حق و حقیقت پر مبنی فیصلے ہونے چاہیں۔
مجلس قائدین اجلاس میں لیاقت بلوچ ،مولانا محمد امجد خان ،حافظ عبدالغفار روپڑی ،مفتی گلزار احمد نعیمی ،خرم نواز گنڈا پور،قاری محمد یعقوب شیخ ، مولانا اللہ وسایا ،علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ،مولانا زاہد محمود قاسمی ،علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی،ڈاکٹر حضور مہدی ،پیر سید صفدر شاہ گیلانی، علامہ عارف واحدی، محمدعبداللہ حمید گل، مولانا عبدالمالک، ڈاکٹر سید علی عباس نقوی، ڈاکٹر ضمیر اختر خان، سید اقبال احمد رضوی، ڈاکٹر صابر ابو مریم، قاضی ظفر الحق، رضیت باللہ، زاہد علی اخوانزادہ اور کثیر تعداد میں علمائے کرام نے شرکت کی۔
شرکاء نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ ملک میں غیر سودی نظام کا نفاذ فوری کیا جائیا ور ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان کا اسلامی تشخص، آئینی بالادستی اور قومی وحدت حکومتی نااہلی، تعصبات اور ادارہ جاتی مداخلت کی وجہ سے شدید خطرات سے دوچار ہے، پاک بھارت حالیہ جنگ میں قوم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا اور افواجِ پاکستان نے بہادری سے معرکہ سر کیا، تاہم اس کامیابی کے بعد ملک کے اندرونی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت تھی، جو بدقسمتی سے نظر انداز کر دی گئی بالخصو ص امن وامان کی صورت حال۔
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے رویے کو آئین، جمہوریت اور قومی وحدت کے خلاف قرار دیا گیا۔اجلاس میں فلسطین و کشمیر پر اسرائیل اور بھارت کے مظالم کی شدید مذمت کی گئی اور ان مظلوم اقوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ ابراہیمی معاہدے، دو ریاستی حل اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناقابل قبول قرار دیا گیا۔ ایران کی امریکہ و اسرائیل کے خلاف استقامت پر ایرانی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
اجلاس میں ترکی، ایران، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش کے درمیان دفاعی، سائنسی، اقتصادی و سفارتی تعاون کو ناگزیر قرار دیا گیا تاکہ امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا اجتماعی طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔اجلاس میں بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور دیگر علاقوں کی بدامنی، دہشت گردی، جبری گمشدگیوں، عوامی حقوق کی پامالی، مہنگائی، سودی معیشت، کرپشن، عوام دشمن ٹیکسوں، اور سیکولر قانون سازی پر بھی سخت تشویش ظاہر کی گئی۔
مدارس دینیہ کو ملک کا نظریاتی قلعہ قرار دیا گیا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ملی یکجہتی کونسل نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر شعائر اسلام اور آئین کے خلاف اقدامات واپس نہ لیے گئے تو ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی، جس کے لیے تمام دینی جماعتوں پر مشتمل ایکشن کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔