
ٹرمپ کے 20 نکات من وعن ہمارے نہیں ، فلسطین پرقائداعظم کی پالیسی پرہی عمل پیرا ہیں، نائب وزیراعظم
جمعہ 3 اکتوبر 2025 20:01

(جاری ہے)
اسحق ڈار نے کہا کہ جنرل اسمبلی جانے سے پہلے ہماری بات ہوئی کہ اقوام متحدہ کا اجلاس تو ہر سال ہوتا ہے، اس بار 80 واں ہورہا ہے لیکن اقوام متحدہ غزہ میں خونریزی رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے، یورپی یونین ناکام ہوچکی ہے ، عرب ممالک ناکام ہوچکے ہیں، ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ ملکر امریکا، جو آخری امید ہے اسے انگیج کیا جائے اور معصوم جانوں کی روز ہونے والی خونریزی، بھوک سے اموات اور بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے۔
اسحق ڈار نے کہا کہ اس صورتحال میں ایک منصوبہ تھا کہ کچھ ممالک مل کر امریکی صدر سے رابطہ کریں اور انہیں اس میں شامل کریں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ ہے، جہاں 64 ہزار افراد شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ میں درجنوں قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں، او آئی سی کی قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غزہ انسانوں کے قبرستان کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کا قبرستان بھی بن چکا ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ 5 عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ہمراہ امریکی صدر سے ملاقات کی۔اسحٰق ڈار نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ سے ہونے والی مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات سے ایک اور قبل بھی ایک ملاقات ہوئی، یہ بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس معاملے کو خراب کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے، ہم نے دیکھا ہے کہ نہ اقوام متحدہ کی قرارداد غزہ میں خونریزی روک سکیں، نہ سلامتی کونسل روک سکی نہ عرب ممالک خود روک سکے، وہاں تقاریر بہت ہوئی ہیں، اس ایوان نے بھی بہت سنجیدگی سے ایک قرارداد منظور کی مگر نتیجہ کیا تھا وہاں خون بہہ رہا تھا۔اسحق ڈار نے بتایا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ کی صدر ٹرمپ کے ساتھ اقوام متحدہ کے ہیڈاکوارٹرز کے اندر غیر رسمی ملاقات ہوئی ، جس میں ہم سب نے بات کی کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ شرمناک ہے، اگر ہم اسے روک نہیں سکتے تو پھر جنرل اسمبلی کا کیا فائدہ نائب وزیراعظم نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے ہماری باتوں پر مثبت ردعمل دیا اور کہا کہ پھر اس طرح کریں کہ آپ 8 وزرائے خارجہ میری ٹیم کے ساتھ بیٹھ جائیں اور کوئی قابل عمل حل پیش کریں، میں گزشتہ پیر کو نیتن یاہو سے ہونے والی ملاقات میں نیتن یاہو اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں، اس ملاقات کی یہ روح تھی، اس میں کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا، اگر کچھ کرواسکتے تھے وہ تمام فورم کچھ کروالیتے جو 2 سال میں نہیں کرواسکے۔اسحق ڈار نے کہ اگلے دن دوبارہ ملاقات طے ہوئی، قطری سفارتخانے میں ملاقات ہوئی، جسے منظر عام پر نہیں لا گیا، کوئی تصویر نہیں جاری کی گئی، اس ملاقات میں صدر ٹرمپ کی ٹیم بھی آئی، جس سے کافی طویل ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں 20 نکاتی پرپوزل دیا، جس پر ہم نے انہیں کہا کہ ہم مشاورت کے بعد اگلے روز جواب دیں گے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اسی ڈرافٹ میں رہتے ہوئے اپنی چیزیں شامل کیں، جمعہ کو ہم 8 ممالک کا حتمی ڈرافٹ امریکا کو بھجوایا گیا جو ہفتے کو امریکی اتنظامیہ کو موصول ہوگیا۔اسحق ڈار نے کہا کہ امریکا نے پیر کو 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا، میں اس وقت لندن سے پاکستان آرہا تھا تو میری سعودی ہم منصب سے بات ہوئی، سعودی وزیرخارجہ نے بتایا کہ ہماری ہنگامی چیزیں مان لی گئی ہیں لیکن کچھ چیزوں پر ہمیں دوبارہ بات کرنا پڑے گی۔اسحق ڈار نے بتایا کہ سعودی وزیر خارجہ نے ان سے کہا کہ ہم چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ جو ہورہا ہے اسے ہوتے رہنے دیں، جتنے لوگ مر رہے ہیں انہیں مرنے دیں، جتنی خونریزی ہورہی ہے اسے ہونے دیں، مزید لوگوں کو بے دخل ہونے دیں یا پھر دوسرا حل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے معاہدے کو فوری نافذ ہونے دیں اور اپنا ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جسے منظر عام پر لایاجائے اور امریکا کو بھی ارسال کیا جائے۔اسحق ڈار نے بتایا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ سے کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے، وہ مشترکہ بیان مجھے پیر کی رات کو ملا، اس پر سعودی وزیر خارجہ سے رابطے میں ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ مشترکہ بیان میں موجود اسرائیل کا نام بھی کٹوایا ہے کہ ہم اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتے، ہماری سفری دستاویز کہتی ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے سفر کے لیے کارآمد ہے، اسرائیل کا لفظ ہمارا نو گو ایریا ہے، انہوں نے رات ایک بجے یہ بیان فائنل ہوا۔اسحٰق ڈار نے ایوان میں مسلم ممالک کا مشترکہ بیان بھی پڑھ کر سنایا۔5 عرب اور پاکستان سمیت 3 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اردن، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ انڈونیشیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جمہوریہ ترکیہ، مملکت سعودی عربیہ، ریاست قطر اور عرب جمہوریہ مصر کے وزرائے خارجہ صدر ٹرمپ کی قیادت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی سنجیدہ کوششوں کا خیرم مقدم کرتے ہیں اور امن کا راستہ تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ ہم خطے میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں، آٹھوں وزرائے خارجہغزہ میں جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیر نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے ، پائیدار امن کے قیام اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو قبول نہ کرنے کے امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ وزرائے خارجہ اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ تیار ہیں کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ اس معاہدے کو حتمی شکل دیں اور اس پر اس طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں جس کے ذریعے اس خطے میں لوگوں کو امن و سلامتی میسر آسکے۔اسحق ڈار نے بتایا کہ بیان کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک جامع منصوبے کے ذریعے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں کا ساتھ دیں گے، اس منصوبے میں میں غزہ میں امداد کی بلا روک ٹوک رسائی، فلسطینیوں کی بے دخلی روکنے، یرغمالیوں کی رہائی، تمام فریقین کی یقینی سلامتی کا لائحہ عمل، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور ایسے راستے کا قیام جس کے ذریعے دو ریاستی حل کے ذریعے امن کا قیام ممکن ہوسکے۔اس موقع پر اسحق ڈار نے تائید طلب نگاہوں سے ایوان کو دیکھتے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی ریاست پالیسی تو دو ریاستی حل ہی ہے، کسی ایک کی پالیسی نہ ہوتو الگ بات ہے ، پاکستان کی پالیسی تو یہی ہے۔انہوں نے بیان میں بتایا گیا کہ مغربی کنارہ غزہ کے ساتھ فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگا اور اسے اسرائیل کے ساتھ شامل نہیں کیا جائے گا، بین الاقوامی قانون کے مطابق خطے میں امن و استحکام کے قیام کی یہی کلید ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ یہ وہ مشترکہ بیان ہے جسے 29 ستمبر کی رات حتمی شکل دی گئی ہے، تمام ممالک کے وزرائے خارجہ کی ویب سائٹس پر یہ مشترکہ بیان موجود ہے اور جس میں کوما اور فل اسٹاپ کا بھی کوئی فرق نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یا تو ہماری انفرادی طور پر اتنی استعداد ہونی چاہیے کہ ہم اس جنگ کو بند کرواسکیں تو ہمیں ہر قربانی دینی چاہیے لیکن اگر ہم نہیں کرسکتے تو یہی ایک راستہ تھا جہاں اقوام متحدہ ناکام ہوگئی، جہاں سلامتی کونسل ناکام ہوگئی، جہاں عرب ممالک اور اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی جو دوسرا بڑا کثیر الملکی اتحاد ہے، ناکام ہوگیا تو پھر کیا راستہ تھا کیا ہم نے تماشا دیکھنا ہے، بیانات دینے ہیں، ٹاک شوز میں بیٹھ کر سیاست کرنی ہے یا کوئی عملی کام کرنا ہے، قرآن کیا کہتا ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، یہاں تو روز درجنوں لوگ شہید ہورہے ہیں۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے وزارت میں منگل کو پریس بریفنگ میں واضح طور پر اعلان کیا کہ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ ہمارا نہیں ہے، یہ من و عن ہمارے نکات نہیں ہیں، ہمارے مسودے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف سفر میں تھے، انہوں نے ٹرمپ کے ٹوئٹ کے جواب میں ٹوئٹ کردی، کسی کو الہام تو نہں ہونا تھا کہ یہ 20 نکات وہ نہیں ہیں جو اسلامی ملکوں نے بھیجے ہیں، یہ حتمی نتیجہ ہے جس میں سیاست کی گنجائش نہیں ہے، ہمارے لیے بہت آسان تھا کہ ہم واک آؤٹ کرجاتے اور یہ کوشش نہ کرتے، یہ کوشش جنرل اسمبلی اجلاس کا حصہ نہیں تھی۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ غزہ جانے والے فلوٹیلا کی 45 میں سے تقریباً 22 کشتیوں کو پکڑا اور اس میں سوار لوگوں کو گرفتارکیا ہے، جن غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل ہیں۔اسحق ڈار نے بتایا کہ ہم نے ایک بااثر یورپی ملک کو اس معاملے میں شامل کیا ہے اور ان سے کہا ہے وہ اسرائیل سے رابطہ کرکے ہمارے سینیٹر کو فوری طور پر رہا کروائیں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جمعے کی رات گرفتار کیے گئے افراد کے حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں ہوئی ہے، ہم سوئے ہوئے نہیں ہیں، پہلی 25 کشتیوں میں صرف ایک مشتاق صاحب ہیں، باقی لوگ پیچھے ہیں، ہم پرسوں رات سے یورپی ملک سے رابطے میں ہیں اور جتنا جلدی ہوسکے گا، اپنے لوگوں کو رہا کروائیں گے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ تمام 8 ممالک اپنے مشترکہ بیان کا فالو اپ لیتے رہیں گے اور جب تک ہمارے مقاصد پورے نہیں ہوتے ہم اس پر توجہ مرکوز رکھیں گے، انہوں نے کہا کہ 20 نکاتی منصوبے کا سب سے پہلے فلسطین اتھارٹی نے خیرمقدم کیا۔نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ فلسطین پر پاکستانی کی وہی پالیسی ہے جو حضرت قائداعظم? کی پالیسی تھی، اس میں کوئی تبدیلی تھی، نہ تبدیلی ہوئی اور نہ ہوگی، ہم دارالحکومت القدس کی حامل آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔نائب وزیراعظم نے وزیراعظم کی امریکی انتظامیہ سے ہونے والی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ چین ہمارا ہر موسم کا تزویراتی شراکت دار ہے، اس کی ایک تاریخ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، امریکا سے تعلق چین سے تعلقات کی قیمت پر نہیں ہیں اور نہ چین سے تعلقات کسی اور ملک کی قیمت پر استوار ہیں، ہماری ایک آزادانہ پالیسی ہے، جس میں چین کا منفرد مقام ہے، جس میں چین ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دہائیوں پرانا تعلق ہے، 1979 میں سعودی عرب میں پیش آنے والے واقعے میں پاکستان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو حرمین شریفین کے لیے ہم سب کی جان قربان، یہ معاہدہ ایک دن میں نہیں ہوا، اس پر پی ڈی ایم کے دور سے بات چل رہی تھی، اس حکومت میں اس معاہدے پر تفصیل سے بات ہوتی رہی ہے، اس معاہدے میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا، بھارتی حملے کے وقت یہ معاہدہ موجود ہوتا تو بھارت کا حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ تصور ہوتا۔اسحق ڈار نے کہا کہ اگر سعودی خود خادمین حرمین شریفین کہتے ہیں تو اللہ نے ہمیں محافظین حرمین شریفین بننے کا شرف دیا ہے تو یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاہدے کے بعد کئی ممالک نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، ان میں کچھ عرب ممالک ہیں اور کچھ غیر عرب اسلامی ممالک بھی شامل ہیں، یہ بہت اہم چیز ہے، انہوں نے کہاکہ اگر اتنے ممالک مل گئے تو یہ اتحاد مشرقی نیٹو کی صورت اختیار کرجائے گا، پتہ نہیں اللہ کو کیا منظور ہے مگر مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری زندگیوں میں نہیں تو ہمارے بعد وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب پاکستان امت کی قیادت کرے گا۔نائب وزیراعظم نے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے والے وفد میں خاتون شمع جونیجو کی شمولیت کے حوالے سے وضاحت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے وفد کے لیے وزیر خارجہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام لیٹر آف کریڈنسی جاری کرتا ہے، جس پر میں نے دستخط کیے تھے، لیٹر ریکارڈ پر موجود ہے، اس میں ان خاتون کا نام نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک ایک اور لیٹر جو وزیراعظم کی جانب سے بھیجا گیا جو سیکریٹری جنرل کے نام نہیں تھا، اس میں وزیراعظم کے خانساما، ملازمین، سیکیورٹی کے سارے بندے بھی تھے، اس میں ان خاتون کا نام تقریر نویسوں کے گروپ میں شامل تھا، ان خاتون کو غیر ذمہ دارانہ حرکتیں نہیں کرنی چاہئیے تھیں۔تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نائب وزیراعظم نے جو تفصیل اس وقت پارلیمنٹ کے سامنے رکھی ہے وہ خود بھی کافی الجھن کا شکار نظر آئے، اور بجائے اس کے وہ مخصوص بات کرتے وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔انہوں نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے جب آپ اتنا بڑا فیصلہ لینے جارہے ہیں تو اس فیصلے میں آپ نے پارلیمنٹ سے کوئی مشاورت کرنی تھی یا نہیں کرنی تھی جب اتنا بڑا فیصلہ لینا تھا تو اس فیصلے میں وہ پارلیمنٹ سے تجاویز لیتے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تو شاید اپنے ساتھیوں سے بھی اس بارے میں مشاورت نہیں کی، اور اکیلے جاکرپاکستانی قوم یا پارلیمنٹ سے مشاورت کیے بغیر بڑے بڑے فیصلے کرلیے۔اسد قیصر نے کہا کہ انہوں نے شمع جنیجو والے مسئلے کو نظر انداز کیا ، خواجہ آصف کا کچھ اور بیان ہے اور وزارت خارجہ کا کوئی اور بیان ہے۔انہوںنے کہاکہ اس قسم کی خاتون اتنے سنجیدہ وفد میں کیسے گئی، کس کے حکم پر گئی اور کس کی اجازت سے گئی، کون اسے لے کر گیا، کون اس کا ذمہ دار ہے اس کی باقاعدہ انکوائری ہونی چاہیے، اس خاتون نے کہا کہ اگر وہ نیتن یاہو سے ملتی ہے تو اس کے ساتھ تصویر کھنچواتی تو اس سے کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے اتنی جلدی ٹوئٹ کیوں کی ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے آنے والے نکات کا انتظار بھی نہیں کیا، کیوں کسی سے مشورہ نہیں کیا۔قبل ازیں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے معافی مانگنے سے انکار پر پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کردیا، پیپلزپارٹی کے ارکان نے موقف اپنایا کہ حالات جوں کے توں ہیں، ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے، بعد ازاں حکومتی ٹیم کے منانے پر پیپلزپارٹی کے ارکان ایوان میں واپس آگئے۔اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا کہ مذکرات ہی مسائل کا واحد حل ہیں، تمام معاملات افہام وتفہیم سے حل ہوسکتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں۔متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
سیرین ائیر کا فضائی آپریشن معطل
-
صدر ٹرمپ نے امن معاہدے پر دستخط کیلئے حماس کو اتوار شام 6 بجے کا الٹی میٹم دے دیا
-
بھارتی ایئر چیف کا پاکستان کے 5 ایف 16 اور ایک جے ایف 17 مار گرانے کا مضحکہ خیز دعویٰ
-
حکمران ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشامد کی وجہ سے دوریاستی حل کی تجاویز دے رہے ہیں
-
پنجاب میں اب کوئی سیاسی تعیناتی نہیں ہوتی، اقرباپروری اور سفارش کا مکمل خاتمہ کردیا
-
عمران خان واحد لیڈر ہے جس نے پاکستان کی خودمختاری کیلئے اپنی حکومت قربان کی
-
عمر ایوب خان کی نااہلی کے بعد اپوزیشن لیڈر کی نشست خالی، پی ٹی آئی کا اہم فیصلہ
-
نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیرصدارت پائیدار ترقی کے اہداف کے اچیومنٹ پروگرام کی 48 ویں سٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس
-
بلال اظہر کیانی کا متحدہ عرب امارات کے الفایا ریلوے سٹیشن کا دورہ، جدید ترین اتحاد ریل نیٹ ورک کا معائنہ
-
اسحاق ڈار کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین کا اجلاس، سرکاری اداروں کی نجکاری سے متعلق جاری اقدامات کا جائزہ لیا گیا
-
یوسف رضا گیلانی سے برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کے رکن کی ملاقات،آزاد جموں و کشمیر کی صورتحال پر گفتگو
-
ٹرمپ کے 20 نکات من وعن ہمارے نہیں ، فلسطین پرقائداعظم کی پالیسی پرہی عمل پیرا ہیں، نائب وزیراعظم
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.