آئین کے تحت تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے‘ اگر کوئی ادارہ غیر فعال ہوگا تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی‘چیف جسٹس،سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے ایمرجنسی خود لگائی تھی‘ سابق وزیراعظم نے سمری نہیں بھیجی،ججز پر متعصب ہونے کا الزام تو لگایا جاتا ہے ثبوت نہیں دئیے جاتے‘ جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ریمارکس،مشرف اپنی مرضی کا بنچ اور فیصلہ چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک بار پھر آئین کو روند سکیں‘ جسٹس جواد ایس خواجہ،شریف الدین پیرزادہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر متعصب ہونے کا الزام عدالت نے مسترد کردیا،ابراہیم ستی کی جانب سے سابق وزیراعظم کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات عدالت میں پیش ‘ سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ غیر فعال ہوگیا‘ججوں کو ہر قسم کے احتساب سے بالاتر سمجھ لیا گیا‘ معاشی نظام تباہ ہوکر رہ گیا‘ غیر ضروری ازخود نوٹسز نے بھی اداروں کی کارکردگی کو بے حد متاثر کیا‘ ریاست کے تین ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کرررہے تھے‘ ابراہیم ستی،دلائل مکمل ہونے کے بعد آج فیصلہ جاری کئے جانے کا امکان

جمعرات 30 جنوری 2014 08:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔30جنوری۔2014ء)سپریم کورٹ میں 31 جولائی 2009ء کے ایمرجنسی کے فیصلے کیخلاف دائر کردہ سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے تحت تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے‘ اگر کوئی ادارہ غیر فعال ہوگا تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی‘ ججز پر متعصب ہونے کا الزام تو لگایا جارہا ہے مگر یہ معاملہ ان ججز کے روبرو نہیں اٹھایا گیا‘ سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے ایمرجنسی خود لگائی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نے ان کو ایمرجنسی لگانے کیلئے کوئی سمری نہیں بھجوائی تھی‘ وہ یہ بھی تسلیم کررہا ہے کہ جو حکم دیا گیا وہ غیرآئینی تھا اب اس کے بعد کیا رہ گیا کہ جس کی سماعت کی جائے‘ ذوالفقار بھٹو کیس میں متعصب ہونے کے اعتراض کو ہائیکورٹ میں اٹھایا گیا تھا مگر مشرف کی درخواست میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ چیف جسٹس کے متعصب ہونے کا کب پتہ چلا تھا‘جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کوئی جج آئین سے انحراف کرتے ہوئے فیصلہ نہیں دیتا یہ اس کی تربیت کا حصہ ہے کہ وہ متعصب نہیں ہوتا‘ اگر مشرف نے افتخار چوہدری کو گالیاں دی ہیں یا چودہ ججز کیساتھ اس کی کوئی مڈھ بیڑ ہوئی ہے تو بتائیں پھر ہم متعصب ہونے کا فیصلہ کردیں گے‘ آرمی چیف کو ایمرجنسی لگانے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا‘ مشرف چاہتے یہ ہیں کہ ان کی مرضی کا بنچ ہو اور ان کی مرضی کا فیصلہ ان کو ملے اور مستقبل میں وہ ایک بار پھر آئین کو روند سکیں‘جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ایک دو ججز کے متعصب ہونے کے باوجود بھی چودہ رکنی بنچ کے اجتماعی فیصلے کے باوجود چودہ رکنی لارجر بنچ کے اجتماعی موقف میں کوئی اثر نہیں پڑے گا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تعصب کا معاملہ اگر ایک جج بھی اس میں ملوث ہو تو اس کا الزام سارے ججز پر نہیں لگایا جاسکتا‘ ہم مشرف کو فوجداری قانون کا ایک فائدہ دے سکتے ہیں جس میں ایک شخص قتل میں یہ کہتا ہے کہ جناب ! میں نے اسلئے قتل کیا کہ اس نے مجھے للکارا تھا اور میں مجبور ہوگیا ‘ اگر ججز نے مشرف کو للکارا تھا تو آپ بتائیں‘ سزائے موت کو عمر قید میں بھی بدل سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کو دئیے ہیں ۔ جبکہ پرویز مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ جسٹس (ر) طارق پرویز‘ جسٹس (ر) غلام ربانی پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیاجسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ثبوت نہ ہو کسی کو متعصب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت نے رانا بھگوان داس کی عدم موجودگی کے حوالے سے منیر اے ملک کی کتاب کے اقتباس کو بھی مسترد کردیا۔

عدالت نے مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ کو (آج) جمعرات کے روز دلائل مکمل کرنے کیلئے صرف ایک گھنٹے کا وقت دیا ہے ۔بدھ کے روزسپریم کورٹ میں 31 جولائی 2009ء کے ایمرجنسی کے فیصلے کیخلاف دائر کردہ سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو ابراہیم ستی نے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں چودہ رکنی لارجر بنچ کے روبرو دلائل بدھ کے روز بھی جاری رکھے۔

سماعت کے آغاز پر انہوں نے کہا کہ شہریوں کو زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ پولیس فورس کی عزت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ شرپسند عناصر کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوئی جنہیں عدالت نے رہا کردیا۔ ابراہیم ستی نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خط کے مندرجات پڑھتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ غیر فعال ہوکر رہ گیا۔ ججوں کو ہر قسم کے احتساب سے بالاتر سمجھ لیا۔

معاشی نظام تباہ ہوکر رہ گیا۔ غیر ضروری ازخود نوٹسز نے بھی اداروں کی کارکردگی کو بے حد متاثر کیا۔ ریاست کے تین ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام نہیں کرررہے تھے۔ آرٹیکل 48 کے تحت تو ایڈوائس وزیراعظم نہیں دے سکتا تھا۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ یہ ایڈوائس نہیں تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ٹکا اقبال کیس میں ایمرجنسی کو چیلنج کیا گیا۔

دس جج اس مقدمے کو سن رہے تھے۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے حلف اٹھالیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو تو میں نے رہا کیا سارا قصور میرا ہے اسلئے وہ بنچ سے الگ ہوگئے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وہ تو فرینڈلی عدالت تھی اس میں کوئی خاص سماعت نہیں تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ملک چلانا مشکل ہوگیا تھا اسلئے یہ کارروائی کی گئی۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ خط تو صدر مملکت کو لکھا گیا تھا تو آرمی چیف نے کارروائی کیوں کی۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ وزیراعظم تو ایڈوائس کرتا ہے ایسے تمام معاملات صرف صدر مملکت پر تو نہیں چھوڑ دئیے جاتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم نے ایڈوائس نہیں کی صرف ملکی حالات کا تجزیہ کیا تھا۔ اس کے بعد آرمی چیف نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کس نے ایکشن لیا تھا۔ آیا صدر نے یا آرمی چیف نے لیا تھا۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ نے تو معاملہ ہی کلیئر کردیا اب مزید کس بات کی ضرورت باقی رہ گئی ہے کہ ہم اس معاملے کی سماعت کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خود تسلیم کررہے ہیں کہ آپ نے خود ایمرجنسی لگائی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے آپ کے مہربان اقدام کی ستائش کی تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ یہ قانونی طور پر ایڈوائس نہیں تھی۔ 3 نومبر 2007ء کو خط لکھا گیا تھا اور اسی روز ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا۔

وزیراعظم نے حالات کا جائزہ لے کر خط لکھا تھا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ خط کا ڈائری نمبر یا کچھ ریکارڈ موجود ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس خط کا اس طرح کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یہ کیا اور بھی بہت سی چیزوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ایم جاوید بٹر‘ نواز عباسی اور فقیر محمد کھوکھر کو جوکہ مستقل ججز تھے وہ بنچ سے چلے گئے کہ انہوں نے لال مسجد کے لوگوں کو رہا کیا ہے اسی لئے وہ خود ذمہ دار ہیں اور بنچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔

جسٹس خلجی نے کہا کہ خط میں الزام تھا کہ عدالت نے دہشت گرد رہا کیا اور آپ نے ان ججوں کو ہی حلف کیلئے بلایا جنہوں نے دہشت گردوں کو رہا کیا تھا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ایمرجنسی کے معاملے پر سات ججوں نے بعدازاں کیس کی سماعت کی تھی۔ مشرف نے اس وقت دو عہدے رکھے ہوئے تھے۔ وہ چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے اور صدر بھی اور انہوں نے آرمی چیف کے طور پر ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کی۔

دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ اس طرح کا اقدام کیا جاتا۔ اسی ایمرجنسی کے تحت ججز کو گھروں کو نہیں بھیجا جاسکتا تھا‘ خودکش دھماکے ہورہے تھے۔ جن دہشت گردوں کو رہا کیا گیا وہ انسانی جانوں کے ضیاع میں پوری طرح ملوث تھے۔ حکومت قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ حکومت آئین کے مطابق کام نہیں کرہی تھی اور جو حالات تھے اس کا آئین کے مطابق کوئی حل موجو دنہیں تھا جس کی وجہ سے تمام اعلی فوجی حکام سے مشاورت کی اور اس میں ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلہ ہوا۔

سینٹ اور قومی اسمبلی سمیت تمام ملک آئین کے مطابق چلیگا مگر عدلیہ اس طرح کام نہیں کرے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آئین نے آرمی چیف کو کہاں اختیار دیا تھا کہ وہ ایمرجنسی لگائے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ آئین میں یہ موجود نہیں ہے۔ جب بھی اسی ملک میں اس طرح کی کوئی پوزیشن ہوتی ہے اس کی اجازت عدالتوں نے ہی دی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ میرے سوال کی وضاحت کریں ہم نے فیصلہ لکھنا ہے۔

آئین میں اختیار نہیں تھا کہ وہ ایمرجنسی لگائے اس کا جواب آپ نے دے دیا باقی تو بحث ہے۔ ابراہم ستی نے کہا کہ باقی ملک اس ایمرجنسی سے قطعی متاثر نہیں ہوا صرف ججوں کے حلف نے تبدیلی کی تھی اور معاملہ مختلف ہوگیا اور اس پر عمل کیا گیا۔ آج کی عدلیہ اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ صرف مشرف کا ا کسیر اقدام ہے‘ ایسی بات نہیں ہے۔ ٹکا اقبال کیس کا فیصلہ دو سال رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹکا اقبال کیس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا۔ کیا اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ سب وزیراعظم کی ایڈوائس پر ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ایڈوائس نہیں تھی اور اس کا کوئی تعلق آرٹیکل 54 کے تحت نہیں تھا۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون سے بالاتر اقدام تھا۔ آئین میں اسے جائز قرار دے دیا تھا۔

آپ کا خیال تھا کہ پہلے کے غیرقانونی اقدام کو جائز قرار دیا گیا تھا اب بھی دے دیا جائے گا لیکن آپ کی بدقسمتی کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ 1959ء کا مارشل لاء بھی آرمی ہی کی مہربانی تھی۔ افتخار چوہدری نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ چار چیزیں ہوں سکیورٹی آف پاکستان ضروری ہے۔ حکومت کی اخلاقی حالت خراب ہوگئی ہو‘ زرمبادلہ ختم ہوکر رہ جائے گا۔

پانچ فیصلوں میں عدالت نے کہہ رکھا ہے کہ اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ٹکا اقبال کیس میں 2007ء کی ایمرجنسی کو درست قرار نہ دیا ہوتا تو کیا یہ غداری کا مقدمہ نہ ہوتا۔ ابراہیم ستی نے 1958ء‘ 1962ء سمیت کئی بار یہ اقدام کیا تھا۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ہوتے رہنے چاہئیں اور کوئی ان کو نہ روکے۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت چاہتی تو شکایت بھیجتی‘ انہوں نے نہیں بھیجی۔ میں نے صررف اتنا کہا ہے کہ آپ غداری کے مقدمے کو نہیں الٹا سکتے۔ سپریم کورٹ کا کام تحقیقات یا مانیٹرنگ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آپ ممنوعہ علاقے میں گئے تو اس میں ترمیم کیلئے ہمیں آنا پڑا۔ ظفر علی شاہ کیس میں جو کہا گیا آپ نے اس سے مکمل طور پر انحراف کیا ہے۔

ابراہیم ستی نے مولوی تمیزالدین کیس‘ 1958ء سپریم کورٹ‘ 1997ء سپریم کورٹ‘ نصرت بھٹو کیس‘ پی ایل ڈی 1972ء سپریم کورٹ کیس‘ 1977ء کیس‘ ظفر علی شاہ کیس کے حوالے دئیے۔ ان سب مقدمات میں یہ اصول وضع کیا گیا۔ عوام کی دلچسپی سپریم ہے۔ اگر اس سے انحراف کیا جائے تو انتہائی اقدام کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے 3 نومبر 2007ء کا چیمبر میں جاری کردہ حکم پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ساگ رکنی بنچ نے جاری کیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزار نے جو کرنا تھا کرلیا‘ ایمرجنسی تو نافذ ہوگئی تھی اب اس حکم نامے کو پڑھنے سے کیا حاصل ہوگا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ اس آرڈر پر کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس حکم نامے میں ججوں کو حلف اٹھانے اور فوجی حکام کو مشرف کی مدد کرنے سے روک دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے دلائل میں کافی کچھ کہہ دیا تھا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ عدالت نہیں‘ اٹارنی جنرل نہیں ہے‘ کوئی نوٹس نہیں ہے‘ فیصلہ کردیا گیا۔ سی ایم اے اعتزاز احسن نے فائل کی تھی۔ وجیہ الدین کیس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری خود کو بنچ سے الگ کرچکے تھے مگر اس کیس میں وہ خود بھی شامل ہوگئی‘ کسی کی حاضری تک نہیں تھی۔

ادھر اگر حکومت قانون سے ماوراء اقدام کررہی تھی وہاں عدلیہ بھی اسی طرح سے ہی اقدام کررہی تھی۔ ججوں نے دستخط نہیں کئے تھے۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں خبر آئی کہ ایمرجنسی لگادی گئی‘ پسند کے جج لگائے جارہے ہیں‘ کہا گیا کہ ہائی پروفائل کیس کی سماعت ابھی ہونی ہے جس کی وجہ سے حکومت نے یہ ایمرجنسی لگائی۔ پی سی او کے تحت حلف لینے سے روکا گیا۔

سول اور ملٹری اتھارٹیز کو پی سی او کے تحت کوئی بھی اقدام کرنے سے روکا گیا۔ دیگر ایسے کام کرنے سے بھی روکا جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جسٹس بھگوان داس نے خود فون کرکے بتایا کہ سپریم کورٹ نے یہ حکم جاری کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جسٹس بھگوان داس ججز کالونی میں زیر حراست تھے؟ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ وہ زیر حراست نہیں تھے اور سپریم کورٹ میں رانا بھگوان داس موجود تھے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ 5 نومبر 2007ء کا آرڈر ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دو صحافی مطیع اللہ جان اور قیوم صدیقی گواہ کے طور پر موجود تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے ایمرجنسی لگادی تھی۔ پی سی او ایشو کرنے پرآپ کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے آپ اپنے کیس تک رہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اپ نے یکطرفہ فیصلہ کررکھا ہے۔ آپ کو ان تمام باتوں کو دیکھنا ہے۔

میں نے اکیلے یہ کام نہیں کیا سینکڑوں میرے ساتھ تھے۔ جسٹس آصف نے کہا کہ بہت اکیلے کی بات ہوچکے ہے‘ مدعی صرف وفاقی حکومت ہے ہم اس کو نہیں کہہ سکتے کہ فلاإ کو ملزم بناؤ‘ کل کوئی قتل ہوجائے تو عدالت کسی کو ملزم نہیں بناسکتی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وفاقی حکومت بادشاہ نہیں ہے وہ ریاست ہے وہ بنیادی حقوق سے انحراف کرسکتی ہے۔ آپ یہ ریزرویشن نہ دیں۔

کسی کی جان کو خطرہ ہے۔ منیر اے ملک نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ صبح سات بجے تک عدالتی حکم پر کوئی دستخط نہیں تھے۔ انہیں یہ حکم جسٹس (ر) طارق محمود نے دکھایا تھا۔ عبدالحمید ڈوگر نے اپنے مقدمے میں بہت کچھ بتلایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم جاری ہی نہیں ہوا تھا۔ آٹھ ججوں کے پاس ان کی اپیل لگی تھی‘ اس جھگڑے سے جان چھڑانے کی کوشش کی گئی تھی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو فرینڈلی فائر تھے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ یہ فیصلہ 2011ء میں جاری کیا گیا۔ یہ بیان میں نے ہی ڈوگر کی طرف سے عدالت میں جمع کروایا تھا۔ انہوں نے بیان اسلئے دیا تھا کہ انہوں نے معافی مانگی تھی۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ انہوں نے یہ حکم نامہ مانا تھا اور معافی مانگی تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ آپ کے فیصلے سے کافی لوگ متاثر ہوئے ہیں اور مزید ہوسکتے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بھی کہہ رکھا ہے کہ چیف جسٹس کیخلاف قواعد سے ہٹ کر کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر آپ چیف جستس کیساتھ ایسا کریں گے تو کل کو آپ کیساتھ بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ نے پہلے تو نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ افتخار چوہدری چونکہ میرے موکل کیساتھ دشمنی رکھتے تھے اسلئے ان کے چیف جسٹس رہنے تک ہم نے جان بوجھ کر نظرثانی کی درخواست دائر نہیں کی۔

ہم نے تو پہلے ہی کہ تھا کہ یہ تاثر نہیں آنا چاہئے کہ یہ غداری کا مقدمہ سپریم کورٹ چلا رہی ہے وگرنہ ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر وہ مشرف کیخلاف کاعرروائی کرنے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ وہ مشرف کیخلاف کارروائی کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو پراسیکیوشن کا لکھا ہوا خط تھا۔

آپ اس کے حوالے سے دفاع کرسکتے ہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس کیس میں سپریم کورٹ ہی مدعی بن گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر یہ کارروائی کروائی جارہی ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اگر شکایت میں یہ سب کچھ لکھ دیا گیا ہے تو اسے خصوصی عدالت میں چیلنج کریں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا کہ آپ قانون سے ماوراء اقدام کرنے کو تسلیم کرچکے اب کون کیا کہتا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

ابراہیم ستی نے کہا کہ آپ کا نام غلط طور پر استعمال ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کے تحفظات نوٹ کرلئے ہیں آپ آگے بات کریں۔ ابراہیم ستی نے اس معاملے پر بھی دو عدالتی فیصلوں کے حوالے دئیے۔ پریوی کونسل اور سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالت پولیس کیساتھ فرائض میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ اگر الزام ثابت نہیں ہوتا تو عدالت خواہ مخواہ پولیس کو ایسے ملزم کیخلاف کارروائی کا نہیں کہہ سکتی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عدالت میرے حق میں مداخلت کرے۔ آپ نے اپنی مرضی کا دفاع کرنا ہے۔ آپ سینئر وکیل ہیں۔ وزیراعظم کچھ کہتا ہے آپ اس وقت ایکشن لیں گے جب آپ خصوصی عدالت جائیں گے۔ آپ ہمیں کہہ رہیں کہ وزیراعظم کو کہہ دیں‘ عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وفاقی حکومت تو سو رہی ہے آپ نے حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ریاستی ادارے کا اپنا ہی کام ہے اور عدالت کا کام انصاف فراہم کرنا ہے۔ ابراہیم ستی نے درخواست کے قابل سماعت ہونے اور تاخیر سے دائر کرنے کے حوالے سے اپنے دلائل مکمل کئے تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں دس منٹ مزید دے دیں زیادہ وقت نہیں لیں گے‘ عدالت نے اجازت دے دی جس پر انہوں نے کہا کہ تین باتیں جسٹس انور ظہیر جمالی نے درخواست کی زبان پر اعتراض کیا تھا اس حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ ہم نے کسی جج کو سکینڈلائز نہیں کیا بلکہ حقائق بیان کئے ہیں۔

یہ پہلا ریویو ہے۔ یکطرفہ مقدمہ تھا اس کیس میں آزاد عدالتی معاون مقرر نہیں کیا گیا تھا‘ میرے بارے میں کہا گیا کہ میں نے سب اقدامات غیر آئینی کئے‘ غیر آئینی اقدام پر غداری کا مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے دو فیصلے بھی موجود ہیں۔ اشرف آفریدی کیس‘ 1994ء کے سپریم کورٹ مقدمے میں بھی عدالت نے اس بات کو ہولڈ کیا ہے۔ ابراہیم ستی نے صدر کو عہدے سے ہٹانے اور محاسبہ کرنے کا آرٹیکل بھی پڑھ کر سنایا۔

صدر اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کا محاسبہ پارلیمنٹ کرسکتی ہے۔ ترمیمی احکامات صدر نے جاری کئے تھے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ ایمرجنسی تو آرمی چیف نے نافذ کی تھی۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ ترمیمی معاملات کو بھی آپ کو دیکھنا ہوگا۔ 270 ڈبل اے شامل کیا گیا۔ اس میں سابق صدر پرویز مشرف کی پہلی ایمرجنسی کو جائز قرار دیا گیا۔ تمام ججز کو 1954 سے لے کر اب تک جنہوں نے بھی مارشل لاء کو جائز قرار دیا گیا ان کی کارروائیوں کو تحفظ دیا گیا۔

چیف جسٹس سمیت 106 ججز نے توہین عدالت کی کارروائی بھگتی۔ اب بھٹو کیس بیس سال بعد بارہ ججز ری وزٹ کررہے ہیں۔ آپ کو یہ فیصلہ بھی ریویو کرنا ہی ہے۔ آج نہیں تو کل کریں گے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ ان فیصلوں کی وجہ سے ٹکا اقبال کیس کا دوبارہ جائزہ لیا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ اس 31 جولائی 2009ء کے فیصلے کو بھی ری وزٹ کریں۔ شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ وہ بہت ہی جامع انداز میں دلائل کے آغاز کریں گے۔

میں جو کچھ کہوں گا پاکستان‘ امریکہ‘ کینیڈا اور بھارت کے قانون کا جائزہ لے کر کہوں گا۔ قائداعظم نے سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے حوالے سے جو کہا تھا وہ بھی بتانا چاہوں گا۔ اشرف آفریدی کیس کا حوالہ دیا۔ آزاد عدالت‘ ٹربیونل اور ججز کے بارے میں کہنا چاہوں گا۔ جسٹس سرمد جلال نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے تعصب کا مظاہرہ کیا۔

شریف الدین پیرزادہ نے دیگر مقدمات کا بھی حوالہ دیا۔ 31 جولائیء کیلئے تین ججز ایسے تھے جو اس کیس کا حصہ اور فریق تھے۔ ان میں سے ایک چیف جسٹس بھی تھے۔ انصاف تک رسائی آرٹیکل 9 کے تحت سب شہریوں کا حق ہے شفاف ٹرائل کا مقصد مناسب ٹرائل ہے۔ اگر کسی جج کی ذاتی دلچسپی ہو تو وہ کیس نہیں سن سکتا۔ انصاف ایسا کیا جائے گا کہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔

ایک جج جو کسی مقدمے میں کسی ملزم کے حوالے سے کوئی ایڈوائس جاری کرتا ہے تو وہ مقدمے میں نہیں بیٹھ سکتا۔ 2001ء کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ متعصب ہونے کے حوالے سے ایک شاندار فیصلہ ہے۔ عدالت میں موجود ججز اپنے مفاد سے ہٹ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔ جج کو ذاتی حیثیت سے متعصب نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ایسا ہوتا تو انصاف کا خون ہوگا اور درخواست گزار کا ذہن مطمئن نہیں ہوگا او وہ اس بات کا یقین رکھے گا کہ مذکورہ جج اس کیساتھ انصاف نہیں کرے گا۔

ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ جج کے کنڈکٹ سے ہرگز یہ بات ظاہر نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کس کیساتھ ہے۔ اسے آئین و قانون کا ساتھ دینا ہے اپنا نہیں۔ گذشتہ پندرہ سال میں تبدیلی آئی ہے اور اب معاملات آئین و قانون کی بجائے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر دئیے جارہے ہیں۔ انہوں نے 2012ء کے ایک عدالتی فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ غلام ربانیا ور طارق پرویز ہیں جو 31 جولائی کے فیصلے میں خود بھی متاثرہ تھے اور فریق بھی تھے۔

انہیں اس بنچ کا حصہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان ججز کی دلچسپی کو کیس سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ججز اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں گے تو پھر انصاف کیسے اور کیونکر دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے آصف زرداری کیس کا بھی حوالہ دیا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اگر دو رکنی بنچ ہو اور ایک جج الگ ہوجائے تو فیصلہ ختم ہوجائے گا اور جہاں چودہ ججز موجو ہوں تو تین کی علیحدگی سے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر کوئی جج متعصب بھی ہوجائے تب بھی اجتماعی رائے کو فوقیت دینا پڑے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ابراہیم ستی نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو ایک ایمرجنسی جاری کی گئی۔ آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ لکھا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کیا۔ وزیراعظم کی ایڈوائس پر کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ ایڈوائس بنتی ہی نہیں تھی۔

مشرف کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنا ذاتی اختیار استعمال کیا ہے اب متعصب ہونے کا سوال آپ کے جواب کیلئے ضروری ہے اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھیں اور کیا ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی موقف ہے۔ مجیھے پہلے متعصب ہونے کے معاملے پر دلائل مکمل ہونے دیں۔ اگر کسی جج کا کسی کیساتھ دوستانہ ہو یا دشمنی ہو تب بھی اسے کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تعصب بارے قانون سے آگاہ ہیں اس حوالے سے یک رکنی ٹربیونل پر لاگو ہوتا ہے کیا لارجر بنچ پر بھی یہ کیس لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کے دلائل اپنی جگہ مگر ججوں کی اجتماعی رائے کو کیسے نظرانداز کریں گے۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے شریف الدین کو کرسی پر بیٹھ کر دلائل دینے کی پیشکش کی تو انہوں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرف کو ہوسٹائل کیا گیا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ججز کے ذہن یا تصور میں اس طرح کا خیال آجائے تو اور بات ہے مگر جج کو معلوم ہوتا ہی کہ اس کی شفافیت پر ضروریات ہوگی۔ مشرف کے کیس میں ابراہیم ستی‘ احمد رضا قصوری اور قمر افضل نے دلائل دئیے اور میرے حوالے سے چار سے پانچ روز لگادئیے اگر ایسی کوئی بات ہے تو ہم اس سے الگ ہوسکتے ہیں لیکن یہ ہماری تربیت کا حصہ ہے‘ ممکن ہے کہ جواد ایس خواجہ کو ذاتی طور پر مشرف پسند نہ ہو مگر انصاف کیلئے جسٹس جواد قانون سے روگردانی نہیں کرسکتے۔

ہمارے خلاف بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ وکی میڈیا سے میرے لئے مواد لائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی بحالی کی کے نواز شریف کیس میں بھی اس حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس مقدمے کی خصوصی طور پر سماعت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر ادارہ اپنے ڈومین میں کام کرتا ہے اور ہر جج نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آصف زرداری کا کیس پڑھا وہاں پر ایک جج کے حوالے سے میٹریل آیا تھا۔

سرکار سے ڈپلومیٹک پاسپورٹ حاصل کیا تھا اس حوالے سے ٹیلیفون کال کا ریکارڈ بھی تھا۔ اگر اس طرح اسے ہمارے بارے میں کچھ سامنے آجائے تو بتایا جائے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ مشرف کو عدالت میں ہونے والی سماعت کا پتہ تھا پھر بھی وہ لندن چلے گئے۔ اگر انہیں کسی جج پر اعتراض تھا تو وہ کہہ سکتے تھے اب آکر یہ دلیل لینا مناسب نہیں ہے۔ شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ جب افتخار چوہدری کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس ارسال کیا گیا اس وقت مشرف کو ہوسٹائل کیا گیا۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ اس کیس میں دو حقائق ہیں کہ چیف جسٹس متعصب ہوکر دوسرے ججز پر اثر رکھتے تھے اور انہوں نے 13 دیگر ججز کو بھی اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرلیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دو حکومتی افسران کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے کے باوجود آئین و قانون کے مطابق کام کریں گے اور کسی کو ذاتی مفاد کیلئے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شریف الدین پیرزادہ نے کہا کہ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کا طریقہ بتایا ہے کہ آسٹریلین عدالت نے کہا ہے کہ اگر لارجر بنچ میں موجود دو سے تین جج بھی متعصب ہوں تو ا سکا اثر مکمل فیصلے پر ہوگا اور باقی بھی ان کی دیکھا دیکھی مخالفت میں فیصلہ دے دیں گے۔ کارنیلیئس نے بھی یہی کہا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ جس کیس کا حوالے دہ رہے ہیں اس میں بتادیں کہ چیف جسٹس کو مشرف نے گالیاں نکالی تھیں۔

اس سے اگر فیصلے تبدیل ہوئے ہیں تو بتادیں۔ ساہیوال کے ایک مقدمے میں ایک جج پر الزام تھا کہ فریق ثانی کی خواتین کیساتھ آپ کے ناجائز تعلقات ہیں۔ وہ خط میں نے فریق اول کو دکھایا‘ خاتون کو بلوایا۔ میں نے کہا کہ میں تو آپ کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ مجھے میرے سردار نے مشورہ دیا تھا کہ یہ جج ہمارے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے‘ فیصلہ بچانے کیلئے تم اسے خط لکھو تب میں نے لکھا ہے۔

اگر چودہ ججز کیخلاف مشرف نے نامناسب زبان استعمال کی ہو تو بتائیں ہم الگ ہوسکتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے جس مقدمے کا حوالہ دیا ہے ایک انتظامی ٹریبونل کا کیس تھا اس کو کسی عدالت نے نہیں سنا تھا۔ ججز کا حلف ان کو بدنیتی اور متعصب ہونے سے بچاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو ہمارے معاشرے کی اہمیت ہے اگر آسٹریلیا میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اچھنجھے کی بات ہے ۔

گمنام چھٹیاں تو تقریباً ہر جج کے نام آتی ہیں ان کی بنیاد پر فیصلے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ اکیلے آدمی کے تعصب سے14 رکنی لارجر بنچ پورا کا پورا متاثر ہوگیا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے جسٹس آصف نے کہا کہ فوجداری قانون میں ایک چیز موجود ہے جس میں ایک شخص للکارتا ہے اور دوسرا اس شخص کو قتل کر دیتا ہے اس میں ہم سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔

کیا چیف جسٹس نے ایسا کیا تھا وہ بتا دیا۔ شریف الدین نے کہا کہ پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے درمیان دشمنی تھی ۔جسٹس جواد نے کہا کہ وہ دشمنی ہمیں اپنی درخواست کے کسی پیراگراف سے ثابت کردیں مجھے تو وہ دشمنی نظر نہیں آئی۔شریف الدین نے ایک پیراگراف کا حوالہ دیا اور کہا کہ مجھے اس حوالے سے وقت دیں۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں ضرور بتائیں کہ گالیاں دینے سے معاملہ تعصب ہوگیا ہم آپ کو دلائل کا پورا موقع دیں گے اور آپ کے اطمینان تک آپ کو سنیں گے ۔

جج کے ساتھ کوئی نا انصافی کر دے تو کردے مگر جج کے کسی کے ساتھ انصافی نہیں کریگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو وقت دے رہے ہیں ہمیں اس حوالے سے ضرور بتائیے گا۔ اب مزید دلائل دیں،جس پر شریف الدین نے مزید دلائل دیئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو اعتراض لگایا اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اعتراض اس جج کے روبرو اٹھایا جاتا ۔مگر آپ نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا۔

ذوالفقار بھٹو کیس میں متعصب ہونے کا اعتراض ہائی کورٹ میں اٹھایا گیا تھا ۔آپ نے یہ تک نہیں لکھا کہ آپ کو چیف جسٹس کے متعصب ہونے کا کب پتہ چلا۔شریف الدین نے بنگلور پرنسپل آف انڈیپنڈنٹ آف جوڈیشری کتاب کا بھی حوالہ دیا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس کتاب میں ان کا بھی ایک مضمون چھپا ہے ۔جسٹس گلزار نے کہا متعصب ہونے کا معاملہ ہر شخص کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے اگر جج کو بتادیا جائے تو ممکن ہے بات واضح ہوئے ۔ شریف الدین پیرزادہ کے دلائل ابھی جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر مقدمے کی مزید سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد آج فیصلہ بھی جاری ہونے کا امکان ہے۔