غداری کیس، پرویز مشرف کو عدالت میں حاضری کیلئے 18 فروری تک آخری مہلت،سماعت ملتوی، مشرف کے وکیل انور منصور کی یقین دہانی پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کئے جارہے،مشرف اٹھارہ فروری کو عدالت میں پیش ہوں،خصوصی عدا لت کا فیصلہ، عدالت نے مشرف کے ضامن راشد قریشی کو بھی عدالت طلب کرلیا، 10 فروری مشرف کے وکیل خالد رانجھا آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کی سماعت بارے دلائل دیں گے،خصوصی عدالت نے عدالت میں پیش ہونے سے ا ستثنی اور قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لینے کے حوالے سے دائر پرویز مشرف کی دونوں درخواستیں نمٹادیں

ہفتہ 8 فروری 2014 08:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8فروری۔2014ء)پرویز مشرف غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو عدالت میں 18 فروری تک حاضری کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے اور کہا ہے کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی نہیں بتائی گئی تاہم ان کے وکیل انور منصور کی یقین دہانی پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کئے جارہے مشرف اٹھارہ فروری کو عدالت میں پیش ہوں۔

عدالت نے مشرف کے ضامن راشد قریشی کو بھی عدالت طلب کیا ہے جبکہ عدالت نے وکلاء صفائی کی جانب سے سابق صدر کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی استدعا منظور کرلی ہے اور استثنیٰ و قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لینے کیلئے دائر درخواستیں بھی نمٹا دی ہیں ۔ 10 فروری کو مشرف کے وکیل خالد رانجھا آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے کی سماعت کیلئے دائر کی گئی درخواست کے حق میں دلائل دینگے ۔

(جاری ہے)

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ مشرف کے وکیل انور منصور پر واضح کیا تھا کہ اگر اٹھارہ فروری کو مشرف پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جمعہ کو چار بجے شام رجسٹرار خصوصی عدالت عبدالغنی سومرو نے عبوری فیصلہ سنایا۔ جس میں انہوں نے پرویز مشرف کے ضامن راشد قریشی اور پرویز مشرف کو 18 فروری کو پیش ہونے کے حوالے سے عدالتی احکامات سنائے ہیں۔

خصوصی عدالت نے عدالت میں پیش ہونے سے ا ستثنی اور قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لینے کے حوالے سے دائر پرویز مشرف کی دونوں درخواستیں نمٹادی ہیں۔ جمعہ کے روز جب سماعت شروع ہوئی تو تین رکنی عدالتی سربراہ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا سابق صدر کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیری رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی پولیس کی جانب سے ایس پی کیپٹن الیاس نے تعیلی رپورٹ پیش کردی ہے اور انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کی تعمیل ہوچکی ہے مگر تحفظات کے ساتھ ہوئی ہے ۔

انور منصور نے کہا کہ آج استثنیٰ کے حوالے سے درخواست دائر کررہے ہیں اور عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل رپورٹ پر وکلاء صفائی کو سنے بغیر فیصلہ دیا اور اپنا نقطہ بیان نہیں کرنے دیا گیا ۔ انور منصور نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی خصوصی عدالت میں تین درخواستیں استثنیٰ ہیں جن میں عدالت کی تشکیل ، پراسکیوٹر کے تقرر اور ججز کے تعصب بارے درخواستیں شامل ہیں اور آج سابق صدر کی عدالت سے استثنیٰ ، عدالتی دائرہ کار ، خصوصی عدالت کی بجائے ملٹری کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے حوالے سے درخواست دائر کررہے ہیں جس پر عدالت نے انہیں اپنی گزشتہ درخواستوں پر دلائل کی اجازت دی ۔

اس پر انور منصورنے عدالتی دائرہ اختیار بارے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اگر فرد جرم عائد کردی جائے اور بعد میں فیصلہ آئے کہ یہ اس عدالت کا اختیار نہیں تھا تو یہ ملزم کے ساتھ ناانصافی ہوگی جبکہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد میڈیا پوری دنیا میں سابق صدر کا میڈیا ٹرائل کرے گا ۔ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ دائرہ اختیار اور مذکورہ درخواستوں کا فیصلہ آنے تک سماعت روکی جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہم دائرہ اختیارپر فیصلہ دے چکے ہیں آپ صرف اعتراضات بارے درخواست دلائل دے سکتے ہیں جس پر انور منصور نے کہا کہ میرا موقف کہتا ہے کہ خصوصی عدالت اس مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتی جس پر جسٹس فیصل عرب نے ان سے استفسار کیا کہ جب کوئی معاملہ عدالت کے سامنے آئے تو صرف اختیار سماعت پر کارروائی روکی جاسکتی ہے اس پر انور منصور نے جواب دیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 556کے تحت آپ خود کارروائی روک سکتے ہیں ایک مرتبہ فرد جرم عائد ہوجائے تو عدالت کو اختیار سماعت حاصل ہوجائے گا اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر بعد میں کسی مرحلہ پر ثابت ہوجائے کہ اختیار سماعت نہیں تھا تو میرٹ پر فیصلہ کرنا ممکن ہوتا ہے ۔

انور منصور نے مزید کہا کہ سابق صدر کو عدالت میں پیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں وہ اس سے قبل بھی سات عدالتوں میں پیش ہوچکے ہیں مگر خصوصی عدالت کے حوالے سے ان کی پیشی سے قبل اعتراضات کو دور کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو قانون کہتا ہے کہ فوری طور پران پر فرد جرم عائد کردی جائے اور اگر فرد جرم عائد کردی گئی تو سابق صدر کا نہ ختم ہونے والا میڈیا ٹرائل شروع ہوجائے گا ۔

لہذا اپنا اختیار سماعت ثابت ہونے تک کوئی نیا حکم نامہ جاری نہ کرے ۔ اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فرد جرم عائد بھی ہوجائے تو اختیار سماعت نہ ہونے تک سماعت مقدمہ متعلقہ عدالت کو منتقل ہوجاتی ہے جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ اس دوران ہونے والی کارروائی کو متعلقہ عدالت پھر غیر قانونی قرار دیگی ۔ انور مقصود کا مزید کہنا تھا کہ قانونی اصولوں کے تحت اسے عدالت کی حقیقت کا تعین ہونا ضروری ہے کہ دائرہ اختیار کے بغیر کسی مقدمے کی سماعت کوئی عدالت نہیں کرسکتی اور دائرہ اختیار کے تعین کے بغیر حکم نامہ جاری کردیا جائے تو ملزم کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔

انہوں نے آرمی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ اس عدالت کے اختیار پر پابندی عائد کرتا ہے میں مسلسل الزام لگا رہا ہوں کہ یہ مقدمہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے ان لوگوں سے مذاکرات تو ہورہے ہیں جنہوں نے پاکستان کیخلاف جنگ شروع کررکھی ہے تاہم عدالتی سربراہ انور منصور کو روکتے ہوئے کہا کہ یہ غیر ضروری بات ہے سیاسی معاملات کا عدالت میں تذکرہ نہ کریں اس کے بعد انور منصور نے اپنی درخواست پر دوبارہ دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انصاف اس وقت تباہ ہوجاتا ہے جب ایک ہی ذہن والے لوگ کسی ملزم کا ذاتی انا یا دشمنی کی بنیاد پر ٹرائل کرنا شروع کردیں انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے عدالتی دائرہ اختیار ، یکم فروری 2014ء کے عدالتی حکم نامے ، پراسکیوٹر کی تقرری ، ججوں کا تعب اور خصوصی عدالت کی بجائے آرمی کورٹ میں مقدمہ کی سما عت کے علاوہ ایک درخواست سابق صدر کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دینے بارے دائر کی ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ ہر استدعا کی ضابطہ کے مطابق الگ درخواست دینگے آج اس درخواست کو قبول کرلیا جاتا ہے لیکن آئندہ ہر استدعا کیلئے الگ درخواست دائر کرنی ہوگی ۔

اس موقع پر انور منصور نے جمعہ کے روز عدالت میں دائر کی گئی درخواست پڑھ کر سنائی جس میں زیر التواء درخواستوں کی سماعت کی استدعا کی گئی تھی اور یکم فروری 2014ء کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے حوالے سے ذکر کے علاوہ پراسکیوٹر کی تقرری سمیت دیگر باتیں شامل تھیں ۔ انور منصور کا کہنا تھا کہ سابق صدرکے ضمانتی مچلکے تحفظات کے ساتھ جمع کروادیئے گئے تھے جس میں ضامن کی پراپرٹی کے کاغذات کی نقول بھی شامل تھیں ۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے کی سماعت اٹھارہ فروری تک ملتوی کی جائے تو وہ عدالت کو اس بات کی یقین دہانی کرواسکتے ہیں کہ اگلی سماعت پر ہر صورت میں ملزم عدالت میں پیش ہوگا اور عدم پیشی کی صورت میں عدالت ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرسکتی ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ الگ معاملہ ہے اس کیلئے الگ درخواست دائر کریں ۔ انور منصور نے کہا کہ میرے موکل کو عدالت میں پیش ہونے سے کوئی حرج نہیں مگر قانون کے مطابق ان کی پیشی کی صورت میں ان پر فرد جرم عائد کردی جائے گی جبکہ عدالتی دائرہ اختیار ، پراسکیوٹر کی تقرری ، ججز کے تعصب ، وفاقی حکومت کے حکم نامے ، ججز کے چناؤ اور عدالتی تشکیل بارے اعتراض پہلے ہی زیر سماعت ہیں جبکہ یکم فروری کے فیصلے کے بعد پورے ایک ہفتے کا وقت ہونے کے باوجود ہماری درخواستوں کی سماعت نہیں کی گئی جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کئی مرتبہ حکم جاری کرچکے ہیں مگر اس کے باوجود ملزم عدالت میں پیش نہیں ہورہا کیا وہ صحت یاب ہیں اگر ملزم عدالت میں پیش ہوکر یہ کہہ دے کہ میں آئندہ سماعت پر کسی وجہ سے نہیں آسکتا میرے وکلاء عدالت میں موجود ہیں اور زیر التواء درخواستوں کا فیصلہ آنے تک مجھ پر فرد جرم عائد نہ کی جائے تو عدالت اس پر غور کرسکتی ہے اس پر انور منصور نے کہا کہ انہیں کل اتوار کو ایک ہفتے کیلئے بیرون ملک جانا ہے اگر ان کے آنے تک سماعت ملتوی کردی جائے تو وہ ایک بار پھر عدالت کو یقین دہانی کرواتے ہیں کہ اگلی سماعت پر ان کا موکل عدالت میں پیش ہوگا تاہم اس موقع پر عدالتی سربراہ نے استفسار کیا کہ ملزم کی ضمانت دینے والا ضامن کہاں ہے اگر ملزم پیش نہیں ہوسکتا تو کم از کم ضامن کو تو عدالت میں آنا چاہیے تھا جس پر انور منصور نے کہا کہ عدالت انہیں وقت دے وہ ابھی ضامن کو بلا لیتے ہیں ۔

اس موقع پر استغاثہ کے وکیل نصیر الدین نیئر ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے باوجود ملزم کی عدالت میں عدم پیشی کے بعد فاضل عدالت کے پاس ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ، اس سے قبل بھی کئی بار یہ یقین دہانی کروائی گئی اور کئی بار عدالت نے احکامات جاری کئے مگر ملزم عدالت میں پیش ہی نہیں ہونا چاہتا جبکہ وکلاء صفائی کی جانب سے عین اس دن ایک نئی درخواست دائر کردی جاتی ہے جس دن عدالتی حکم کے مطابق ملزم کو عدالت میں پیشی کے احکامات ہوتے ہیں لہذا ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں جس پر فیصل عرب نے کہا کہ زیر التواء درخواستوں کا فیصلہ ضروری ہے اور وکیل صفائی کی عدم موجودگی تک سماعت ملتوی کرنا ہوگی ۔

اس پر ایک مرتبہ پھر وکیل استغاثہ نے اعتراض اٹھایا کہ خصوصی عدالت کی کارروائی کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہے ڈیڑھ ماہ گزر چکے ہیں مگر صورتحال اسی طرح ہے اور ضامن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا اگر ضامن عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہوا تو کیا عدالت ضمانت ضبط کرلے گی جس پر فیصل عرب نے کہا کہ مقدمے کی سماعت نماز جمعہ کے وقفہ تک ملتوی کی جاتی ہے جس کے بعد تفصیلی فیصلہ جاری کیاجائے گا اور فیصلے میں وکیل صفائی انور منصور کے بیان کو بھی حصہ بنایا جائے گا ۔ بعد میں جمعہ کو چار بجے شام رجسٹرار خصوصی عدالت عبدالغنی سومرو نے عبوری فیصلہ سنایا۔

متعلقہ عنوان :