کوئٹہ ،بلوچستان میں امن، استحکام ،ترقی ،خوشحالی و گڈگورننس کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہوگئے ،مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے وزراء و مشیر اختیارات و مراعات کی کشمکش میں الجھ گئے

ہفتہ 8 فروری 2014 08:02

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8فروری۔2014ء)بلوچستان میں امن استحکام ترقی خوشحالی و گڈگورننس کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئے اپنی عمر کے آٹھویں زینے پر قدم رکھنے والی مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے وزراء و مشیر اختیارات و مراعات کی کشمکش میں الجھ کر رہ گئے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ارکان بلوچستان اسمبلی نے لیویز فورس میں تین سو اہلکار بھرتی کرالئے جبکہ وزراء کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کی تجویز زیر غور ہے انتہائی باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر موجودہ مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی نے اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے لیویز فورس میں عارضی بنیادوں پر تین سو اہلکار بھرتی کرائے ہیں وزراء  ارکان اسمبلی اور ایم این ایز سمیت وی آئی پیز نے چار چار اہلکار اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں عارضی بنیادوں پر بھرتی کئے جانے والے لیویز اہلکاروں کو تنخواہیں محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے ادا کی جائیں گی اور ایک ایک اہلکار کی تنخواہ انیس ہزار روپے کے قریب مقرر کی گئی ذرائع نے بتایا کہ لیویز فورس میں بھرتی کیلئے ارکان اسمبلی کی جانب سے تجویز کردہ افراد کے کوائف و دیگر چال چلن کی تصدیق اسپیشل برانچ اور ڈسٹرکٹ پولیس سے کرائی گئی ذرائع نے بتایا کہ ارکان اسمبلی میں خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے سیکیورٹی کے نام پر اپنے لوگ بھرتی تو کرائے ہیں تاہم کبھی انہیں کہیں دیکھا نہیں گیا البتہ تنخواہ معمول کے مطابق وصول کی جارہی ہیں جبکہ ذرائع نے بتایا کہ حکومتی ارکان نے بلٹ پروف گاڑیوں اور اسکواڈ کا بھی تقاضہ کیا ہے بلٹ پروف گاڑیوں کی فراہمی کیلئے چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو اس تجویز کا باقاعدہ جائزہ لے رہی ہے کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کی باقاعدہ منظوری دی جائے گی ذرائع نے بتایا کہ بلٹ پروف گاڑیوں اور ارکان اسمبلی کو سیکیورٹی کے حوالے سے انتظامات کیلئے پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں وزراء و ارکان اسمبلی کی تنخواہوں و مراعات میں اضافہ کے فیصلے کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے بعد ارکان اسمبلی کی تنخواہیں 20 سے بڑھا کر 60 ہزار روپے کر دیں، وزیراعلیٰ کی تنخواہ 35 ہزار سے بڑھا ایک لاکھ، سپیکر کی تنخواہ 37 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی گئیں جبکہ ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ 32 ہزار اور صوبائی وزرا کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھا کر 90، 90 ہزار روپے ہو گئی وزیراعلیٰ اور وزراء کو لامحدود ٹیلی فون کی سہولیات کا حق ہو گا گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی سیاسی و جمہوری حکومت نے اپنی عمر کے آٹھویں زینے پر قدم رکھا ہے بلوچستان میں امن استحکام ترقی خوشحالی گڈ گورننس ،تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبوں میں بہتری لانے کے حوالے سے دعوے تو کئے گئے لیکن کارکردگی حوصلہ افزا نظر نہیں آرہی ادھر مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) کے وزراء و مشیر اختیارات نہ ملنے اور مختلف فیصلوں میں نظر انداز کئے جانے پر نالاں ہیں بلکہ استعفیٰ دینے اور اسمبلی میں آزاد بینچوں پر بیٹھنے کی دھمکی تک دیدی ہے مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو یہ شکوہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جارہا اور انہیں کسی قسم کے اختیارات نہیں دیئے گئے اسی طرح کی شکایات خود نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء کو بھی ہے تاہم سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف اختیارات نہ ملنے اور نظر انداز نہ کئے جانے پر ناراضی کا اظہار کیا جارہا تو دوسری طرف عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے وزراء و مشیر اپنی تنخواہوں اور مرعات میں اضافہ کرارہے ہیں تو بلٹ پروف گاڑیاں لینے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے جو باعث تشویش ہے اگر یہی صورتحال رہی تو پھر پسماندگی و محرومی کا خاتمہ محض خواب رہے گا ۔