خواتین کو ہراساں کرنے کے قانون کا طالبات پر اطلاق،نئے صوبوں کا قیام،محنت کشوں کیلئے خصوصی نشستیں اور دوہری شہریت ،قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی میں کسی بل پر اتفاق رائے نہ ہوسکا، تمام بل موخر،مولوی فضل اللہ ایک بس کلینر تھا جو اب مسلمانوں کا امیر المومنین بننے کی کوشش کر رہا ہے،ارکان پارلیمنٹ کی کچی نوکری ہوتی ہے ان کو دوہری شہریت کی اجازت ہونی چاہئے،چیئرمین کمیٹی کا ظم خان، پارلیمنٹ کو نئے صوبے بنانے کی اجازت دے دی گئی تو جو حکومت آئے گی وہ مرضی کے صوبے بنانا شروع کردے گی،رضا ربانی

جمعہ 14 فروری 2014 03:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف کے اجلاس میں خواتین کو ہراساں کرنے کے قانون کے طالبات پر اطلاق،نئے صوبوں کے قیام،محنت کشوں کیلئے پارلیمنٹ میں خصوصی نشستوں،دوہری شہریت سمیت کسی بھی ترمیمی بل پر اتفاق رائے نہ ہوسکا جس کے باعث تمام ترمیمی بل آئندہ اجلاس تک موخر کر دیئے گئے،انتخابی قوانین میں ترمیم کا بل سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کی عدم حاضری کی وجہ سے مؤخر کردیاگیا،چےئرمین کمیٹی سینیٹر کاظم خان نے کہا ہے کہ مولوی فضل اللہ ایک بس کلینر تھا جو اب مسلمانوں کا امیر المومنین بننے کی کوشش کر رہا ہے،خواتین کو ہراساں کرنے کے کئے طریقے ہیں،انگریزوں کے نزدیک خواتین کی جانب انگلی اٹھانا بھی ہراساں کرنے کے مترادف ہے،ارکان پارلیمنٹ کی کچی نوکری ہوتی ہے ان کو دوہری شہریت کی اجازت ہونی چاہئے،الیکشن کمیشن جس نے انتخابات کروانا ہیں اگر وہ انتخابی قوانین میں ترمیم کے حوالے سے خاموش ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کا اجلاس کاظم خان کی صدارت میں جمعرات کو یہاں پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہوا جس میں ارکان سمیت وزارت قانون کے سپیشل سیکرٹری اور دیگر حکام شریک ہوئے۔اجلاس میں بحث کے دوران پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے معاملے میں تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو بھی شامل کیا جانا چاہئے،کیونکہ صدر مملکت نے قائد اعظم یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے والے استاد کو محض اس لئے نوکری پر بحال کردیا کیونکہ طالبات پر آفس ورک لاگو نہیں ہوتا،جعفر اقبال نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنا ایک حساس ایشو ہے جہاں مخلوط تعلیم ہے وہاں یہ قانون لاگو کرنے سے آدھے سے زیادہ کالج فارغ ہو جائیں گے۔

سپیشل سیکرٹری قانون نے اس پر کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے قانون کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا،اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی خواتین کام کرتی ہیں اور ان کو کوئی ہراساں کرتا ہے تو اس کیخلاف کارروائی کی جائے گی تاہم اگر ہم نے صرف طالبات کو شامل کرنا ہے تو پھر اس کیلئے ہمیں پوری قانون سازی کو تبدیل کرنا پڑے گا،اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس پر مزید سوچ وبچار کرلیا جائے،ویسے بھی تعلیمی اداروں میں طالبات اور اساتذہ ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ(ن) کے راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میں نے بھی کمیٹی میں بھجوانے کا کہا تھا،بل میں ایک لفظ بڑھا دینا کافی نہیں ہوگا،اس کا دائرہ کار بڑھانا ہوگا۔سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ خواتین کا ہراساں کیا جانا اب بڑھ رہا ہے،اس کے عملی طور پر اثرات کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے۔سینیٹر مگسی نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں طالبات اور اساتذہ کی عمر میں زیادہ فرق نہیں ہوتا،اسلئے وہاں خواتین کو ہراساں کیا جاسکتا ہے اس لئے اس بل میں ترمیم ہونی چاہئے،سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اگر اس قانون کو اخلاقی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو کمیٹی نے اگر اس کو مسترد کیا تو بیرونی دنیا میں اس کا غلط پیغام جائے گا کہ ہم خواتین کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو درست قرار دے رہے ہیں،اس قسم کی زیادتیاں تعلیمی اداروں کے اندر ہوتی ہیں،گریڈ بہتر کرنے اور دیگر معاملات میں بھی افسران اپنے ماتحت کو ہراساں کرتے ہیں،بیرونی دنیا کے مہذب معاشروں میں بھی یہ چیزیں ہوتی ہیں،میری تجویز یہ ہوگی کہ اس بل پر ایک اور اجلاس کر لیا جائے اور بعد ازاں اس کا فیصلہ کیا جائے،سینیٹر سید مظفر شاہ نے کہا کہ کام کرنے کی جگہ کا اطلاق طالبات پر نہیں ہوتا،انہیں بھی ہراساں کیا جاتا ہے،ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کو کام کرنے کی جگہ پر کس حد تک اس مسئلے سے بچایا جاسکتا ہے،اس پر سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ فی الحال اس پر معاملات کو مؤخر کردیتے ہیں،اس کو پھر دیکھیں گے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تشریح غلط ہورہی ہے،طالبہ اگر استاد کیخلاف شکایت کرے گی تو یہ بڑا رسک ہوگا،اس سے طالبہ کا مستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے،تاہم اگر ہم نے اس کو طالبات پر لاگو نہ کیا تو اس سے جس استاد کو سزا نہ ملی تو پورا معاشرہ اور نسل بدنام ہوگی،پیغام یہ جانا چاہئے کہ طالبات کو بھی اس قانون کا فائدہ ہوگا،بعد ازاں کمیٹی نے آرٹیکل 51-106میں ترمیم کے حوالے سے بھی غور وخوض کیا،جس میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں ہر صوبے سے محنت کشوں کیلئے ایک ایک سیٹ جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں چار چار خصوصی نشستیں الاٹ ہونی چاہئیں،اس پر سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ محنت کشوں کو ان کا حق نہیں ملتا،اسی وجہ سے سول سروس ایکٹ میں2Aآگیا اور عدالتوں میں بھی یہ دکھے کھا رہے ہیں،اس پر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ یہ تو طبقاتی نمائندگی کا آئیڈیا ہے،اس پر سیاسی جماعتوں کو ہی دیکھنا چاہئے اور وہ ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیں جن کا تعلق محنت کشوں سے ہو،چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ یہ تو پنڈورہ بکس کھل جائے گا،کل کو ڈاکٹر،اساتذہ اور دوسرے لوگ آجائیں گے کہ ہمیں بھی نمائندگی دیں،سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہر طبقے کو اپنے مسائل کا بہتر پتہ ہوتا ہے اس لئے یہ ترمیم ہونی چاہئے،سینیٹر مگسی نے کہا کہ میں بھی ترمیم کے حق میں ہوں،جمہوریت یہی ہے کہ ہر طبقے کو نمائندگی ملنی چاہئے،سینیٹر مظفر شاہ نے کہا کہ اس طرح تو ہاری اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے،تو کیا ان کو بھی نمائندگی دے دیں؟ظفر علی شاہ نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کا نظام موجود ہے،آج بھی آپ دیکھ لیں 60خواتین عوامی نمائندہ ہیں،جن کو عوام نے نہیں سیاسی جماعتوں اور مردوں نے چنا ہے،یہ پرویز مشرف کا دیا گیا نظام ہے،جس کو جو چیز پسند آتی ہے وہ اختیار کرلیتا ہے،میں مزدوروں کا حامی ہوں لیکن اس حوالے سے بہتر یہ ہوگا کہ تمام شعبوں کیلئے سیاسی جماعتیں خود ورک کریں،رضا ربانی کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں ہوگا،ورکروں کو شامل کیا جانا چاہئے،یہ تاثر غلط ہے کہ اس سے ڈرائیور یا کلینر پارلیمنٹ میں آجائیں گے،دنیا کے آئین کو دیکھیں تو انہوں نے محنت کشوں کو بھی پارلیمنٹ میں شامل رکھا ہے،ہاں ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ جس طبقے کی تنظیم نہیں ہے اس کو شامل نہیں ہونا چاہئے،اس پر چےئرمین نے کہا کہ مزید سوچ وبچار کرلیتے ہیں،بعد ازاں یہ معاملہ بھی مؤخر کردیاگیا،سینیٹر صغری امام کی جانب سے دوہری شہریت بارے بل پر بات کرتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹس کی دوہری شہریت نہیں ہونی چاہئے، بیوروکریٹس ہوں یا ارکان پارلیمنٹ اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوسکتے ہیں،لیکن دوہری شہریت کی وجہ سے یہ ممبر پارلیمنٹ نہیں ہوسکتے،میں اس کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ جو شخص امریکہ یا کسی دوسرے ملک کا وفادار ہے وہ اس ملک کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے،صغری امام کا کہنا تھا کہ جو امریکہ کا شہری بن جاتا ہے اسے باقی سب کی وفاداری چھوڑنا پڑتی ہے،سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ تو کچی نوکری والے ہوتے ہیں،یہ بات تو پکی نوکری والوں کیلئے ہونی چاہئے،تاہم میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے پر پاکستان بار کونسل،وائس چےئرمین اور سپریم کورٹ بار کے صدر کو بلا لیا جائے اور ان کا مؤقف بھی سن لیا جائے،اس پر صغری امام نے کہا کہ پرویز مشرف نے 2005ء میں امریکہ کی دوہری شہریت کی اجازت دی تھی،ایسا کب اور کیوں ہوا اس طرح کرنے والے کے ساتھ کیا ہونا چاہئے،اس حوالے سے وزارت قانون ہمیں ضرور آگاہ کرے گا،ملک حاکم خان نے کہا کہ موجودہ ججز میں جن کے پاس بھی دوہری شہریت ہے انہوں نے جس وقت جج کا عہدہ سنبھالا تھا اس وقت دوہری شہریت رکھنے پر قانون میں کوئی قدغن نہیں تھی،بعد ازاں کمیٹی نے یہ بل بھی مزید سوچ وبچار کیلئے مؤخر کردیا۔

آرٹیکل8میں ترمیم کے حوالے سے محسن لغاری کا ترمیمی بل بھی جائزے کیلئے پیش کیا گیا،جس میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے ایک ترمیم تجویز کی گئی،کہ جب بھی کوئی نیا صوبہ بنایا جائے اس کی عوام سے ضرور رائے لی جائے،کیونکہ جب پیپلزپارٹی دور میں بھکر اور میانوالی کو نئے صوبے میں شامل کیا جارہا تھا تو اس کی عوام نے جلوس اور ہڑتالیں کی تھیں،سینیٹر کاظم خان نے کہا کہ جب تک صوبائی حکومت اس کو منظور نہیں کرے گی بات آگے نہیں بڑھے گی،آخر اسمبلی میں ارکان پارلیمنٹ کی بھی تو کوئی رائے ہوگی،رضا ربانی نے کہا کہ اس بل پر انہیں کافی تحفظات ہیں کیونکہ اگر پارلیمنٹ کو نئے صوبے بنانے کی اجازت دے دی گئی تو پھر جو بھی حکومت آئے گی وہ اپنی مرضی کے صوبے بنانا شروع کردے گی،بہتر ہے کہ اس کو بھی ابھی منظور نہ کیا جائے،اس پر بھی مزید بحث ہونی چاہئے،بعد ازاں یہ بل بھی مؤخر کردیاگیا۔

انتخابی قوانین میں ترامیم کے حوالے سے ایک بل کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں ایک الیکشن کے کیس میں پیش ہونے کیلئے گئے ہوئے ہیں اسلئے وہ پیش نہیں ہوسکتے،اس پر کمیٹی نے اس بل کو بھی مؤخر کردیا،ان تمام بلز پر آئندہ کے اجلاس میں ایک بار پھر غور کیا جائے گا۔