قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ملک میں معذور افراد کے لئے نشستیں مخصوص کرنے کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا ، ملک میں اقلیتوں کے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافے اور انہیں جداگانہ انتخاب اور دوہرے ووٹ کے حق دینے بارے بل کو مزید غوروخوض کے لئے آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا

منگل 18 فروری 2014 07:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ملک میں معذور افراد کے خلاف اظہار ہمدردی کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں ان کے لئے نشستیں مخصوص کرنے کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا جبکہ ملک میں اقلیتوں کے مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافے اور انہیں جداگانہ انتخاب اور دوہرے ووٹ کے حق دینے کے بارے میں بل کو مزید غوروخوض کے لئے آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز چیئرمین محمود بشیر وردک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ڈاکٹر رمیش کمار ،کشورہ زہرا کی جانب سے پیش کئے گئے دو بلوں پر غوروخوض کیا گیا۔کشورہ زہرا نے اپنے بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اس وقت معذور افراد کی تعداد 10 فیصد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے اس کے علاوہ معذور افراد کے لئے سرکاری ملازمتوں میں مختص کئے گئے دو فیصد کوٹہ پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا ۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ معذور افراد کے لئے ایوان میں نشستیں مختص کی جائیں تا کہ ان کے نمائندے،ان کے حقوق کا تحفظ کر سکیں تاہم تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے بل کی حمایت کی جبکہ سیکرٹری قانون و انصاف رضا خان اور اجلاس میں موجود دیگر جماعتوں کے ارکان جن میں پاکستان مسلم لیگ نواز،پیپلزپارٹی ،جے یو آئی (ف) اور دیگر شامل تھیں۔انہوں نے بل کی مخالفت کی ۔

مخالفین کا موقف تھا کہ اگر معذور افراد کو ایوان میں نمائندگی دی گئی تو اور ان کے لئے نشستیں مخصوص کی گئیں تو دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے لوگ بھی اپنے لئے نشستیں مانگیں گے اورپھر اس طرح کے بلوں کی کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہو جائے گا اور معاشرے میں تقسیم در تقسیم ہوتی جائے گی ۔اس طرح کمیٹی نے یہ بل کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ڈاکٹر رمیش کمار کی جانب سے پیش کردہ بل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 2002 ء میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی جماعتیں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ایوان میں مخصوص نشستوں پر منتخب کرتے ہیں جس کی وجہ سے منتخب نمائندے اپنی برادریوں سے تعلق رکھنا چھوڑ دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے مطالبوں پر غور کرتے ہیں ۔

ان کا مطالبہ تھا کہ غیر مسلموں کو دوہرے ووٹ کا حق بھی دیا جائے جیسا کہ پاکستان میں بسنے والے کشمیری عوام کو دیاجاتا ہے جو کہ کشمیر اسمبلی کے لئے بھی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اسی طرح پاکستان کی اسمبلی کے لئے بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تعلق رکھنے والے نمائندوں کے لئے الگ سے حلقہ بندیاں کی جائیں جہاں پر الگ سے انتخاب لڑ سکے تا کہ وہ اپنی برادریوں کے حقوق کا صحیح تحفظ کر سکیں ۔

اس پر کمیٹی نے متفقہ رائے دی کہ تاحال ملک میں مردم شماری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اقلیتوں کے لئے حلقہ بندیوں اور ان کی ملک میں صحیح تعداد کے بارے میں اندازا نہیں لگایا جا سکتا ۔مزید برآں پیش کردہ بل میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حلقہ بندیاں کس بنیاد پر کی جائیں گی ۔کیا ملک بھر میں ایک ہی حلقہ ہوگا یا ڈویژن کی لیول پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی ۔

محمود بشیر وردک کا کہنا تھا کہ 17 ویں ترمیم کے تحت جہاں قومی اسمبلی کے حلقہ کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا اسی طرح اصل سے اقلیتوں کے لئے بھی مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جاناچاہیے جو نہیں کیا گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے لئے جداگانہ انتخاب اور دوہرا ووٹ ڈالنے کے متعلق اور بل بھی ایوان میں پیش ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے ان بلوں کو بھی جمع کر کے اس پر غور کیا جا سکتا ہ۔ارکان کمیٹی کی رائے تھی کہ اقلیتوں کو ووٹ کے معاملے پر دیگر بلوں کوایک ساتھ ملا کر فیصلہ کیا جائے تاہم اس میں دیگر نہ لگائی جائے اس طرح کمیٹی نے یہ بل آئندہ اجلاس میں غوروخوض کیلئے ملتوی کر دیا۔

متعلقہ عنوان :