پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا1993 ء میں بغیر بینک گارنٹی لئے سرکاری محکموں کو نجی تحویل میں دیئے جانے پر شدید تحفظات کا اظہار، کرتے ہوئے سیکرٹری نجکاری کمیشن کو آج طلب کرلیا،سابق ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز کو برطرفی کے بعد این آر او کے تحت بحالی پر سابقہ بقایاجات کی ادائیگی کے معاملے کا بھی سخت نوٹس ، بقایاجات کی ادائیگی کی منظوری دینے والے مجاز حکام کے بارے میں تفصیلات تین ہفتے میں طلب، بدقسمتی ہے کہ بہت سے سرکاری اداروں کو بغیر سربراہوں کے چلایاجارہا ہے،شفقت محمود

منگل 18 فروری 2014 07:12

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی نے1993 ء میں بغیر بینک گارنٹی لئے سرکاری محکموں کو نجی تحویل میں دیئے جانے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹرینجکاری کمیشنکو آج بروز منگل طلب کرلیاتاکہ ان سے موجودہ حکومت کے نجکاری پروگرام کے بارے میں تفصیلات حاصل کی جاسکیں اور یہ طے کیا جاسکے کہ نجکاری کمیشن کے پاس حکومت کی نجکاری پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں۔

کمیٹی نے سابق ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز کاپوریشن کو برطرفی کے بعد این آر او کے تحت بحالی کے بعد ان کی سابقہ بقایاجات کی ادائیگی کے معاملے کا بھی سخت نوٹس لیا اور ان بقایاجات کی ادائیگی کی منظوری دینے والے مجاز حکام کے بارے میں تفصیلات تین ہفتے کے اندر طلب کرلیں اور کنوینئر کمیٹی شفقت محمود نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے سرکاری اداروں کو سربراہوں کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں کنونیئر شفقت محمود کی زیر صدارت ہوا جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے مالی حسابات کے بارے میں آڈٹ اعتراضات برائے مالی سال 1998-99 ء کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے سابق حکومت کی جانب سے سابق حکومت کی نجکاری پالیسی کے تلخ تجربات کے پیش نظر سیکرٹری نجکاری کمیشن کو طلب کرلیا۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 1993 ء میں حکومت نے بہت سے ادارے نجی تحویل میں دیئے تھے لیکن اس وقت جن لوگوں کو یہ ادارے بیچے گئے تھے ان سے بینک گارنٹی نہیں لی گئی تھی اس پر کمیٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ بیس اکیس برس سے یہ معاملات چل رہے ہیں اور تاحال جن لوگوں کو ادارے بیچے گئے ان سے واجب الادا رقوم بازیاب نہیں کرائی جاسکیں۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ اس سے محکموں کی بھی سرکاری اداروں کے بارے میں سرد مہری کا اظہار ہوتا ہے۔ بیورو کریسی نے قومی ادارے بیچنے کے بعد ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا۔

وزارت صنعت و پیداوار کے حکام یہ موقف اختیار کرتے رہے کہ نجکاری کمیشن کی ہدایات پر ادارے بغیر بینک گارنٹی کے نجی مالکان کے حوالے کئے گئے تھے تاہم کمیٹی نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ تین ہفتے میں طلب کرلی۔ اس کے علاوہ سیکرٹری نجکاری کمیشن کو بھی طلب کرلیا کیونکہ کنونیئر کمیٹی کا کہنا تھا کہ نجکاری کمیشن کے پاس سرکاری اداروں کو نجکاری کرنے کے بعد ان کی مانیٹرنگ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس کے علاوہ نجکاری کمیشن کے پاس ایسے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کی نجکاری پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی بھی صلاحیت نہیں ہے اس لئے سیکرٹری نجکاری کمیشن کمیٹی کو آج بروز منگل اس حوالے سے آگاہ کریں، اس کے علاوہ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے سابق ایم ڈی صادق احمد علی کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت عہدے سے برطرف کیا گیا تھا لیکن این آر او کے تحت ان کو نہ صرف بحال کیا گیا بلکہ برطرفی کے عرصے کے دوران ان کو بقایا جات بھی ادا کئے گئے کمیٹی نے اس کا سخت نوٹس لیا اور وزارت سے اس حوالے سے وضاحت طلب کرلی۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ بقایا جات کی ادائیگی کی کس مجاز اتھارٹی نے منظوری دی تھی اس کے بارے میں بھی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں کیونکہ بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرفی کے مقدمات این آر او کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔ سیکرٹری وزارت صنعت وپیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت کے زیر انتظام چلنے والے بہت سے اداروں کے چیئرمین یا ایم ڈی نہیں ہیں جس پر کنونیئر شفقت محمود کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ موجودہ حکومت بہت سے سرکاری محکموں کو بغیر سربراہوں کے چلا رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :