سپریم کورٹ کا خیرالرحمن لاپتہ کیس میں ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں نامزد ملزم پولیس افسر کے خلاف محکمانہ اور عدالتی کارروائی کر کے رپورٹ22 اپریل تکجمع کرانے کا حکم،ٹھوس شہادت اور مواد نہ ہونے کی وجہ سے حساس اداروں کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، جسٹسثاقب نثار،لاپتہ افراد کے لواحقین کی تکلیف سے آگاہ ہیں یہ ہمیں اپنی تکلیف لگتی ہے، جب سے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع کی ہے کبھی سکون کی نیند نہیں سو سکا،ریمارکس

جمعرات 20 فروری 2014 07:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20فروری۔2013ء)سپریم کورٹ نے خیرالرحمن لاپتہ کیس میں ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں نامزد ملزم پولیس افسر محمد انور کے خلاف محکمانہ اور عدالتی کارروائی کر کے رپورٹ22 اپریل تک سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے اور جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹھوس شہادت اور مواد نہ ہونے کی وجہ سے حساس اداروں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کی تکلیف سے آگاہ ہیں یہ ہمیں اپنی تکلیف لگتی ہے ان کی پریشانی سے ہم پریشان ہوتے ہیں۔پولیس نے اگر خیر الرحمن کے والد کے انگوٹھوں سے معافی نامہ یا مقدمے سے دستبرداری نامہ لکھوایا گیا تو اس کوقبول نہیں کیا جائیگا جو ملزم اس کو ضرور سزا ملنی چاہیے، جب سے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت شروع کی ہے کبھی سکون کی نیند نہیں سو سکا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔خیر الرحمن لاپتہ کیس کی سماعت جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز کی۔اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئیں۔ حساس اداروں کی رپورٹ بارے جسٹس ثاقب نثار نے بتایا کہ حساس اداروں نے کہا ہے کہ خیر الرحمن حراستی مراکز میں نہیں ہے جس کو ملزم قرار دیا گیا تھا اس کے خلاف فرد جرم عائد ہوگئی ہے ۔

تین مارچ کو دوبارہ سے ٹرائل کورٹ میں سماعت ہے۔ ہم ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں ٹرائل کر کے فیصلے کرنے کی ہدایت کررہے ہیں ۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ ہائی کورٹ میں کیس ہے۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ میں نہیں ٹرائل کورٹ میں ہے۔کیا کوئی ٹھوس شہادت یا میٹریل موجود ہے کہ جس کی روشنی میں ہم حساس اداروں کے خلاف کارروائی کریں ۔ارشد کے حوالے سے محکمانہ کارروائی اور عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے ۔

آمنہ مسعود نے کہا کہ صرف انور ہی اس میں ملوث نہیں ہے اور بھی پولیس کے لوگ ملوث ہیں ۔اس کے پورے خاندان کو اٹھایا گیا ہے ۔4 سے5 سالوں میں صرف اتنی پیش رفت سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ملزم کے خلاف ماتحت عدالت میں ٹرائل چل رہا ہے ۔قانون کو اپنا کام کرنے دیں ۔دو ماہ میں فیصلہ کرنے دیں اس کے بعد اس کو دوبارہ سماعت کے لئے لگادیں گے ۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیبتایا کہ خیر الرحمن ایجنسیوں کے پاس نہیں ہے ۔پولیس پر الزام ہے اور اب انور کے خلاف کیس چل رہا ہے۔ٹرائل کے نتیجے کا انتظار کرنا پڑے گا۔عدالت نے دو ماہ میں فیصلے کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تکلیف ہمیں اپنی تکلیف لگتی ہے ان کی پریشانی سے ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔

خیر الرحمن کے اہلخانہ بھی گواہی دینے ضرور جائیں ۔ہم کہہ دیتے ہیں کہ اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے۔خیر الرحمن کے والد نے عدالت کو بتایا کہ ہم سے خالی کاغذوں پر انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ انگوٹھے نہ لگائیں ۔جسٹس اعجاز نے کہاکہ اس کا عدالتی سماعت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آمنہ مسعود نے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود پولیس انہیں ہراساں کررہی ہے تاہم پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔

خیرالرحمن کے والد نے بتایا کہ گن پوائنٹ پر مجھ سے انگوٹھے لگوائے گئے ہیں ۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ عدالت سے باہر کوئی بھی کاغذ پر انگوٹھے لگوائے گئے ہیں ان کا جائزہ نہ لیا جائے ۔عدالت کو بتایا گیا کہ دو نمبروں سیٹیلی فون کل کی گئی ہے۔ایک تھانے کا نمبر ہے ۔باجوڑ ایجنسی میں رہ رہا تھا۔ رجسٹرار کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے ۔

جسٹس ثاقب نے کہا کہ ان نمبروں کا پتہ کریں ۔والد نے بتایا کہ مجھ سے معافی نامہ پر دستخط کرائے گئے ہیں ۔جسٹس ثاقب نے کہا کہ خیر الرحمن کے والد سے جو مرضی لکھوالیں انگوٹھے لگوالیں۔معافی نامہ قابل قبول نہ ہوگا۔ ان کے گھر والوں کے حوالے سے معلومات حاصل کی جائیں۔ دستبرداری نامہ اور معافی نامہ قبول نہیں ہوگا۔ عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت22 اپریل تک کے لئے ملتوی کر دی۔